’آئندہ بجٹ میں سگریٹ پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی کا نفاذ ناگزیر ہے‘
تمباکو کے خلاف کام کرنے والی تنظیموں اور کارکنوں نے حکومت کو خبردار کیا ہے کہ اگر آئندہ بجٹ میں حکومت نے فیڈرل ایکسائیز ڈیوٹی نہ بڑھائی تو حکومت ٹیکس اصلاحات سے حاصل ہونے والا ریونیو اور ٹیکس ریفارمز کے دیگر فوائد حاصل نہیں کر سکے گی۔
دی سوشل پالیسی اینڈ ڈویلپمنٹ سینٹر کی جانب سے جاری کردہ ایک تحقیق میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں 31.6 ملین بافراد تمباکو کا استعمال کرتے ہیں جس کے نتیجے میں سالانہ ایک لاکھ 6 ہزار سے زیادہ اموات ہوتی ہیں۔ تمباکو نوشی سے متعلق بیماریوں اور اموات کی وجہ سے پاکستان کی سالانہ جی ڈی پی کا کم از کم 1.4 فیصد خرچ ہوتا ہے۔
تحقیق کے مطابق وفاقی حکومت کی اصلاحات کی بدولت مالی سال 2022-23 میں تمباکو پر عائد فیڈرل ایکسائیز ڈیوٹی کی وجہ سے رواں مالی سال کے پہلے 5 مہینوں میں 122 بلین روپے تک محصولات حاصل ہوئی ہیں۔
تحقیق میں کہا گیا ہے کہ ان اصلاحات نے نہ صرف آمدنی میں اضافہ کیا ہے بلکہ تمباکو کی کھپت کو کم کرکے اور پاکستان میں تمباکو نوشی سے منسلک صحت کی دیکھ بھال کے کل اخراجات کے 17.8 فیصد کی ممکنہ طور پر وصولی کے ذریعے صحت عامہ میں بھی اہم کردار ادا کیا ہے۔
تحقیق میں کہا گیا ہے کہ تمباکو ٹیکس کی موجودہ شرح کو برقرار رکھنے کے نتیجے میں صحت کی بحالی میں 17.8 فیصد سے 15.6 فیصد تک کمی واقع ہو سکتی ہے اور 2023-24 میں صحت کی لاگت کی بحالی کی اسی سطح کو حاصل کرنے کے لیے آئندہ سال کے لیے فیڈرل ایکسائیز ڈیوٹی کی شرح میں 37 فیصد اضافے کی تجویز دی گئی ہے۔
تمباکو نوشی کے خلاف کام کرنے والے کارکنان کا خیال ہے کہ ٹیکس میں اضافے سے غیر قانونی تجارت کو فروغ نہیں ملے گا، کیونکہ تحقیقی شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ تمباکو کی فرمز ٹیکس پالیسی پر اثر انداز ہونے اور ٹیکس سے بچنے کے لیے اپنی رپورٹ شدہ پیداوار میں ہیرا پھیری کرتی ہیں۔
کارکنان نے مزید کہا کہ حال ہی میں شروع کیے گئے ٹریک اینڈ ٹریس سسٹم سے توقع ہے کہ وہ جعلسازی کوکم کرے گا، غیر قانونی تجارت کو روکے گا اور فرنٹ لوڈنگ پر نظر رکھے گا۔
تحقیق میں کہا گیا کہ بجٹ 2024-25 کے لیے ٹیکس کی مجوزہ شرحوں کا مقصد ریٹیل قیمت میں فیڈرل ایکسائیز ڈیوٹی کا حصہ 70 فیصد تک بڑھانا، اضافی ریونیو پیدا کرنا اور صحت عامہ کو فروغ دینا ہے۔
Comments are closed on this story.