دس سگریٹ پیک بنانے کی اجازت ملنے سے قومی خزانے کو سالانہ 50 ارب روپے کا نقصان کا خدشہ
صحت عامہ سے منسلک سماجی کارکنوں نے گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے تمباکو انڈسٹری کی طرف سے 10 اسٹک سگریٹ پیک متعارف کرانے کی حالیہ کوششوں پر سوال اٹھا دیا ہے۔
سول سوسائٹی ممبران کے مطابق، یہ اقدام نہ صرف تمباکو کے کنٹرول میں ہونے والی پیش رفت کو خطرے میں ڈال سکتا ہے بلکہ اس سے بچوں اور کم آمدنی والے افراد پر بھی براہ راست اثر پڑے گا، جو تمباکو کے استعمال کے مضر اثرات کا سب سے زیادہ شکار ہیں۔
کنٹری ہیڈ ”کمپین فار ٹوبیکو فری کڈز“ ملک عمران احمد کا کہنا ہے کہ تمباکو انڈسٹری کی طرف سے 10 اسٹک پیک متعارف کرانے کی کوششیں بہت پریشان کن ہیں۔ اس سے نہ صرف تمباکو کے کنٹرول میں ہونے والی پیش رفت کو نقصان پہنچے گا بلکہ ان بچوں اور کم آمدنی والے افراد کو بھی براہ راست نشانہ بنایا جائے گا جو تمباکو کے استعمال کے مضر اثرات کا سب سے زیادہ شکار ہیں۔
انہوں نے کہا کہ دنیا کے بہت سے ممالک نے سنگل اسٹک اور کم اسٹک پیکٹ کی فروخت پر پابندی عائد کردی ہے، کیونکہ یہ بچوں، نوجوانوں اور کم آمدنی والے گروہوں کے لیے خریدنا آسان ہیں اور اس وجہ سے نظام صحت پر بیماریوں کی وجہ سے بوجھ بہت زیادہ ہے۔
عمران احمد نے مزید کہا کہ تمباکو انڈسٹری کا معیشت میں سب سے زیادہ شراکت دار ہونے کے دعوے سراسر جھوٹ ہیں۔ یہ حصہ براہ راست ٹیکسوں کی شکل میں وہ مجبوراً ادا کر رہے ہیں، اور یہ ٹیکس بھی ڈبلیو ایچ او اور ورلڈ بینک کے تجویز کردہ معیار سے کم ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ درحقیقت، تمباکو کی صنعت اب بھی انڈر رپورٹنگ، پرائس ایڈجسٹمنٹ، اور اپنی مصنوعات کو غیر قانونی مارکیٹ میں بیچنے جیسی صورت حال سے منافع کما رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ اگر 10 سگریٹ والے پیکٹ کو برآمد کرنے کی اجازت دی جاتی ہے، تو اس بات کا ٹھوس خدشہ ہے کہ تمباکو کی صنعت انہیں مقامی مارکیٹ میں فروخت کرے گی اور جب ان سے پوچھ گچھ کی جائے گی تو وہ کہیں گے کہ یہ کسی اور کی بنائی گئی جعلی مصنوعات ہیں۔ لہٰذا، لوگوں کو محفوظ رکھنے کے لیے یہ بہتر ہے کہ ان پیکٹوں کو اجازت نہ دی جائے۔
ملک عمران احمد نے کہا کہ تمباکو کی صنعت کے پاس ان نام نہاد برآمدی سودوں کے لیے کوئی قانونی اجازت نامہ نہیں ہے، اور ان مہلک مصنوعات کی وجہ سے قومی خزانے پر پڑنے والا بوجھ ان نام نہاد برآمدی سودوں سے کہیں زیادہ ہے۔ اس لیے حکومت کو چوکنا رہنا چاہیے۔
سپارک کے پروگرام مینیجر ڈاکٹر خلیل احمد ڈوگر کا کہنا ہے کہ تقریباً 31.9 ملین بالغ جن کی عمریں 15 سال یا اس سے زیادہ ہیں، موجودہ تمباکو استعمال کرنے والوں کے طور پر رپورٹ کیے گئے ہیں، جو بالغ آبادی کا تقریباً 19.7 فیصد ہیں، تمباکو کے استعمال کے سنگین نتائج انفرادی صحت سے کہیں زیادہ ہیں۔
ڈاکٹر خلیل نے حکومت پر زور دیا کہ وہ صحت عامہ کے تحفظ اور تمباکو کی صنعت کی طرف سے بچوں اور کم آمدنی والے گروہوں کے استحصال کو روکنے کے لیے فعال اقدامات کرے۔
انہوں نے کہا کہ ہم حکام سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ ایسی کسی بھی تجویز کو مسترد کر دیں جس سے ہمارے شہریوں کی صحت اور تندرستی کو خطرہ ہو۔
Comments are closed on this story.