’میری مہک مہکتی رہے گی‘، فیسٹولا جیسے مرض سے بیٹی بچاؤ، ماں کو سمجھاؤ مثبت سوچ اپناؤ
اماں میں بہت خوش ہوں ہاں بہت خوش۔۔ اسکول سے آتے ہی مہک نے اپنی ماں تبسم مائی کے گلے میں ہاتھ ڈالتے ہوئے کہا، اماں میری ٹیچر نے آج کلاس ٹیسٹ میں مجھے سو میں سے سو نمبر دیے ہیں، ساتھ ہی کلاس کی پانچ اور لڑکیوں کو بھی، اب ہم چھ لڑکیاں مقابلے کے امتحان میں جائیں گی، پانچویں کلاس کے مقابلہ کے امتحان کے بعد ہمں اسکالر شپ ملے گی، پتا ہے اسکالر شپ کیا ہوتی ہے؟ آٹھویں تک تعلیم مفت اور آٹھویں کا مقابلہ کا امتحان بھی پاس کیا تو دسویں تک ۔۔ اور ۔۔ اور ۔۔ میں ایسے ہی پاس ہوتے ہوتے سرکاری خرچے پر ڈاکٹر بن جاؤں گی۔ تبسم مائی نے اپنے بیٹی کو پیار کیا اور کہا، کیا تم بھی استانی کی باتوں پر کان دھر رہی ہو، بس اب تو تم پرائی ہوگئی ہو، استانی کو بتا دو کہ اب تم اسکول نہیں جاؤ گی، ہماری مہک اب دلہن بنے گی۔
یہ بات سنتے ہی پانچویں کلاس کی طالبہ جو اپنے گاؤں کے اسکول کی نہ صرف پڑھائی کی ہونہار طالبہ ہے بلکہ ہم نصابی او کھیلوں کی سرگرمیوں میں بھی نمایاں پوزیشن حاصل کرتی ہے، اسکول کے ہر انسپکشن میں مہک اور اس کی طرح کی دیگر باصلاحیت طالبات کو اسکول کا سرمایا سمجھا جاتا ہے، یہاں تک کہ مہک کو مقابلے کے امتحان میں شمولیت کے لئے بھی منتخب کرلیا گیا ہے جس کے بارے میں معلمات کا کہنا ہے کہ اگر یہ امتحان پاس کرلیا تو ایک ایک کر کہ ہر امتحان میں مہک کامیاب ہوکر جب تک چاہے خوب محنت کر کہ اسکالر شپ لے سکتی ہے اور اپنے خواب پوے کر سکتی ہے۔
مہک چاہتی ہے کہ وہ ڈاکٹر بنے، لیکن آج وہ خوش تھی اور ساتھ ہی اس کا دل بھر آیا ماں کی بات سن کر کہ وہ کل سے اسکول نہیں جائے گی۔ اب کچھ دنوں میں اس کی شادی ہونے والی ہے اور وہ بھی اس کے چاچا کی بھی کیونکہ ان کے خاندان میں وٹہ سٹہ یعنی رشتہ بدل رشتہ کا رواج ہے، تو چاچا کی شادی جہاں ہورہی ہے اس لڑکی کے بھائی کے ساتھ مہک کا رشتہ طے پایا ہے۔
مہک پانچویں جماعت میں پڑھتی ہے، ابھی اس کے کھیلنے کودنے کے دن ہیں، کم عمر ہے، کتابوں میں اپنا مستقبل دیکھتی ہے، وہ ڈاکٹر بننا چاہتی ہے، لیکن تبسم نے اسے صاف کہہ دیا ہے کہ وہ اسکول جانا بھول جائے کل سے ان کے گھر سے مہمان آنا شروع ہورہے ہیں۔
یہ فیصلہ سنانے کے بعد اس کی ماں نے اسے نظر انداز کرنا شروع کردیا ہے، مہک کھانا نہیں کھا رہی تو اس نے اپنے چھوٹے بچوں کو کہہ دیا کہ ابھی اس کے دماغ میں فتور ہے، رو دھو کر ٹھیک ہوجائے گا، جب زیادہ بھوک لگے گی تو خود ہی کھالے گی۔
تبسم مائی ساتھ ہی پیٹیوں میں سے اپنے جہیز کے کپڑے نکالنے لگی، ساتھ ہی اپنی ساس نزیراں مائی سے پوچھنے لگی کہ آنے والی دلہن کے جوڑے اور مہک کے جوڑے کون کون سے ہوں۔ اتنے میں اسے یاد آیا کہ اس کا ایک جوڑا جیون مائی ایک شادی پر پہننے کے لئے لے گئی تھی۔ تبسم اپنی ساس نزیراں مائی کو کہنے لگی کہ میں بھی کتنی بھلکڑ ہوں دوسال ہوگئے جیون مائی سے اپنا جوڑا واپس ہی نہیں لیا۔چلو میں ابھی جاکر اس سے لے آتی ہوں۔ یہ کہہ کر تبسم مائی جیون کے گھر کے لئے نکل گئی۔
تبسم مائی جیون مائی کے گھر پہنچتی ہے، جیون مائی نے اپنے انداز میں اسے جم جم آؤ کہا، میری بہن آج کیسے راستہ بھول گئی پوچھتے ہوئے اسے اپنے کمرے میں لے جانے لگی تو ساتھ ہی کہا کہ باہر ہی بیٹھتے ہیں، رانو سو رہی ہے اور باہر بیٹھ کر باتیں کرنے لگی۔ رانو جو کہ جیون مائی کی بیٹی ہے کچھ دیر میں ہاتھ میں یورین بیگ اٹھائے کمرے سے نکلی۔ اسے شائد معلوم نہیں تھا کہ گھر میں کوئی آیا ہے۔ساتھ ہی واپس کمرے میں جانے لگی تو تبسم نے کہا، ہائے میں مر ونجاں، یہ تھیا، (سرائیکی لوگ کسی کے احساس میں یہ جملہ بولتے ہیں) ساتھ ہی جیون مائی پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔
میری دھی اُجڑ گئی میں برباد ہوگئی۔ رانو کو بدبو والی بیماری ہوگئی ہر وقت پیشاب رستا ہے۔ اس کا بندہ (شوہر) اس کو طلاق دے گیا یہ اور اس کی بیٹی دوسال سے ہمارے پاس ہی ہیں علاج کروا کروا مایوس ہوگئے ہیں۔ اس کا دکھ تو کسی کو نہیں بتا سکتے ساتھ ہی ہمارے گھر بھی رشتہ دار بہت کم آنے لگے ہیں۔
ہائے ہائے ہماری پیاری دھی رانو کو یہ بیماری کیسے ہوگئی، اس کا علاج کیا ہے؟ اس کے بندے نے کیوں چھورا اس کی ساس تو تمہاری ممیر (ماموں زاد ) بھی تھی اور اس کے وٹہ (رشتہ بدل رشتہ ) تمہارے جیٹھ (شوہر کے بڑے بھائی) کے ساتھ تھا؟ اب تمہاری جیٹھانی بھی واپس چلی گئی؟ اتنے سارے سوالوں کا کیا کیا جواب ہوتا، جیون مائی نے بتایا کہ شہر کی ڈاکٹر نے تو نئی منظق بتائی کہ نکی عمر میں شادی (کم عمری میں شادی) کی وجہ سے اس کو یہ بیماری لگی ہے۔ اس کا بندہ پہلے ہی دوبچوں کا باپ تھا، اب بھی اس نے تیسری کر لی ہے ہماری بیٹی بیمار کر کہ بدبودار کہہ کر ہمارے دروازے پھینک گیا۔ اس کو میری بڑی نند نے اپنی بیٹی کا رشتہ دے کر اپنے بھائی کا گھر ٹوٹنے سے بچا لیا۔ ہم تو رشتہ داریوں سے بھی باہر ہوگئے اور بیٹی بھی ہر وقت نکی سی عمر میں اس قدر دکھ میں ہے کہ اپنی گود کی بیٹی کو بھی دیکھتی ہے بیمار بھی الگ ساتھ ہی طلاق بھی ہوگئی نہ کسی سہیلی سے ملنا نہ میں تو اپنی بیٹی کے چہرے پر مسکراہٹ دیھکنے کو ترس گئی ہوں۔ خیر بہن تمہارا خیر کا آنا ہوا، بس آتی جاتی رہنا، کسی کو نہ بتانا کہ ہم کس حال میں ہیں لوگ طرح طرح کی باتیں کرتے ہیں۔
جیون مائی کی بات سن کر تبسم جس کی آنکھیں آنسوؤں سے بھر گئیں تھیں، تھوڑا سا مسکرائی اور بولی کہ بہن کے گھر آنے کے لئے بھی کوئی کام ہونا چاہیئے، بس جی چاہا کہ آپ سے ملوں اور آگئی۔ میری مہک کے مقابلے کے امتحان ہونے والے ہیں کہتی ہے کہ وظیفہ لگے گا سرکاری خرچے پر ڈاکٹر بننے کا سوچتی ہے جیون جوگی، دعا کرنا وہ کامیاب ہوجائے، تم رانو کو ہمارے گھرلانا ایسے ہی نہ گھر میں بند کر کے رکھو، میرا سوہنا اللہ صحت دے گا، یہ کہہ کر تبسم مائی اپنے گھر جیون مائی سے اجازت لیتے ہوئے اپنے گھر واپس آگئی۔
سر جھکائے گھر داخل ہونے پر اس کی ساس نے پوچھا اری کوار (سرائیکی میں ساس دلہن، بہو کو کوار کہ کر پکارتی ہیں) تیرا جوڑا تجھے واپس نہیں ملا؟ تبسم نے کہا کہ نہیں مجھے اس کی ضرورت نہیں، میری مہک کہاں ہے، میری شہزادی میری ڈاکٹر دھی، کمرے میں مہک تو ابھی تک آنسو بہا بہا کر ہلکان ہورہی تھی، تبسم نے اپنا اور مہک کا کھانا پلیٹ میں ڈالا اور مہک کو گود میں بٹھاتے ہوئے کہا کہ بس میری ڈاکٹر دھی چپ کر جا، نہ، بالکل نہیں، تیری شادی ابھی نہیں ہوگی، تم پڑھو، وظیفہ لو خوب محنت کر کہ ڈاکٹر بنو، ساتھ ہی اپنی ساس کے آگے ہاتھ باندھ کر ادب سے کہا پیاری اماں میری بیٹی ابھی نکی ہے جب تک سولہ سال کی نہیں ہوجاتی اس کی شادی نہیں کروں گی، شادی بھی ایسے لوگوں میں کروں گی جو اس کے پڑھنے اور ڈاکٹر بننے کے خواب پورے کرے ، کیونکہ ہمارے دیہات میں ہر گھر میں مریض ہے، لیکن ڈاکٹر تو کوئی نہیں علاج کے لئے شہروں میں جانا پڑتا ہے، میری دھی نکی عمر میں دلہن نہیں بنے گی بلکہ پڑھے گی۔
اپنی بہو کو پہلی بار اس طرح بات کرتے ہوئے، جیسے نذیراں مائی پر غصہ غالب آرہا تھا لیکن تبسم کی اپنی بیٹی سے محبت کا یہ نیا انداز دیکھ کر نزیراں پسیج رہی تھی۔
نزیراں نے کہا، ہاں ہاں تم سچی ہو، ہمارے خاندان میں تم بھی میں بھی ہماری سب ہی بہنیں سکھیاں نکی عمر میں دلہن بنیں لیکن اب ہماری مہک ڈاکٹر بنے گی، ہاں ساتھ ہی اس نے بھی اپنی پوتی کو گلے لگالیا۔
چند ہی لمحوں میں رانو کا دکھ کم عمری، نا سمجھی اور اپنے جنسی حقوق سے مکمل ناواقفیت کے باعث رانو اپنے شوہر کو کبھی نہ اپنی تکالیف بتا سکیں نہ کبھی ان کو انکار کر سکیں۔ رانو کو سمجھنے والی تبسم شائد یہ نہیں جانتی کہ رانو فیسٹولا کے مرج میں مبتلا ہے جنوبی پنجاب اور سندھ میں 85 فیصد عورتیں گھروں میں زچگی کے عمل سے گزرتی ہیں اور ان کی بڑی تعداد زچگی کے بعد فسٹولا کا شکار ہوجاتی ہیں۔
فسٹولا والی عورتیں عموماً طلاق دے کر گھر سے نکال دی جاتی ہیں۔ پیشاب و پاخانے پر جسم کا کنٹرول نہ ہونے سے جو تعفن پھیلتا ہے اسے اردگرد والے بھلا کیوں برداشت کریں؟
ماہر امراض نسواں (فیسٹولا اسپیشلٹ) ڈاکٹر فرزانہ نواز کا کہنا ہے کہ جن بچیوں کی بہت کم عمری میں شادیاں کردی جاتی ہیں وہ بنیادی تعلیم سے محروم رہ جاتی ہیں۔ ایسی صورت میں ان کے اندر شوہر کے ساتھ جنسی تعلقات کو استوار کرنے کی سمجھ بوجھ نہیں ہوتی نہ ان کو اپنے جنسی حقوق کی آگاہی ہوتی ہے، وہ شادی کی صورت میں جنسی طور پر تو فعال ہو جاتی ہیں لیکن ان کی ہڈیاں اتنی مضبوط یا مکمل نہیں ہوتیں کہ وہ چھوٹی عمر میں حمل اور زچگی سے بآسانی گزر سکیں۔
ڈاکٹر فرزانہ نواز کے مطابق کم عمری کی شادی میں بچیاں بہت جلدی حاملہ ہو جاتی ہیں اور پھر صحت کے ان مسائل کی ایک طویل فہرست ہے جس کا سامنا چھوٹی عمر میں ماں بننے والی بچیوں کو کرنا پڑتا ہے۔ اس میں غیر محفوظ ابارشن، بچے کا مردہ حالت میں پیدا ہونا، دوران زچگی بہت زیادہ بلیڈنگ کے باعث جان کی بازی ہار جانا بھی شامل ہے۔ فیسٹولا جیسا سنگین مسئلہ کم عمری میں ماں بننے والی بچی کی زندگی کو بدترین حالات میں لے جاتا ہے۔
فسٹیولا کیا ہے؟ دراصل حمل اور زچگی کے دوران ماں کی مناسب دیکھ بھال نہ ہونے کی وجہ سے عورتوں کے جسم میں کئی طرح کی پیچیدگیاں پیدا ہوجاتی ہیں اوراس کے نتیجے میں بعض ایسے عوارض بھی سامنے آتے ہیں جو اسے زندگی بھر کیلئے معذور بنا دیتے ہیں۔ ان بیماریوں اور معذوریوں میں سے ایک فسٹیولا بھی ہے جو ایک ماہرڈاکٹر کے الفاظ میں ’نہ صرف جسمانی اذیت کا باعث ہوتا ہے بلکہ اس کے شدید نفسیاتی اور سماجی منفی اثرات بھی ہوتے ہیں جو عورت کو معاشرے میں تضیحک کا نشانہ بناتے ہیں۔‘
فسٹیولا کیوں ہوتا ہے؟ اس کا ایک ہی جواب ہے کہ اگر زچگی کا عمل تربیت یافتہ مڈ وائف یا کسی تجربہ کار طبی ماہر کی بجائے دائی یا نا تجربہ کار کی نگرانی میں خاصی دیر تک جاری رہے اور زچگی کے دوران بچے (فیٹس) کا سر پیڑو (پیلوس) میں پھنس جائے تو اس کی وجہ سے مثانے کے پٹھے (عضلات) سر کی مسلسل رگڑ سے کمزور ہوجاتے ہیں اور ان میں سوراخ ہوجاتا ہے جس کے باعث یہ سوراخ پیشاب کے مسلسل بہنے کا سبب بنتا ہے۔ وجہ یہ ہے کہ پیشاب نالی کے راستے باہر آنے کی بجائے مسلسل بہنے لگتا ہے کیونکہ یہ کنٹرول سے باہر ہوجاتا ہے اور جب ارادے کے ذریعے کنٹرول کرنے کا نظام کام نہ کرے تو یہ بیماری ویساٹکو جائنل فسٹیولا (VVF) کہلاتی ہے۔
ڈاکٹر فرزانہ نواز کا کہنا ہے کہ فیسٹولا کا سوفیصد علاج ممکن ہے لیکن طویل ہے اکثر لوگ آگاہی نہ ہونے کی وجہ سے علاج سے بے بہرہ ہیں، تاہم علاج کے بعد خواتین بچہ پیدا بھی کرسکتی ہیں ازدواجی حقوق بھی ادا کر سکتی ہیں۔ لیکن ہمارے یہاں اس بیماری کی شکار لڑکیاں اور عورتیں شوہر اور سسرال کے منفی رویوں کا شکار ہوتی ہیں۔
ان کا کہنا ہے کم عمری کی شادیوں پر قابو پا کر ہم اس مرض سے کم عمر لڑکیوں کو بچا سکتے ہیں۔
اقوام متحدہ کے پاپولیشن فنڈ کے مطابق پاکستان میں صرف 52 فیصد خواتین کو زچگی کے دوران تربیت یافتہ عملے تک رسائی ملتی ہے لیکن کبھی کبھار تربیت یافتہ ڈاکٹر اور سٹاف بھی غلطی کر دیتا ہے جس سے آئیٹروجینک فسٹیولا ہوجاتا ہے۔ فسٹیولا کی وجہ سے کئی مریضوں کو رشتوں میں دوری اور ذہنی اذیت کا سامنا بھی کرنا پرتا ہے۔
ڈاکٹر شیر شاہ کی سربراہی میں چند سال قبل فسٹیولا کی مریض خواتین کے نفیساتی تجزیے کی تحقیقاتی رپورٹ میں یہ بات سامنے آئی کہ شوہر کے ساتھ تعلقات پریشانی کی سب سے اہم وجہ تھی۔ خاندان کے اراکین بشمول شوہر اور بچے ان کے ساتھ وقت گزارنا پسند نہیں کرتے، یہاں تک کہ ان کا بنایا گیا کھانا بھی نہیں کھاتے۔ پاکستان میں فسٹیولا کے ماہرین کی تعداد اور صحت مراکز انتہائی محدود ہیں۔
اس وقت پاکستان میں یو این ایف پی کے تعاون سے مہیا کی جارہی ہیں، مفت علاج کیلئے ملک بھرمیں کراچی،حیدرآباد، لاڑکانہ، ملتان، لاہور،کوئٹہ،پشاور،ایبٹ آباد اور اسلام آباد میں واقع ہیں۔ جو خواتین فسٹیولا کے موذی مرض میں مبتلا ہیں ان فیسٹولا سنٹرز پر رابطہ کرکے مفت علاج معالجہ کی سہولیات سے مستفید ہوسکتی ہیں۔
پمز ہسپتال ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹ مدر اینڈ چائلڈ ہیلتھ کئیر سینٹر ڈاکٹر نوشیلہ جاوید کا کہنا ہے کہ اپنے قیام سے اب تک ہزاروں خواتین کا مفت علاج کیا جارہا ہے، مرض پر قابو پانے کے لئے شعوری آگاہی ضروری ہے، پمز ہسپتال میں موجود فسٹولا سنٹر میں آنے والی مریض لڑکیوں اور خواتین کا نہ صرف مفت علاج ہوتاہے بلکہ ان کی بعد کی زچگی کا عمل بھی مفت کیاجاتاے مکمل فالو اپ سسٹم موجود ہے۔
ڈاکٹر نوشیلہ جاوید کا کہنا ہے کہ ہم عوام میں آگاہی کے فروغ کے لئے بھی کام کررہے ہیں اسلام آباد کے نواحی علاقوں کے ساتھ ساتھ کشمیر، بالائی علاقہ جات میں خاص طور پر کیمپ لگائے جاتے ہیں، لوگوں کو نہ صرف فیسٹولا کے مرض کا علاج ممکن ہی نہیں بلکہ مفت بھی ہے کے ساتھ ساتھ یہ آگاہی بھی دی جاتی ہے کہ کم عمری کی شادیاں زچگی کے دوران نہ تجربہ کار دائیاں اور اسٹاف اس کی وجہ ہے، لہذا اپنی بچیوں کی چھوٹی عمر میں شادی نہ کریں۔
ڈاکٹر نوشیلہ جاوید اس بات پر بھی زور دیتی ہیں کہ میڈیا ایسے حساس موضوعات کو اجاگر کرے خاص طور پر سماجی رابطے کی ویب سائیٹس کا مؤثراستعمال شعوری بیداری کے لئے ضروری ہے۔
میرے اپنے قارئین سے سوال اور جواب کے ساتھ فیسٹولا کا علاج ممکن ہے؟ جی ہاں ۔۔ کم عمری کی شادی کے خاتمے کا قانون اور سزائیں بھی موجود ہیں؟ جی ہاں ۔۔ کم عمری کی شادیاں کیا پھر بھی ہورہی ہیں؟ جی ہاں ۔۔ کیا ہماری اور آپ کی بیٹیاں پڑھنا چاہتی ہیں؟ ڈاکٹر استانی یا کچھ بھی بننے کے خواب دیکھ رہی ہیں؟ جی ہاں۔۔
اب ایک سوال جس کا جواب آپ اپنے دل سے دیں گے۔ کیا ہماری مائیں کم عمری کی شادیوں کے رحجان کو ختم کرتے ہوئے نہ صرف فیسٹولا جیسے مرض سے اپنی بیٹیوں کو بچا سکتی ہیں بلکہ ان کا مستقبل روشن بنا سکتی ہیں؟؟؟؟
کیا ہماری تبسم مائی نے اپنی مہک کو کم عمری میں شادی سے بچانے میں اہم کردار ادا کیا؟ کیا اس کے انکار کو اس کے رشتہ دار خاص طور پر خواتین کو سراہنا چاہیے؟
اگر آپ کا جواب ہاں میں ہے تو خدارا، دنیاداری میں اپنی اس بہن تبسم مائی کو ایسی مثال بنا کر پیش کریں کہ اس جیسی اور خواتین بھی اپنی بیٹیوں کو کم عمری کی شادیوں سے نجات دلاتے ہوئے، ان کی مہک ان کی بیٹیوں کو سدا مہکاتا رہے۔ فیسٹولا کی بیماری سمیت کوئی بھی دکھ ان کا مقدر نہ بنے ان کی بیٹیاں پڑھیں آگے بڑھیں اور مہکتی رہیں ۔۔ آمین
آیئے آپ اور ہم مل کر یہ پیغام پھیلائیں فیسٹولا جیسے مرض سے بیٹی بچاؤ۔۔ ماں کو سمجھاؤ
Comments are closed on this story.