آتی جاتی سانسیں: وہ مسئلہ جس پر بھارت اور پاکستان کو بات کرنے کی ضرورت ہے
پاکستان میں کمال صدیقی اور بھارت میں ادیتی فڈنیس مہتا
ابھی تو صرف مارچ ہے، لیکن سورج ابھی سے چندھیا رہا ہے اور ہوا گرم ہو رہی ہے۔ بھارتی پنجاب کے ضلع امرتسر کا گاوں مراد پورہ بھارت پاکستان سرحد سے بمشکل 40 کلومیٹر دور ہے۔ منگل سنگھ یہاں تقریباً 1 ایکڑ اراضی کا مالک ہے اور وہ گندم کے اپنے کھیتوں کو فکر سے دیکھتے ہوئے بتاتا ہے کہ آگے کیا ہوسکتا ہے۔ اگلے چند ہفتوں میں گندم کی بالیاں سنہری ہو جائیں گی۔ اس کا کہنا ہے کہ فصل کی کٹائی کے بعد وہ کھیتوں کو کچھ دنوں کے لیے چھوڑ دے گا۔
پھر وہ اپنی ایک کلہ یعنی لگ بھگ تقریباً ایک ایکڑزمین پر مٹی کا تیل چھڑک کر آگ لگا دے گا اور آگ کے شعلے کھیتوں کو ہڑپ کرلیں گے۔ اس آگ سے ویسے ہی مناظر سامنے آئیں گے اور وہ اتنے ہی خوفناک ہوں گے جیسے 1947 کی تصاویر تھیں۔ جو کچھ باقی رہے گا وہ فصل کا جلا ہوا کچرا ہوگا اور اس سے جو دھواں اٹھے گا وہ دھند کی شکل میں امرتسر اور اس سے آگے تک پھیل جائے گا۔ سال کے اس مخصوص وقت یعنی اپریل کی گرمی اور ہوا اسے منتشر ہونے میں مدد دے گی۔
نومبر میں ایک بار پھر یہی منظر ہوگا لیکن اس بار دھند امرتسر سے ہوتی ہوئی شمالی ہندوستان کے دیگر شہروں جیسے دلی تک جائے گی اور وہاں ہفتوں تک رہے گی اور جس سے پھیپھڑوں کی بیماریوں میں خطرناک حد تک اضافہ ہوگا۔ جن لوگوں کیلئے ممکن ہوگا وہ دلی چھوڑ دیں گے۔ بہت سے لوگ ایئر پیوریفائر خریدیں گے۔ لیکن زیادہ تر کھانسیں گے، چھینکیں گے، کھنگارتے رہیں گے او اس وقت تک سانس لینے میں دشواری کا سامنا کرتے رہیں گے جب تک کہ دھند ختم نہ ہو جائے۔
پاکستان کی بھی یہی کہانی
پاکستان کے دوسرے بڑے شہر لاہور میں پہلی بارسموگ 2016 میں چھائی تھی، تب سے آلودگی بتدریج بدتر ہوتی جا رہی ہے۔ سردیوں کے مہینوں میں لاہور دنیا کے آلودہ ترین شہروں کی یومیہ درجہ بندی میں سر فہرست آتا ہے۔ اکتوبر سے دسمبر تک ایک کروڑ 20 لاکھ آبادی کا یہ شہر بمشکل سورج کی روشنی کو دیکھ پاتا ہے کیونکہ آلودگی کا ایک گھنا بادل اس کے اوپر چھایا رہتا ہے۔ لاہور صوبہ پنجاب کا دارالحکومت ہے اور بہت گنجان آباد شہر ہے۔ 2020 میں پنجاب کے 5 شہروں کو دنیا کے آلودہ ترین میں شمار کیا گیا۔
بھارتی پنجاب حکومت کے مشیرماحولیات اور ماحولیاتی پالیسی کے ماہراکشٹ پٹنی کاکہنا ہے، ”2019 میں بھارتی پنجاب میں 50 ہزار سے زائد اموات ماحولیاتی آلودگی سے منسوب کی گئیں۔ ماضی میں ایسا نہیں ہوتا تھا۔ اموات کا سبب پھیپھڑوں کے کینسریا کسی دوسری وجہ کو قرار دیا جاتا تھا۔ یہ اعدادوشمار اس اعتبار سے کام کے ہیں کہ ان سے مسئلے کی نشاندہی ہوتی ہے اورریسرچ کا نقطہ آغاز بنتے ہیں۔“
پاکستان اور بھارت دونوں ممالک کے سرحدی علاقوں میں زرعی باقیات کوجلایا جاتا ہے۔ زرعی باقیات جسے ’پرالی‘ بھی کہتے ہیں کو جلانا کھیتوں کو اگلی فصلوں کی کاشت کے لیے تیار کرنے کا سب سے سستا ذریعہ ہے۔ پرالی جلانے کی وجہ سے فضا میں آلودگی کے ذرات بڑھ جاتے ہیں۔ دونوں ممالک کی حکومتیں کئی برسوں سے اس مسئلے پر قابو پانے کی کوشش میں لگی ہیں۔
بھارت میں پرالی جلانے کی وجوہات
- کئی اقسام کے جینیاتی بیجوں کے نتیجے میں سبز انقلاب آنے کے بعد دھان کی فصلوں کی کاشت میں اضافہ، نئی زرعی مشینوں کا استعمال، چاول کے لیے امدادی قیمت مقرر کیا جانا
- مفت بجلی کی وجہ سے کسانوں کی زیر زمین پانی زیادہ مقدار میں دھان کیلئے نکالنے کی حوصلہ افزائی ہوئی
- اسی وجہ سے زیر زمین پانی میں شدید کمی ہوئی
- صورت حال کے پیش نظر بھارتی حکومت نے ہر سال 20 جون سے قبل دھان کی کاشت پر پابندی عائد کر دی
- اس کے نتیجے میں کاشت کردہ فصل کی کٹائی ستمبر کے آخر اور اکتوبر میں ہونے لگی۔ نتیجتاً کسانوں کے پاس وسط نومبر تک گندم کی بوائی سے قبل کھیتوں کی صفائی کیلئے بہت کم وقت رہ جاتا ہے۔
- زرعی باقیات کو جلانا عام کسانوں کے لیے سب سے آسان راستہ معلوم ہوتا ہے۔
- پورے شمالی بھارت میں زرعی باقیات جلائی جاتی ہیں لیکن چونکہ
- پنجاب میں دھان کی کاشت سب سے زیادہ ہوتی ہے
- تمام کھیتوں کی پرالی وسط اکتوبر سے وسط نومبر تک جلائی جاتی ہے
- شمالی بھارت کے میدانی علاقوں میں دھویں کو منتشر کرنے کے لیے ہوائیں بہت کم چلتی ہیں تو ان تمام عوامل کے نتیجے میں سردیوں میں ہوا کے معیار میں شدید کمی آتی ہے۔
(بھارتی سرکاری پالیسی کے ماہر روشن شنکر کے مقالے سے ماخوذ)
پاکستانی پنجاب میں زرعی ماہر اسحاق خاکوانی کا کہنا ہے کہ ”پرالی جلانے کا سلسلہ قدیم دور سے چلا آرہا ہے۔ عموماً اکتوبر میں پرالی کو جلایا جاتا ہے تاکہ نومبر میں گندم کی بوائی کے لیے کھیتوں کو تیار کیا جاسکے ۔ یہ زرعی باقیات کو انتہائی مختصر وقت میں جلا کر زمین کو نئی فصل کی کاشت کے لیے صاف کرنے کا انتہائی تیز تر اور سستا ترین طریقہ ہے۔“
یہی کام مارچ میں بھی کیا جاتا ہے تاکہ کھیتوں کو بوائی کے لیے تیار کیا جا سکے لیکن اس وقت آلودگی کم ہوتی ہے کیونکہ موسم گرم ہونے لگتا ہے اور اس وقت دھول اور دھواں اوپر کی جانب چلا جاتا ہے۔ لیکن اسحاق خاکوانی کہتے ہیں کہ زرعی باقیات جلانا آلودگی میں اضافے کے کئی اسباب میں سے محض ایک ہے۔ ”یہ ایسا فیکٹر ہے جس میں بہت زیادہ اضافہ نہیں ہوا۔ مسئلے کی جڑ کہیں اور ہے۔“
متعدد ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ زرعی باقیات سے جان چھڑانے کا انہیں جلانے سے زیادہ سستا کوئی طریقہ نہیں اور کسانوں کو اس کام سے روکنے کیلئے حکومت کو مداخلت کرنی پڑے گی۔ مثال کے طور پر انڈیا میں حکومت کسانوں کو زرعی باقیات نہ جلانے پر سبسڈی فراہم کرتی ہے۔
ماحولیاتی ماہر داور بٹ کا کہنا ہے کہ پاکستان میں زرعی باقیات کو جلانے سے روکنے کے لیے مراعات نہیں دی جاتی ہیں۔ بٹ کے بقول سموگ سرحد کے آر پار کا مسئلہ ہے اس لیے پاکستان اور بھارت کو ایک دوسرے سے تعاون کرنا ہوگا۔ ان کا کہنا ہے کہ اس معاملے میں انڈیا زیادہ متاثر ہوتا ہے کیونکہ بیشتر دنوں میں ہواؤں کا رخ پاکستان سے بھارت کی جانب ہوتا ہے، فضائی آلودگی پاکستان سے انڈیا کا رخ کرتی ہے۔
انڈیا میں مراد پورہ کے رہائشی ہرپال سنگھ کا کہنا ہے کہ ”ہم جانتے ہیں کہ پرالی جلانے کا ماحول پر اثر پڑتا ہے ۔ ہم بھی چاہتے ہیں کہ ہمارے بچے صحت کے ساتھ بڑے ہوں اور ہم کسی اور کی صحت کو بھی نقصان نہیں پہنچانا چاہتے لیکن ہم مجبور ہیں۔ کاشت کاری سے کوئی امیر تو نہیں بن جاتا۔ حکومت ہمیں کہتی ہے کہ ہم پرالی کاٹ کر اسے پیک کرنے پر خرچہ کریں۔ اگر ہم نے یہی کچھ کیا تو پھر ہمارے پاس کیا کمائی ہوگی۔ جس طرح آپ ہمارے پاس آئے ہو، ایسے ہی سرکاری حکام ہمارے پاس ہی نہیں بلکہ گوردواروں میں بھی آتے ہیں ۔ وہ بڑے پیار سے کہتے ہیں، ’آؤ ہم تمہیں بتاتے ہیں کہ تم کیا کرو۔‘ آپ کی طرح وہ بھی ہماری تصاویر کھینچتے ہیں اور واپس چلے جاتے ہیں۔ پھر کسی کو اس کی پروا نہیں ہوتی کہ ہم نے کھیت جلائے یا نہیں، ہمیں معاوضہ ملا ہے کہ نہیں؟ ہمارے ہاں کھیت کی مستاجری 60 ہزار روپے فی ایکڑ ہے۔۔۔۔ ہمیں ٹریکٹر، تھریشنگ مشین اور دیگر لوازمات پر بھی خرچ کرنا پڑتا ہے اورآمدنی تو ہوتی ہی بہت کم ہے ۔ اگر ہم نے ان کے بتائے طریقے کے مطابق پرالی کو ٹھکانے لگانے کا انتظام کر بھی لیا تو پھر ہمارے پاس کچھ آمدن نہیں ہو گی۔“
سرحد کے دونوں جانب اس صورت حال کے نتائج سنگین ہیں۔ یونیورسٹی آف شکاگو کے انرجی پالیسی انسٹی ٹیوٹ کے ایئر انڈیکس 2023 کے مطابق فضائی آلودگی کی وجہ سے دلی میں اوسط عمر11.9 سال اور لاہور میں ساڑھے 7 سال کم ہو گئی ہے۔ نان پرافٹ تنظیم فیئر فنانس پاکستان کے مطابق پاکستان نے تخمینہ لگایا ہے کہ ماحولیاتی آلودگی کے سبب سالانہ ایک لاکھ 28 ہزار افراد اموات ہو رہی ہیں۔ 2019 میں (برطانوی طبی جریدے) دی لینسٹ کے ایک مطالعے کے نتائج میں کہا گیا ہے کہ صرف ایک سال میں 16 لاکھ قبل از وقت اموات ہوئیں۔
پرالی جلانا ہی واحد سبب نہیں
بظاہر پرالی کا جلایا جانا خطرناک ہے کہ لیکن یہ پاکستان اور انڈیا میں آلودگی میں اضافے کی واحد وجہ نہیں۔
اچانک بدلتے موسمی رجحانات کے سبب سموگ کی سطح میں اضافہ دیکھا گیا ہے حتیٰ کہ موسم گرما میں بھی۔ لاہور کے اطراف کمرشل اوررہائشی کالونیوں کی تعمیرات کے لیے درختوں کی کٹائی اور کھیتوں کے خاتمے میں تیزی کی وجہ سے ماحولیاتی تبدیلی کی صورت حال ابتر ہوگئی ہے۔ لاہور کے گرد 85 کلومیٹر طویل رنگ روڈ کی تعمیر نے اربن ڈویلپمنٹ کے ان گنت مواقع کو جنم دیا ہے۔ لیکن اس کی ایک قیمت بھی ہے۔ فارمز پر کاشت کی لاگت بڑھ گئی ہے اوربارشیں ناقابل بھروسہ ہو گئی ہیں۔
پاکستان میں آلودگی کے صحت عامہ کیلئے مضمرات
جنوری 2024 میں صوبہ پنجاب میں نمونیے سے 350 لوگ جانیں گنوا بیٹھے۔ لاہور اس کا مرکز تھا جہاں صرف 7 یوم میں 55 افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ پھیپھڑوں کے امراض کے ماہر ڈاکٹرعامر اقبال کا کہنا ہے کہ پنجاب میں گزشتہ کئی برسوں کے دوران نمونیے کے مرض میں اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے تاہم اب تک لاہور میں سردیوں میں بڑھتے اسموگ سے اس کا تعلق ثابت نہیں ہوا۔ نمونیا کسی انفیکشن یاسانس کے راستے کسی کیمیکل کے جسم میں داخل ہونے سے پیدا ہوتا ہے۔ عامر اقبال کہتے ہیں،”لیکن اب تک نمونیہ پھیلنے کی وجوہات جاننے کے لیے نہ تو تحقیقات کی گئی ہیں اور نہ ہی ڈیٹا جمع کیا گیا ہے جس سے پتہ چلے کہ پہلی بار نمونیا کن حالات میں کہاں سامنے آیا۔ چونکہ یہ اموات پولیس کیس نہیں ہوتیں لہذا پوسٹ مارٹم بھی نہیں کیا جاتا۔“ ۔ شہرکے ایک اور جانے مانے معالج ڈاکٹر شوکت محمود نے بھی اس رائے کی تائید کی۔ ان کا کہنا ہے کہ ہم مکمل ڈیٹا اور جامع مطالعے کے بغیر کسی ٹھوس نتیجے پر نہیں پہنچ سکتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ حکومت کی جانب سے ماحولیاتی آلودگی کے خاتمے کے لیے کئے گئے اقدامات ناکام ہو چکے ہیں۔ بچوں میں نمونیا عام ہے ۔ کیونکہ ان کے پھیپھڑے نازک ہوتے ہیں جو بالغ افراد کے برعکس آلودہ ذرات کو فلٹر نہیں کر پاتے۔ طب کے شعبے کے ماہرین میں اب تک اس بات پر خاطرخواہ بحث نہیں ہوئی کہ آخر نمونیے میں ڈرامائی اضافہ کیوں ہوا۔ اس کے بجائے ڈاکٹر موسمیاتی تبدیلی، آلودگی، خشک گرمی، چھوٹے اور بند کمروں میں رہائش، ناقص خوراک اوربچوں میں آگہی کے فقدان کو موردالزام ٹھہرانا کافی سمجھتے ہیں۔
لاہور میں 10 برس کے دوران بارش پر سینئرسبجیکٹ ثروت شہزاد کی تحقیق سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس عرصے میں موسم گرما، بہار اور سرما میں بارش کے رجحان میں مسلسل کمی آتی جا رہی ہے۔ اس کے مقابلے میں خزاں کے موسم میں بارش زیادہ ہو رہی ہے ۔اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ 3 سال خشک سالی رہی جبکہ ایک برس اربن فلڈنگ کا سامنا رہا۔
لاہور کے پرانے رہائشی ملک طارق علی کا کہنا ہے کہ عقل پرلالچ غالب آ چکی ہے اسی وجہ سے مسائل بڑھتے جا رہے ہیں۔ ”لالچ، بے حسی اور کامن سنس کی کمی،“ وہ کہتے ہیں میں نے 10 برس کے دوران ہریالی کو شہری ترقی کے نام پر قربان کیے جاتے دیکھا ہے۔ ”ان میں سے بیشتر علاقے غیرآباد ہیں لیکن لوگوں نے اس امید پر پلاٹوں کو اپنے پاس رکھا ہوا ہے کہ ایک دن چھپر پھاڑ پیسے ملیں گے۔“ گزشتہ پانچ برسوں میں زمین کی قیمت 200 فی صد تک بڑھ گئی ہے۔ رئیل اسٹیٹ انڈسٹری بہت طاقت ور اور وسائل سے مالا مال اور مواقع سے بھرپور صنعت ہے۔ ”یہ ویسی ہی ہے جیسے امریکا میں گن انڈسٹری ہے۔ آپ ان کے خلاف کچھ نہیں کر سکتے۔“
بے حسی اور بے اعتنائی پر مبنی یہ رویہ کئی جگہ دکھائی دیتا ہے حتیٰ کہ ان معاملات میں بھی جو ٹھیک کیے جا سکتے ہیں۔ شہروں میں گاڑیوں کی آلودگی کا معاملہ ہی لے لیں۔ پاکستان میں ایندھن کے معیار پر بات کرتے ہوئے ماہر رافع عالم کا کہنا ہے کہ پاکستان میں یورو2 کمپلائنٹ ایندھن استعمال کیا جاتا ہے جو عالمی معیار سے کم تراور آلودہ ہے۔ پاکستان میں صرف ایک ریفائنری یورو4 سطح کا ایندھن تیار کرتی ہے۔ ایندھن کے معیار کو بہتر بنانے کا کوئی منصوبہ نہیں جو شہروں میں آلودگی کی بڑی وجہ ہے۔
ایک اور مسئلہ یہ ہے کہ جہاں پاکستان میں پبلک اورکمرشل گاڑیوں کو فٹنس ٹیسٹ پاس کرنا پڑتا ہے وہیں نجی کاریں اور موٹر سائیکلیں ایسے ٹیسٹ سے مبرا ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ سڑکوں پر رواں بیشتر گاڑیوں کے بارے میں یہ جانچا بھی نہیں جاتا کہ وہ کس قدر ماحول دشمن مواد خارج کررہی ہیں۔
آلودگی کے مسئلے پر پاکستان میں اچھا خاصا کام کرنے والے ماحولیاتی کنسلٹنٹ داور بٹ کہتے ہیں کہ سموگ کے کئی اسباب ہیں جن میں گاڑیوں کی تعداد و معیاراور زیر استعمال ایندھن، وسطی پنجاب میں صنعتوں کا پھیلاؤ، صنعتی آلودگی، آبادی میں اضافہ اور موسمیاتی تبدیلی شامل ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ جہاں چاول کی پرالی جلائی جاتی ہے وہیں گزشتہ کچھ برسوں سے سالڈ ویسٹ یعنی گھروں اور صنعتوں کا پیدا کردہ کچرا جلانے کا سلسلہ بھی شروع ہوچکا ہے۔
بٹ کے بقول یہ آلودگی پھر بھارت پہنچتی ہے۔ “ ہوائیں وسطی ایشیا سے انڈیا کی طرف چلتی ہیں۔ سردیوں میں مغربی ہوائیں پاکستان سے بھارت کے میدانی علاقوں کی طرف بڑھتی ہیں۔“ وہ کہتے ہیں کہ یہ مسئلہ دونوں ممالک کو متاثر کر رہا ہے خواہ آپ الزام کسی کو بھی دیں۔ ان کے بقول، ”سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان اور بھارت کی قیادت میں سے کوئی جاگے گا اور اس حوالے سے کچھ کرے گا؟“
رافع عالم اور داور بٹ بیجنگ اور اسٹاک ہوم کی مثال دیتے ہیں جہاں عوام کے دباؤ نے حکومتوں کو حرکت میں آنے پر مجبور کر دیا۔ پاکستان اور انڈیا کے معاملے میں مسئلہ یہ ہے کہ یہاں دو الگ الگ حکومتیں ہیں جنہیں قائل کرنے کی ضرورت ہے۔ لیکن اس حقیقت سے زیادہ بدترین کیا ہوگا کہ دونوں ممالک کسی معاملے پر متفق ہوتے نظر نہیں آتے۔
بھارتی پنجاب کے مشیر برائے ماحولیاتی پالیسی اکشت پٹنی کہتے ہیں کہ ”پرالی کاجلایا جانا اونٹ کے منہ میں زیرے کے مترادف ہے۔ سال بھر میں فضائی آلودگی کا سبب بننے والے کئی عوامل ہیں۔ پرالی کا جلایا جانا آلودگی میں صرف 8 فی صد کے مساوی ہے۔ فضائی آلودگی میں 50 سے52 فیصد حصہ گاڑیوں کا ہے۔ اگر آپ اس پر مزید توجہ دیں گے تو پتہ چلے گا کہ ان میں صنعتوں کا حصہ ہے۔ پتھر توڑنے، اینٹ بنانے کے کارخانے(بھٹہ خشت) ۔۔۔ اور بلاشبہ سڑکوں کی دھول اس میں شامل ہے۔“ تاہم وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ مخصوص مہینوں کے دوران پرالی زیادہ شدت سے جلائی جاتی ہے اور فضا سانس لینے کے قابل نہیں رہتی۔
گرین پیس انڈیا کے کمپین مینجر اویناش چنچل کا کہنا ہے کہ بھارت میں فضائی آلودگی میں عوامل کا مجموعہ کارفرما ہے ۔ زرعی باقیات کا جلایا جانا تواتر سے ایک بڑا محرک ہے۔ گاڑیوں سے دھویں کا اخراج بھی اہم وجہ ہے۔ کوئلے سے چلنے والے بجلی گھروں بھی آلودگی میں نمایاں کردار ادا کرتے ہیں۔ تعمیراتی شعبے سے فضا میں گرد وغبار پھیلتا ہے۔ گھروں میں لکڑیوں اور جانوروں کا گوبر جلانا بھی اہم وجہ بنتا ہے۔
فکرمند کر دینے والے اعدادوشمار
بھارت دنیا کا دوسرا آلودہ ترین ملک ہے ۔ ہوا میں شامل (2.5 پی ایم کے) باریک ذرات نے لوگوں کی اوسط زندگی عالمی ادارہ صحت کی گائیڈلائنز کی بہ نسبت 5.3 سال کم کردی ہے۔ بعض علاقوں میں صورت حال زیادہ خراب ہے۔ دارالحکومت نئی دہیلی میں اوسط عمر 11.9 سال کم ہوئی ہے۔
متوقع شرح عمر کو سامنے رکھ کر حساب لگایا جائے تو آلودگی کے ذرات بھارت میں انسانی جان کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہے جنہوں نے اوسط عمر 5.3 سال کم کر دی ہے۔ اس کے برعکس امراض قلب نے اوسط عمر 4.5 سال کم کی ہے، زچہ اور بچہ میں خوراک کی کمی سے اوسط عمر 1.8 برس کم ہوئی ہے۔
بگڑتی صورت حال
ہوا میں پھیلے ذرات سے آلودگی کا مسئلہ وقت کے ساتھ بڑھا ہے۔ 1998 سے2021 کے دوران بھارت میں آلودگی 67.7 فیصد بڑھی جس کی وجہ سے 2.3 سال اوسط عمر کم ہوئی۔ 2013سے 2021 کے دوران دنیا بھر کے مقابلے میں بھارت میں آلودگی 59.1 فیصد بڑھی۔
انڈیا کے آلودہ ترین خطے یعنی شمالی میدانی علاقوں میں52 کروڑ 12 لاکھ کی آبادی ہے جو بھارت کی کل آبادی کا 38.9 فیصد ہے۔ یہ لوگ اپنی اوسط عمر میں عالمی ادارہ صحت کی گائیڈ لائنز کے حساب سے 8 برس اور بھارت کے قومی معیارات کے حساب سے 4.5 برس کمی کے خدشے سے دوچار ہیں۔
یونیورسٹی آف شکاگو کے انرجی پالیسی انسٹی ٹیوٹ کے مطابق اگر انڈیا آلودگی کو کنٹرول کرنے میں کامیاب ہو گیا تو عالمی ادارہ صحت کی گائیڈ لائنز کے حساب سے دلی کے مکینوں کی اوسط عمر میں 11.9 سال کا اضافہ ہو سکتا ہے۔ بھارت کے دوسرے گنجان ترین شمالی 24 پرگنہ ضلع کے مکینوں کی اوسط عمر میں 5.6 سال کا اضافہ ہوگا۔
بھارت نے 2019 میں آلودگی کے خلاف جنگ اوراپنے کلین نیشنل ایر پروگرام (این سی اے پی) کا اعلان کیا تھا۔ یہ عندیہ دیا گیا تھا کہ بھارت آلودگی کا سبب بننے والے عوامل میں کمی کی کوشش کرے گا۔ پروگرام میں کہا گیا تھا کہ پی ایم 5 اسٹینڈرڈ نہ رکھنے والے 102 شہروں پر توجہ مرکوز کی جائے گی اور 2024 تک ان شہروں میں آلودگی کو2017 کی سطح تک لایا جائے گا۔
ان شہروں میں سے ایک دلی تھا (جسے دوسرے لفظوں میں قومی دارالحکومت کا خطہ بھی کہا جاتا ہے) جس کا ترقی سے براہ راست تعلق ہے۔ دلی شمالی انڈیا میں اب بھی سرمایہ کاری کے لیے سب سے پرکشش مقام ہے ۔ دلی میں صرف اکتوبر 2019 سے ستمبر 2023 کے دوران 28 ارب30 کروڑ ڈالرکی سرمایہ کی گئی۔ سرمایہ کاری میں مہاراشٹر، کرناٹک اور گجرات کے بعد دلی چوتھے نمبر پر ہے۔ اس سرمایہ کاری میں ہریانہ کے شہر گروگرام میں ہونے والی سرمایہ کاری شامل نہیں۔
بلا شبہ اس سطح کی سرمایہ کاری کسی قیمت کے بغیر نہیں آتی۔ سرمایہ کاری سڑکوں کے اچھے نظام، بجلی کی بلا رکاوٹ فراہمی ( یہ بات حیران کن نہیں کہ انڈیا میں 70 فیصد بجلی کوئلے سے تیار کی جاتی ہے جو شہروں میں معیاری ہوا پر اثر انداز ہوتا ہے ۔ مہاراشڑا کے چندرا پور جیسے آلودہ ترین شہر کوئلے سے چلنے والے بجلی گھروں کے قریب واقع ہیں) اور ہاؤسنگ سے مشروط ہوتی ہے۔ ایسی تمام تر سرگرمیاں ہوا کو آلودہ کرتی ہیں۔
اسٹرکچرل مسائل
دونوں پنجاب صوبوں کے لیے اسٹرکچرل مسائل بی ہیں۔ شمالی انڈیا کے این سی اے پی کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ “ ”خاص طورپر ہند-گنگا کے میدانی علاقے کو اس کے جغرافیائی محل وقوع اور مٹی کی ساخت کے سبب نقصانات کا سامنا ہے۔ اور یہ خطے کے لیے فضائی آلودگی کے مسائل میں اضافہ کرتے ہیں۔ ہند گنگا کا میدان بنیادی طور پر لینڈلاک ہے، ہمالیہ کے پہاڑ آلودہ ہوا کو شمال کی طرف جانے سے روکتے ہیں جس سے ’ویلی ایفیکٹ‘ پیدا ہوتا ہے جب کہ خشک چکنی مٹی ہوا کے ساتھ اڑنے والی دھول میں اضافہ کرتی ہے۔“
آگے بڑھنے کے تقاضے
خراب ہوا پاکستان اور بھارت دونوں کے شہریوں کے وجود کے لیے خطرناک ہے ۔ دونوں ملکوں کے درمیان بات چیت کے نتیجے میں معلومات کا تبادلہ کر کے نقصانات کو کم کیا جاسکتا ہے ۔ منوہر پاریکار انسٹی ٹیوٹ آف ڈیفنس سے تعلق رکھنے والے تجزیہ کار اشوک بیہوریا کا کہنا ہےکہ ایک ہی نوعیت کے مسائل سے دوچار ہونے کے باوجود دونوں ملکوں کے پاس موسمیاتی تبدیلی کے معاملات پر باہمی مذاکرات کا کوئی طریقہ ہی نہیں ہے۔ دونوں ممالک نے 2015 میں اقوام متحدہ کی کوشش سے ماحولیاتی تبدیلی کے معاملے پر طے پانے والے معاہدہ پیرس پر دستخط کر رکھے ہیں۔ معاہدے میں ممالک پر زور دیا گیا ہے کہ وہ باہمی مسائل کے خاتمے کے لیے ایک دوسرے سے تعاون کریں۔
اشوک بیہوریا کہتے ہیں، ”پاکستان اور بھارت دونوں بنیادی طور پر زرعی ممالک ہیں۔ ماحولیاتی تبدیلی کے معاملات بالخصوص گرین ہاوسز کے اخراج میں اضافہ ،بے ترتیب مون سون ، شدید موسم جیسے شدید گرمی یا شدید سردی ، بڑے پیمانے پر طوفان، ہمالیائی گلیشیرز کا اپنی جگہ چھوڑنا کے حوالے سے کوششوں پر دونوں کا بہت کچھ داؤ پر لگا ہے۔ ایسے ماحولیاتی مسائل کے طویل المدت نقصانات اور ان کے معشت اور معاشرے پر اثرات کے پیش نظر ایک رائے یہ دی جاتی ہے کہ دونوں ممالک ان مسائل کے حل کے لیے بات چیت کریں۔“
”لیکن ان معاملات پر کوئی دوطرفہ بات چیت اب تک نہیں ہوئی کیونکہ پاکستان کشمیر کو کور ایشو قرار دیتا ہے۔ وہ اس کے علاوہ کسی دوسرے مسئلے پر بات چیت سے انکار کرتا ہے جو پہلے سے موجود اس اتفاق رائے سے صرف نظر ہے کہ دونوں ممالک کمپوزٹ ڈائیلاگ کے فارمیٹ میں تمام امور پر بات کریں گے۔“
2017 میں اس وقت کے پاکستانی پنجاب کے وزیراعلی پنجاب شہبازشریف نے اس وقت کے وزیر اعلی بھارتی پنجاب کیپٹن ریٹائرڈ امریندر سنگھ کو خط تحریر کیا تھا جس میں مسائل کے حل کے لیے مل کر طریقہ کار اپنانے کی تجویز دی گئی تھی۔ شہباز شریف نے اس یقین کا اظہار کیا کہ ”یہ دونوں پنجاب کے مفاد میں ہوگا کہ وہ ایسی ٹیکنالوجیز اور کاروباری طریقوں کی نشاندہی کریں جس کے نتیجے میں پرالی جلانے کی ضرورت ہی نہ رہے اور سموگ پر بھی قابو پایا جاسکے۔“ (اخباری اطلاعات)
لیکن سرحد کے دونوں جانب بات کرنے والوں کیلئے یہاں پر اہم نقطہ ’ہیلتھ کرائسس‘ نہیں بلکہ ’بداعتمادی‘ تھا۔
اس وقت سے اب تک دونوں ملکوں کے شہریوں نے واٹس ایپ گروپوں اور تیسرے ممالک میں این جی اوز کی میٹنگز میں ایسی ٹیکنالوجیز پر بات چیت کی ہے جن کا مقصد فضائی آلودگی سے نمٹنا ہے۔ لیکن اس کا بہت محدود اثر ہوا ہے۔
تو کیا پاکستان اورانڈیا ویسی ہی سموگ کی جانب بڑھ رہے ہیں جیسی چینی دارالحکومت بیجنگ میں سردیوں میں ہوتی ہے؟ مسئلے کی سنگینی کو دیکھتے ہوئے اس سوال کا کوئی آسان جواب نہیں ہے۔ ایک بات ہی واضح ہے کہ دونوں ممالک کو مل کر مسئلے کا حل نکالنا ہوگا تاکہ ان کے شہری صحت مندانہ زندگی گزار سکیں، اس سے پہلے کہ معاملات پوائنٹ آف نو ریٹرن پر پہنچ جائیں۔
Comments are closed on this story.