Aaj News

جمعہ, نومبر 22, 2024  
19 Jumada Al-Awwal 1446  

غیر یقینی پالیسیوں کی وجہ سے پاکستان میں ’انسولین‘ کی قلت ہے، ماہرین

بیوروکریٹک ریڈ ٹیپ کی وجہ سے مقامی صنعت میں سرمایہ کاری میں رکاوٹ پیدا ہوئی، صنعتکاروں کا شکوہ
شائع 17 جنوری 2024 05:52pm

پاکستان کو اعلیٰ معیار کی انسولین کی کمی کا سامنا ہے حالانکہ ملک میں ایک چوتھائی سے زائد بالغ آبادی ذیابیطس کا شکار ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ انسولین کی قلت کی وجہ ناسازگار پالیسیاں اور بیوروکریٹک سرخ فیتہ ہے جس کی وجہ سے مقامی صنعت میں سرمایہ کاری میں رکاوٹ پیدا ہوئی ہے۔

بین الاقوامی ذیابیطس فیڈریشن (آئی ڈی ایف) کے مطابق، پاکستان میں تقریبا 34 ملین افراد یا بالغ آبادی کا 26.7 فیصد (20-79 سال) ذیابیطس کے مریض ہیں، جو ہر 10 میں سے ایک شخص کی عالمی اوسط سے کہیں زیادہ ہے۔

پاکستان میں ذیابیطس کے مریضوں کی تعداد بھارت اور چین کے بعد تیسرے نمبر پر ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ میٹھا کھانے کے رحجانات کی وجہ سے صورتحال خراب ہونے کا امکان ہے۔

ادویات سے متعلق صنعتی ماہرین نے بزنس ریکارڈر کو بتایا کہ دوا سازی کے شعبے کو بہت سے مسائل درپیش ہیں اور یہ مسائل حل ہوتے دکھائی نہیں دے رہے ہیں۔ جس کی وجہ برسوں کی غفلت، کم سرمایہ کاری اور سازگار پالیسیوں کا فقدان ہے۔ ایسی صورتحال میں درآمدات پر انحصار بڑھ رہا ہے اور زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی پر دباؤ پڑ رہا ہے۔

پاکستان کو انسولین فراہم کرنے والے تین بڑی کمپنیاں ہیں جن میں سے دو ملٹی نیشنل Eli Lilly اور Novo Nordisk ہیں اور تیسری پاکستانی گٹز فارما (Getz Pharma) ہے۔

پاکستان میں عبدالرزاق کا خاندان عشروں سے ادویات کی ڈسٹری بیوشن کا کام کر رہا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ لوگ ملٹی نیشنل کمپنی کی انسولین کو ترجیح دیتے ہیں۔

پاکستان میں 22 ملٹی نیشنل فارماسیوٹیکل کمپنیوں کی نمائندہ تنظیم فارما بیورو کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر عائشہ حق نے بزنس ریکارڈر کو بتایا کہ سپلائی چین کے مسائل کی وجہ سے انسولین کی قلت ہے۔

ملٹی نیشنل کمپنی Eli Lilly نے نومبر 2022 میں پاکستان میں اپنے آپریشنز کو کم کر دیا تھا، انھوں نے ’سورس چینج‘ کا مطالبہ کیا تھا لیکن سرکاری حکام نے ابھی تک اس مطالبے کی منظوری نہیں دی۔ جس سے ملک میں بیوروکریٹک ریڈ ٹیپ اور کاروباری اداروں کو درپیش رکاوٹوں کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ پاکستان میں کمپنی کو اس (انسولین) کی آخری کھیپ دسمبر میں ملی تھی۔ انہیں ابھی تک حکومت سے اجازت نہیں ملی ہے۔

واضح رہے کہ پاکستان، ایلی کی انسولین امریکا سے درآمد کر رہا تھا لیکن سپلائی چین کے مسائل کا سامنا تھا یعنی کمپنی اسے جغرافیائی طور پر قریب ترین ملک میں تبدیل کرنا چاہتی تھی۔ کچھ ماہرین کا کہنا ہے کہ کمپنی اسے بھارت میں اپنے مینوفیکچرنگ پلانٹ سے کھیپ منگوانا چاہتی ہے۔

انڈسٹری حکام کا کہنا ہے کہ پاکستان کو بنگلہ دیش سے سیکھا چاہیے کہ کیسے ڈھاکہ بین الاقوامی سرمایہ کاری حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے جس کی بدولت وہ فارماسیوٹیکل کے شعبے میں خود کفیل ہو گیا۔

کمپنی کے ایک عہدیدار نے بتایا کہ پاکستان کو بنگلہ دیش سے سیکھنے کی ضرورت ہے اور ڈھاکہ کس طرح سرمایہ کاری حاصل کرنے میں کامیاب رہا ہے جس نے اسے دوا سازی کے شعبے میں خود کفیل بنا دیا۔

یہ بات قابل توجہ ہے کہ بنگلہ دیش نے سرمایہ کاری کیلئے سازگار پالیسیاں اپان رکھی ہیں جن کے نتیجے میں فارما کے شعبے میں نمایاں ترقی ہوئی ہے۔ وہاں پر Eli Lilly اور Novo Nordisk نے دو پلانٹ لگائے ہیں۔

صنعت کے عہدیداروں کا مزید کہنا ہے کہ پاکستان میں 30 مینوفیکچرنگ ملٹی نیشنل کمپنیاں ہوا کرتی تھیں لیکن اب صرف چار کمپنیاں باقی رہ گئی ہیں جن میں جی ایس کے، ایبٹ، نووارٹس اور بائر شامل ہیں۔ اس کی وجہ پالیسیوں میں غیریقینی اور عدم اعتماد ہے۔ کوئی بھی پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے کو تیار نہیں۔

فارما بیورو کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر عائشہ ٹی حق کے مطابق ملٹی نیشنل کمپنیاں اپنے آپریشنز بند کر دیتی ہیں یا ان میں کٹوتی کر دیتی ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ ’ایم این سیز اور مقامی کمپنیاں دونوں کو ترقی کی راہ پر گامزن ہونے کی ضرورت ہے۔ آپ ایم این سیز کے بغیر فارما سیکٹر نہیں بنا سکتے کیونکہ وہ جدت طرازی، نئی تھراپیز اور آر اینڈ ڈی لاتے ہیں۔ وہ ہمیشہ قومی صنعت کے لئے نرسریاں رہی ہیں اور بہترین طریقوں کو قائم کرتی ہیں‘۔

انہوں نے ایک ایسی دوا کا حوالہ دیا جس کی قیمت حکومت کے پرائس ریگولیٹری نظام کے تحت 700 روپے مقرر کی گئی ہے، جسے صنعت کے زیادہ تر عہدیدار کاروبار مخالف قرار دیتے ہیں۔

کمپنی نے 1300 روپے کی ہارڈ شپ پرائس مانگی لیکن منظوری نہیں ملی۔ کمپنی نے مینوفیکچرنگ بند کر دی اور اب اسے بلیک مارکیٹ میں ہارڈ شپ پرائس سے کم از کم دس گنا زیادہ قیمت پر فروخت کیا جا رہا ہے۔

پاکستان فارماسیوٹیکل مینو فیکچررز ایسوسی ایشن (پی پی ایم اے) کے سابق چیئرمین ڈاکٹر قیصر وحید نے بھی ملک میں انسولین کی ’کم‘ فراہمی کی تصدیق کی۔ انھوں نے کہا کہ قیمتوں پر قابو پانا قلت کی ایک وجہ ہے۔

اس معاملے سے واقف ایک عہدیدار نے بتایا کہ انسولین وسیع پیمانے پر دستیاب ہے۔ تاہم عہدیدار نے تسلیم کیا کہ اس وقت برانڈ کی مخصوص کمی موجود ہے۔

گزشتہ ماہ سرکاری خبر رساں ادارے اے پی پی کی جانب سے بتایا گیا تھا کہ ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی آف پاکستان (ڈریپ) کے رجسٹریشن بورڈ نے انسولین کی 5 مصنوعات کی رجسٹریشن کی منظوری دے دی ہے۔

صحت

economic crisis

Diabetes

Medicines Shortage

Fake Medicines

Insulin

Bureaucracy red tape