انٹرا پارٹی اور انتخابی نشان پر الیکشن کمیشن کی درخواست: ہم فیصلہ نہیں کرسکتے، جسٹس اعجاز خان
پشاور ہائیکورٹ میں پی ٹی آئی انٹرا پارٹی انتخابات اور انتخابی نشان کیس پر الیکشن کمیشن کی درخواست پر سماعت ہوئی۔
جسٹس اعجاز خان نے درخواست پر سماعت کی اور الیکشن کمیشن کے وکیل سکندر مہمند نے دلائل دیے۔
الیکشن کمیشن وکیل نے جسٹس کامران حیات کا فیصلہ پڑھا اور کہا کہ چھٹیوں کے دوران اس عدالت کے جج نے فیصلہ معطل کیا، پی ٹی آئی کامؤقف ہے الیکشن کمیشن کے پاس کالعدم کا اختیار نہیں۔
وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ پی ٹی آئی کا انٹیرم ریلیف اور حتمی استدعا ایک ہی ہے، ہائیکورٹ کا فیصلہ یکطرفہ کارروائی ہے، الیکشن کمیشن کیس کا بنیادی فریق ہے۔
دوران سماعت عدالت نے کہا کہ سپریم کورٹ نے ایسا آرڈر دیا کہ کیا ایک ہائیکورٹ کا حکم ملک کیلئے ہوتا ہے۔
جسٹس اعجازخان نے استفسار کیا کہ اخبار میں پڑھا تھا، کیا ایسا کوئی حکم ہے بھی؟
جس پر وکیل نے کہا کہ سپریم کورٹ نے آر اوز سے متعلق لاہور ہائیکورٹ کا فیصلہ معطل کیا تھا، پہلا پوائنٹ یہ ہے کہ یکطرفہ کارروائی کے تحت فیصلہ معطل کیاگیا، دوسرا پوائنٹ یہ ہے کہ انٹیرم ریلیف اور حتمی استدعا ایک ہی ہے۔
جسٹس اعجاز خان نے استفسار کیا کہ کیس میں اصل درخواست گزار کہاں ہے؟ جس پر الیکشن کمیشن کے وکیل نے جواب دیا کہ مجھے معلوم نہیں، شاید وہ خود پیش نہیں ہوئے۔
جسٹس اعجاز خان نے کہا کہ اس کیس میں ہم فیصلہ نہیں کرسکتے، کیس 9 جنوری کو ڈویژن بنچ کیلئے لگا ہے
وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ میں نہیں کہہ رہا کوئی فیصلہ دیا جائے، صرف معطلی کا فیصلہ واپس لیا جائے، کیس پر پھر ڈویژن بینچ کے سامنےدلائل دیں گے۔
وکیل الیکشن کمیشن نے استدعا کی کہ 9 جنوری تک معطلی کا فیصلہ واپس لیا جائے۔
عدالت نے دلائل کے بعد فیصلہ محفوظ کر لیا۔
پی ٹی آئی کی وکیل مشال یوسفزئی نے بتایا کہ ہم عدالت کو درخواست کی کہ ہمیں بھی سنا جائے، عدالت نے ہماری درخواست پر سماعت کل تک ملتوی کردی۔
مشال یوسزئی نے کہا کہ بیرسٹر علی ظفر اور بیرسٹر گوہر کل دلائل دیں گے، عدالت کل پی ٹی آئی کو سننے کے بعد فیصلہ دے سکتی ہے۔
Comments are closed on this story.