سال 2024: چاند 16 سالہ لیام سمیت 70 افراد کی آخری آرام گاہ بنے گا
چاند کی تسخیر کے بعد اس پرخلا بازوں کے علاوہ عام افراد کی آمدورفت بھی ممکن بنادی گئی لیکن اب خواہشمندوں کو ان کی زندگی میں نہ سہی تو مرنے کے بعد چاند پر پہنچانے کی سہولت بھی مہیا کردی گئی ہے۔
سال 2024 کے اوائل میں کیپ کیناورل امریکا سے سے ایک راکٹ انوکھے مشن پر روانہ ہو رہا ہے، جس کا مقصد 70 سے زائد افراد کیلئے چاند کو اُن کی آخری آرام گاہ بنانا ہے۔
ان 70 افراد کی باقیات میں سے ایک ایک لیام آنند کی بھی ہیں جن کے اہل خانہ اپنی تسلی کے لیے چاند کو اس کا مسکن بنانا چاہتے ہیں۔
16 سالہ لیام آنند کی والدہ ندائن نے برطانوی نشریاتی ادارے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ، ’ جب میں باہر آ کر اوپردیکھوں گی تو مجھے معلوم ہو گا کہ اسکا جسم چاند پر کہاں ہے۔ یہ جذباتی طور پر تسلی بخش ہو گا۔’
کینیڈا کے شہر ڈیپے سے تعلق رکھنے والا لیام 2018 میں ایک موٹرسائیکل حادثے میںچل بسا تھا۔ اس کی فیملی چاہتی کہآخری رسومات کیلئے روایتی طریقوں سے ہٹ کر کچھ نیا کیا جائے جو ان کے پیارے کی نمائندگی کا باعث بن جائے۔
لیام مریخ کے خلائی مشن کا حصہ بننے کا خواب دیکھا تھا، اس کے علاوہ وہ کان کنی کے کاروبار میں بھی شامل ہونا چاہتا تھا۔
بیٹے کی موت کے کئی سال بعد ندائن کو خلا کے ساتھ اسکی محبت یاد آئی، ہھر آن لائن تلاش ،لے نتیجے میں والدہ کو چاند پر ایک میموریل سروس کا پتا چلا۔اب لیام کی استھیوں کا ایک حصہ پیریگرین قمری جہاز سے سیٹلائٹ کے ذریعے چاند پر پہنچایا جارہا ہے۔
ندائن کے مطابق لیام کے اس مشن کا حصہ بننے سے ہمیں اپنا دکھ کم کرنے میں مدد ملی ، یہ غیر معمولی آرام گاہ ہمیں اسے یاد رکھنے کا مستقل وسیلہ فراہم کرے گی۔ ”وہ خلا میں جانا چاہتا تھا۔ اس طرح ان کا خاندان، اس کے دوست، جو بھی اسے یاد کرتے ہیں وہ ایسا چاہتے ہیں کہ جب وہ چاند کو دیکھیں تو اسے ہیلو کہہ سکیں۔“
والدہ کے مطابق ایسا لگے گا کہ ہم اسے خراجِ تحسین پیش کر رہے ہیں۔
دوسری جانب چاند پرانسانی باقیات پہنچانے کی خدمات فراہم کرنے والی کمپنی کے سی ای او چارلس شیفر کا کہنا ہے کہ ان کے اس کاروبار کا انسانی پہلو اتنا ہی اہم ہے جتنا ایرو سپیس ٹیکنالوجی۔
چارکس کے مطابق، ’جب میں نے کمپنی کی بنیاد رکھی تو سوچا کہ ہم ایرو سپیس کمپنی بنیں گے لیکن جلد ہ محسوس کیا کہ ہم ایک غم کا علاج کرنے والی کمپنی ہیں۔‘
چاند پر اپالو مشن کو جاتا دیکھنے کے بعد تجارتی خلائی صنعت میں کیریئر کا آغازکرنے والے چارلس نے 1995 میں ’سیلسٹس‘ نامی کپنی کی بنیاد رکھی تھی۔ انسانی باقیات چاند پر لے جانے کے لیے ان کی کمپنی نے پیریگرین ماڈیول میں جگہ خریدی ہے جس کا بنیادی مقصد سائنسی تجربات چاند پر لے جانا ہے۔
اس نئی سروس کی قیمت ’امریکا میں روایتی طور پرآخری رسومات منانے کی قیمت کے برابر ہے‘ یعنی اس پر 13 ہزار امریکی ڈالر خرچ آئے گا۔
اسی وجہ سے بیشتر افراد کا خیال ہے کہ کمپنی ہٓانتہائی خدمت پر مبنی کاروبار کررہی ہے۔
مشہور ماہر فلکیات اور ماہر ارضیات شومیکر وہ واحد شخص ہیں جن کی استھیاں چاند پر رکھی گئی ہے۔ وہ 1997 میں انتقال کرگئے تھے۔
ان کی باقیات کا کچھ حصہ ناسا کی تحقیقات کے تحت چاند کو روانہ کی جانے والی خلائی گاڑی میں رکھا گیا تھا اور اسے دانستہ طور پر چاند پر گرایا گیا تھا تاکہ سائنسدان اس کے اثرات کا مطالعہ کر سکیں۔
لیام کی والدہ مستقبل قریب میں ندائن اپنے شوہر سنجیو اور لیام کے چار بھائیوں کے ساتھ پیریگرین خلائی جہاز کی لانچنگ دیکھنے کی منتظر ہیں۔
انھوں نے کہا کہ ، ’اگر لیام دیکھ سکتا کہ ہم اسکے لیے کیا کر رہے ہیں، تو وہ خوش ہوتا کیونکہ اسے توجہ پسند تھی۔‘
والدہ کا مزید کہنا تھا کہ ، ’میں جانتی ہوں کہ آنسو ضرور ہوں گے لیکن یہ خوشی کے آنسو ہوں گے‘۔
Comments are closed on this story.