الیکشن کمیشن کا فیصلہ معطل، تحریک انصاف کو بلے کا نشان واپس مل گیا، فیصلہ جاری
پشاور ہائی کورٹ نے تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی انٹراپارٹی انتخابات اور بلے کا انتخابی نشان واپس لینے کا الیکشن کمیشن کا فیصلہ معطل کردیا ہے۔ جس کے بعد پی ٹی آئی کو بلے کا نشان واپس مل گیا ہے۔
تحریری فیصلہ جاری
پشاور ہائیکورٹ نے انٹرا پارٹی انتخابات اور انتخابی نشان واپسی کے خلاف کیس میں پی ٹی آئی کی درخواست پر تحریری فیصلہ جاری کردیا۔
تحریری فیصلے میں کہا گیا کہ 8 فروری کو عام انتخابات ہونے جارہے ہیں، 13 جنوری 2024 کو انتخابی نشان الاٹ ہوں گے، ایک سیاسی جماعت کو انتخابی نشان سے محروم کیا گیا ہے، ووٹ کے خواہشمند اپنی پسند کی پارٹی کو ووٹ دینے سے محروم کیا گیا۔
عدالتی فیصلے میں کہا گیا کہ الیکشن کمیشن کے فیصلے کو معطل کیا جاتا ہے، الیکشن کمیشن سمیت تمام فریقین کو نوٹس بھی جاری کیا جاتا ہے، پی ٹی آئی انٹرا پارٹی انتخابات کا سرٹیفکیٹ ویب سائٹ پر پبلش کیا جائے، پی ٹی آئی کا بلے کا نشان بھی بحال کیا جائے۔
عدالت نے اپنے فیصلے میں مزید کہا کہ آئندہ سماعت 9 جنوری 2024 کو ہوگی، الیکشن کمیشن فیصلے معطلی کا حکم 9 جنوری 2024 تک نافذ العمل رہے گا۔
آج کی سماعت کا احوال
اس سے قبل پشاور ہائیکورٹ نے تحریک انصاف کے انٹرا پارٹی الیکشن کالعدم قرار دینے اور بلے کا نشان واپس لینے کا الیکشن کمیشن کا فیصلہ معطل کردیا۔
دلائل مکمل ہونے پر جسٹس کامران حیات نے فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ فروری میں الیکشن ہونے جا رہے ہیں، انتخابی نشان الاٹ کرنے کیلئے آخری تاریخ 13 جنوری ہے۔
عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ پی ٹی آئی وکیل نے عدالت کو بتایا کہ پارٹی نے الیکشن کمیشن کے مطابق انتخابات کرائے، وکیل نے دلائل دیے کے آئین کے مطابق ہرشہری پارٹی بنا سکتا ہے۔
عدالت نے ریمارکس دیے کہ پی ٹی آئی وکیل نے بتایا کہ الیکشن کمیشن نے انٹرا پارٹی انتخابات کالعدم قرار دئیے، اور الیکشن کمیشن نے انہیں مکمل نہیں سنا، جب کہ ڈپٹی اٹارنی جنرل نے دلائل دئیے کہ الیکشن کمیشن کے پاس انٹرا انٹرا پارٹی انتخابات کالعدم قرار دینے کا اختیار ہے۔
عدالت نے الیکشن کمیشن کا فیصلہ کالعدم قرار دیتے ہوئے الیکشن کمیشن سمیت تمام فریقین کو نوٹس جاری کرتے ہوئے جواب طلب کرلیا۔
یاد رہے کہ الیکشن کمیشن نے چند روز قبل اپنے فیصلے میں پی ٹی آئی انٹر اپارٹی انتخابات کو کالعدم قرار دیتے ہوئے انتخابی نشان بلا بھی واپس لے لیا تھا۔ جس کے خلاف پی ٹی آئی نے آج پشاور ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی تھی اور آج ہی سماعت کی استدعا کی تھی۔
الیکشن کمیشن کے فیصلے کے خلاف دائر کی جانے والی درخواست سماعت کے لئے منظور کرلی گئی اور پشاور ہائی کورٹ کے جسٹس کامران حیات میاں خیل نے کی۔
پی ٹی آئی وکیل علی ظفر کے دلائل
پی ٹی آئی کے بیرسٹر علی ظفر نے اپنے دلائل میں کہا کہ الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کو انٹرا پارٹی انتخابات کرانے کا حکم دیا، کمیشن کے حکم کے مطابق انٹرا پارٹی کرائے، ای سی پی نے تسلیم کیا کہ انتخابات ٹھیک ہوئے۔
پی ٹی آئی وکیل کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن نے کہا کہ جس بندے نے انتخابات کرائے اس کی تعیناتی ٹھیک نہیں، کمیشن نے انٹرا پارٹی انتخابات کالعدم قرار دئیے، پارٹی سے انتخابی نشان واپس لیا گیا، انتخابی نشان نہ ہونے کی صورت میں پارٹی غیر فعال ہوجاتی ہے جب کہ انتخابات میں حصہ بھی نہیں لے سکتے۔
بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ انتخابی نشان نہ ہونے کی صورت میں پارٹی کو مخصوص نشستیں بھی نہیں مل سکتی، اس پر عدالت نے کہا کہ میں نے الیکشن کمیشن کا فیصلہ نہیں پڑھا، کیا صرف یہی لکھا ہے کہ الیکشن کرانے والے کی تعیناتی غلط ہے۔
عدالت کے سوال پر علی ظفر نے جواب دیا کہ بلکل الیکشن کمیشن نے یہی لکھا ہے، س پر انتخابات کالعدم قرار دینے کا اختیار الیکشن کمیشن کے پاس نہیں، انتخابی نشان ایک بنیادی حق ہے جو ہم سے لے لیا گیا، الیکشن کمیشن کے پاس انٹرا پارٹی انتخابات کالعدم قرار دینے کا اختیار ہی نہیں۔
اپنے دلائل میں تحریک انصاف کے وکیل نے مزید کہا کہ الیکشن کمیشن پارٹی میں تعیناتیوں پر سوال نہیں اٹھا سکتا، آئین اور الیکشن رولز میں الیکشن کمیشن کے اس اختیار کا کوئی ذکر نہیں، البتہ قانون کے مطابق انٹرا پارٹی انتخابات کرائے اور الیکشن کو تفصیلات فراہم کی تاہم کمیشن نے انٹرا پارٹی انتخابات کے بعد پارٹی سرٹیفیکٹ جاری نہیں کیا۔
بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ انٹرا پارٹی انتخابات پر انتخابی نشان بھی واپسی نہیں لیا جاسکتا، اگر انٹرا پارٹی انتخابات کی تفصیل فراہم نہ کرنے پر انتخابی نشان لیا جاسکتا ہے تو الیکشن کمیشن کا فیصلہ غیرقانونی ہے، بلا کا نشان بھی غلط واپس لیا گیا، پی ٹی آئی کے 8 لاکھ سے زائد ممبرز ہیں اور کسی نے سوال نہیں اٹھایا۔
پشاور ہائی کورٹ نے استفسار کیا کہ الیکشن کمیشن کے پاس آنے والے درخواستگزار کون تھے؟
اس پر بیرسٹر علی ظفر نے جواب دیا کہ عام لوگ تھے، پی ٹی آئی کا حصہ نہیں، سول کورٹ میں مناسب ٹرائل کے بغیر ایسے کیسز میں فیصلہ نہیں دیا جاسکتا، الیکشن کمیشن نے کہا کہ عمر ایوب سیکرٹری جنرل نہیں اس لیے وہ تعیناتی نہیں کرسکتا، البتہ اگر عام انتخابات میں بھی کسی کی تعیناتی غلط ہو تب بھی انتخابات چیلنج نہیں کئے جاسکتے۔
پی ٹی آئی وکیل نے کہا کہ ایک تعیناتی کی بنیاد پر انتخابی نشان واپس نہیں لیا جاسکتا، پارٹی آئین ہم نے بنایا اور ہم نے ہی عمل کرنا ہے، پارٹی آئین کے مطابق ہی انتخابات کرائے۔
جسٹس کامران حیات نے استفسار کیا کہ اگر سیکرٹری جنرل مستعفی ہوجائے تو کیا ہوگا۔ جواب میں بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ ایڈیشنل سیکرٹری جنرل عہدے سنبھالا لیتا ہے، اور اس وقت عمر ایوب ہی تھے۔
عدالت نے پی ٹی آئی وکیل سے سوال کیا کہ کیا اسد عمر نے استفعی دیا اور وہ منظور بھی ہوا۔ اس پر علی ظفر کا کہنا تھا کہ جی بالکل لیکن الیکشن کمیشن نے یہ پوچھا ہی نہیں کیونکہ ٹرائل نہیں ہوا۔
بیرسٹر علی ظفر کے دلائل مکمل ہونے پر پشاور ہائی کورٹ نے کہا کہ ویسے اس پر آج فیصلہ نہیں دے سکتے، یہ ڈویژنل بنچ کا کیس ہے۔
وقفے کے بعد سماعت کا آغاز ہوا تو الیکشن کمیشن کو درخواست دینے والے جہانگیر کے وکیل نوید اختر عدالت میں پیش ہوئے۔
نوید اختر ایڈوکیٹ نے اپنے دلائل میں کہا کہ پی ٹی آئی نے مقررہ وقت میں انتخابات نہیں کرائے، ہم نے مقررہ وقت میں انتخابات نہ کرانے کی خلاف درخواست دی تھی۔
عدالت نے استفسار کیا کہ الیکشن کمیشن نے 20 دن کا وقت دیا تو آپکی بات ختم ہوگئی، : اب سوال یہ ہے کہ الیکشن کمیشن کے پاس کونسے اختیار ہے کہ وہ پارٹی سرٹیفیکٹ مسترد کرے۔
وکیل نوید اختر نے جواب دیا کہ انٹرا پارٹی انتخابات نہ کرانے پر الیکشن کمیشن جرمانہ لگا سکتا ہے۔ جسٹس کامران حیات نے وکیل پر اظہار برہمی کرتے ہوئے کہا کہ آپ میرے سوال کا جواب دیں، آپ کبھی ایک اور کبھی دوسری بات کرتے ہیں، جب الیکشن کا اعلان ہو جائے تو کس قانون کے تحت روک رہے ہیں۔
نوید اختر ایڈووکیٹ کا کہنا تھا کہ انٹرا پارٹی انتخابات کی تفصیل فراہمی کے بعد الیکشن کمیشن خود کو مطمئن کرے گا۔ عدالت نے پھر استفسار کیا کہ جب چئیرمین اور سیکرٹری ختم ہوجائے تو پھر کیسے انتخابات کرائیں گے۔
ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل کے دلائل
دوران سماعت ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل نے اعتراض کیا کہ یہ ڈویژنل بنچ کا کیس ہے، اس پر عدالت نے کہا کہ ہم نے کیس کا فیصلہ نہیں کرنا، آج ہم نے انٹرم ریلیف پر فیصلہ کرنا ہے۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل ثناء اللہ نے اپنے دلائل میں کہا کہ انٹرم ریلیف دینے سے لگے گا کہ حتمی فیصلہ بھی دے دیا۔
جسٹس کامران حیات نے کہا کہ کل کو اگر ہم کسی فیصلے پر پہنچ جائے تو پھر پانی سر اوپر گزرا ہوگا، کیا پھر الیکشن کمیشن دوبارہ انتخابات کرائے گا، ایک آرڈر سے پارٹی کو انتخابات سے نکال دیا گیا۔
ثناء اللہ کا کہنا تھا کہ پھر اس کے لیے ڈویژنل بینچ تشکیل دیا جائے، یہ ڈویژنل بنچ کا کیس ہے، الیکشن کمیشن خود مختیار ادارہ ہے اور ان کے پاس اختیار ہے۔
دلائل مکمل ہونے پر جسٹس کامران حیات نے فیصلہ سنانا شروع کردیا ہے۔ عدالت نے ریمارکس دیے کہ پی ٹی آئی وکیل نے بتایا کہ الیکشن کمیشن کے مطابق انتخابات کرائے، اور دلائل دیے کے آئین کے مطابق ہر شہری پارٹی بنا سکتا ہے۔
عدالت نے ریمارکس دیے کہ پی ٹی آئی وکیل نے بتایا کہ الیکشن کمیشن نے انٹرا پارٹی انتخابات کالعدم قرار دئیے، پی ٹی آئی وکیل نے بتایا کہ الیکشن کمیشن نے انہیں مکمل نہیں سنا۔
عدالت کے مطابق ڈپٹی اٹارنی جنرل نےدلائل دئیے کہ الیکشن کمیشن کے پاس انٹرا انٹرا پارٹی انتخابات کالعدم قرار دینے کا اختیار ہے۔
پی ٹی آئی کی درخواست
پی ٹی آئی کی جانب سے دائر درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا کہ الیکشن کمیشن کے پاس پارٹی انتخابات کرانے کے طریقے سے متلعق فیصلہ دینے کا اختیار نہیں، جن لوگوں نے انٹرا پارٹی انتخابات کو چلینج کیا وہ پارٹی ممبر ہی نہیں۔
درخواست میں الیکشن اور انٹرا پارٹی انتخابات کو چلینج کرنے والے درخواست گزاروں کو بھی فریق بنایا گیا ہے جب کہ عدالت سے سینئرججز پر مشتمل بینچ بنانے اور آج ہی سماعت کے لیے مقرر کرنے کی استدعا کی گئی تھی۔
اس سے قبل ترجمان پی ٹی آئی معظم بٹ کا کہنا تھا کہ کوشش ہوگی درخواست آج ہی سماعت کے لیے بھی مقررہو۔
معظم بٹ کے مطابق پی ٹی آئی کی جانب سے ہائیکورٹ میں الیکشن کمیشن کا فیصلہ معطل کرنے کی استدعا کی جائے گی۔
انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن کا فیصلہ قانون طور پر ناقص فیصلہ ہے، ایک غیرمتعلقہ شخص کی درخواست پرانتخابی نشان واپس لیناغیرقانونی ہے۔
انٹرا پارٹی انتخابات کالعدم قرار، تحریک انصاف سے بلے کا انتخابی نشان چھن گیا
پی ٹی آئی کے وکیل بابراعوان نے سماعت سے قبل یڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پی ٹی آئی کا انتخابی نشان بلا تھا اور بلا ہی رہے گا، پشاوربانی چئیرمین پی ٹی آئی کا چئیرمین تھا اور رہے گا۔
انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن کے فیصلے کو چیلنج کر رہے ہیں، سپریم کورٹ مین بھی توہین عدالت کیس دائرکرنےجارہےہیں۔ انہوں نےواضح کیا کہ الیکشن میں جوبھی رکاوٹ ڈالےگا،ان کےخلاف توہین عدالت کی کارروائی ہوگی۔
پی ٹی آئی نے پرویز خٹک کے بیان کو تحریک انصاف سے ”بلّے“ کا نشان ہتھیانے کی سازش قرار دے دیا
بابر اعوان کا مزید کہنا تھا کہ پنجاب میں پی ٹی آئی کےساتھ پری پول ریگنگ ہورہی ہے، خواتین کے آنچل کھینچے گئے اور بازوں مروڑے گئے۔ امیدواروں سے کاغذات نامزدگی تک چھینے گئے۔
Comments are closed on this story.