دوران قید فلسطینیوں نے اچھا سلوک کیا لیکن معاف نہیں کرینگے، امن ممکن نہیں، اسرائیلی ماں بیٹی
اسرائیل پر 7 اکتوبر کو حماس کے حملے کے بعد قیدی بنا کر غزہ لے جائے جانے والی ماں بیٹی نے رہائی کے بعد انٹرویو دیا ہے جس سے فلسطینی اور اسرائیلی ذرائع ابلاغ اپنے اپنے انداز میں پیش کر رہے ہیں۔
اس انٹرویو میں جہاں اسرائیلی ماں بیٹی نے حماس جنگجوؤں کے اچھے سلوک کی تعریف کی ہے وہیں پر انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ وہ فلسطینیوں کو کبھی معاف نہیں کریں گے اور یہ کہ اسرائیل اور فلسطین کے درمیان کبھی امن نہیں ہو سکتا.
48 سالہ چن گولڈ سٹائن کو ان کی بیٹی 17 سالہ ایگام گولڈ سٹائن اور 11 اور نو سال کے دو بیٹوں کے ساتھ حماس کے جنگجو یرغمال بنا کر غزہ کی پٹی لے گئے تھے۔ جبکہ ان کے شوہر اور بڑی بیٹی کو گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا تھا۔
اسرائیل کے چینل 12 کو انٹرویو دیتے ہوئے چن اور ایگام نے کہاکہ کہ فلسطینی جنگجوؤں نے انہیں ہر وقت خوش رکھنے کی کوشش کی انہیں کھانا فراہم کیا اور ریڈیو نشریات سننے کی بھی اجازت دی۔
چن کے مطابق ان کی جواں سال بیٹی زیادہ وقت ورزش کرتی رہتی تھی ایک موقع پر اس نے حماس جنگجوؤں سے آرم ریسلنگ بھی کی جس کے لیے حماس کے جنگجو نے اپنے ہاتھ پر تولیہ باندھ دیا کیونکہ وہ لڑکی کو چھو نہیں سکتا تھا۔
اسرائیلی خاتون کا کہنا تھا کہ ان کے دونوں لڑکے زیادہ وقت کھیل کود میں رہتے تھے وہ ڈرائنگ اور رائٹنگ کرتے اور بعض اوقات اپس میں لڑائی بھی کرتے تھے اس پر حماس جنگجو ان پر چلاتے۔
چن اور ایگام کا کہنا تھا کہ حماس جنگجوؤں کو ان کی حفاظت کی فکر تھی اور ایک مرتبہ جب اسرائیلی فوج نے اس اپارٹمنٹ کے قریب حملہ کیا جہاں پر انہیں رکھا گیا تھا تو حماس کے اراکین نے انسانی ڈھال بن کر ان کی حفاظت کی۔ اسرائیل نے بم باری کی تو کئی مرتبہ ان کے کہنے پر حماس نے انہیں دوسری جگہ منتقل کیا۔
اسرائیلی ماں بیٹی کا کہنا تھا کہ حماس کے جنگجو ان کی حفاظت اس لیے کر رہے تھے کہ یرغمالی ان کے لیے قیمتی تھے۔
انٹرویو کے دوران اسرائیلی ماں بیٹی نے یہ بھی کہا کہ حماس جنجگو خواتین کو ملکہ سمجھتے ہیں اور ان کی بہت عزت کرتے ہیں۔
ایگام نے کہا کہ فلسطین گارڈز نے اس کا نام تبدیل کر کے سلسبيل رکھ دیا جس کے معنی ہیں ’تازہ پانی کا چشمہ‘ اور اسے یہ نام پسند آیا۔ انہوں نے چن کو جوان بیٹی کی تربیت کے حوالے سے مشورے بھی دیئے۔
چن نے کہا کہ وہ ہمیں خوش رکھنا چاہتے تھے، وہ ہمیں خوراک فراہم کرتے اور بعض اوقات ہم کھانا تیار کرنے میں ان کی مدد کرتے۔
اسرائیلی ماں بیٹی کا کہنا تھا کہ انہیں اگر زیادہ سے زیادہ سزا بھی دی جاتی تو وہ یہ تھی کہ کسی دن ریڈیو انہیں دیا جاتا یا پھر یہ کہا جاتا کہ کھانے کی مقدار کم ہے۔
فلسطینیوں کے اچھے سلوک کے اعتراف کے باوجود اسرائیلی ماں بیٹی نے کہا کہ وہ ہم انہیں کبھی معاف نہیں کریں گے اور اگر اس سے پہلے کبھی امکانات تھے بھی کہ فلسطین اور اسرائیل میں امن ہو جائے گا تو اب ایسا ممکن نہیں۔
چن اور ایگام نے کہا کہ کوئی غلط فہمی میں نہ رہے حماس لازمی طور پر اسرائیل پر پھر حملہ کرے گی اور زیادہ شدت سے۔ آپ انہیں جتنا بھی ماریں وہ جھکنے والے نہیں۔
ایگام نے کہا کہ کوئی یہ نہ سوچے کہ ہمارا وہاں بہت اچھا وقت گزرا ہے یا ہم نے وہاں انسانیت دیکھی ہے ہم صرف یہ بتا رہے ہیں کہ وہاں پر بہت خراب حالات میں صورتحال کچھ بہتر تھی، جس کی وجہ سے ہم پاگل ہونے سے بچ گئے۔
اسرائیلی لڑکی کا کہنا تھا کہ ہم سمجھتے تھے کہ دنیا میں کوئی برا نہیں ہوتا صرف حالات لوگوں کو برا بنا دیتے ہیں لیکن یہ سب لوگ برے ہیں۔
’ہم کبھی معاف نہیں کرینگے ، ہم کبھی ان لوگوں کے لیے کوئی ہمدردی ظاہر نہیں کریں گے اگر ماضی میں ہم سمجھتے بھی تھے کہ امن کا کوئی امکان ہے تو اب ہمیں ان لوگوں پر کوئی اعتبار نہیں رہا خاص طور پہ اب جب کہ ہم ان کے بیچ میں رہ کر ائے ہیں۔‘
Comments are closed on this story.