الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی انٹرا پارٹی انتخابات کے معاملے پر فیصلہ محفوظ کرلیا
پی ٹی آئی کے انٹرا پارٹی انتخابات کے نتائج کالعدم دینے کے معاملے پر الیکشن کمیشن نے فیصلہ محفوظ کرلیا۔
چیف الیکشن کمشنر کی زیر صدارت پانچ رکنی کمیشن نے پی ٹی آئی کے انٹرا پارٹی انتخابات کے معاملے پر سماعت کی۔
چیئرمین پی ٹی آئی بیرسٹر گوہر علی خان، بیرسٹر علی ظفر اور نیاز اللہ نیازی بھی الیکشن کمیشن میں پیش ہوئے۔
اکبر ایس بابر سمیت متعدد درخواست گزار بھی الیکشن کمیشن میں پیش ہوئے۔
پی ٹی آئی انٹرا پارٹی انتخابات کے خلاف تیرہ درخواستیں دائر ہیں۔ جبکہ ہم عوام پاکستان پارٹی نے انتخابی نشان بلے کے لیے الیکشن کمیشن میں درخواست جمع کرا رکھی ہے۔
پی ٹی آئی کے وکیل بیرسٹر علی ظفر کے دلائل
پی ٹی آئی کے وکیل بیرسٹر علی ظفر نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ الیکشن کمیشن کے حکم پر دوبارہ 20 روز کے اندر انتخابات کروائے، چیئرمین کے الیکشن کی معیاد پانچ سال کے لئے ہوتی ہے۔
بیرسٹر علی ظفر نے بتایا کہ پارٹی آئین کے مطابق دو طرح کے الیکشن ہوتے ہیں ایک پینل اور دوسرے سنگل، چیئرمین پی ٹی آئی کے انتخابات بلامقابلہ ہوئے۔
وکیل علی ظفر نے کہا کہ پارٹی آئین کے مطابق انٹرا پارٹی انتخابات خفیہ بیلٹ سے ہوتے ہیں، اگر کوئی جماعت انٹرا پارٹی انتخابات کا انعقاد کرتی ہے تو اس میں کوئی ممانعت نہیں۔
انہوں نے کہا کہ پارٹی آئین میں صرف خفیہ بیلٹ پیپرز کا ذکر ہے، الیکشن کمیشن انٹرا پارٹی انتخابات کو بطور الیکشن ٹریبونلز ریگولیٹ نہیں کرتا۔
بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ الیکشن کمیشن کے فیصلہ کے مطابق جو پارٹی کے ممبر نہیں وہ پارٹی فیصلے کو چیلنج نہیں کرسکتے۔
اس کے بعد بیرسٹر علی ظفر نے الیکشن کمیشن کا فیصلہ پڑھ کر سنایا اور کہا کہ الیکشن کمیشن کا ایک فیصلہ ہے جو پارٹی کے ممبرنہیں وہ پارٹی کے فیصلے کو چیلنج نہیں کرسکتا، ممبر کو پارٹی نکال بھی سکتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ممبر کو پارٹی میں رہنے کے لیے فیس جمع کروانا ہوتی ہے، اگرکسی کوبہت شوق ہے سیاسی جماعت میں رہنے کا تو وہ ٹرائل کورٹ میں جا سکتا ہے۔
بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ الیکشن ایکٹ کے سیکشن 208 کے مطابق سیاسی جماعت کی باڈی اپنے آئین کے مطابق منتخب ہوگی۔
وکیل پی ٹی آئی نے کہا کہ تمام سیاسی جماعت کو الیکٹرول کالج پورا کرنا ہوگا، جب سیاسی جماعت انٹراپارٹی انتخابات مقرر وقت میں کرانے پر ناکام ہوگی، تو الیکشن کمیشن شوکاز جارہ کرے گی اور 2 لاکھ تک جرمانہ کیا جاسکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ الیکشن ایکٹ کے مطابق انتخابی نشان کیلئے شرائط ہیں جو ہم نے پوری کی ہیں، چار مختلف ڈاکومنٹس دینے پر انتخابی نشان ملتا ہے۔
بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ ہم نے الیکشن کمیشن کوسیکورٹی کیلئے خط بھی لکھا، آئی جی پولیس اورچیف سیکرٹری سے بھی بات ہوئی، کاغذات نامزدگی سے متعلق بھی خبریں رپورٹ ہوئیں۔
ممبر الیکشن کمیشن نے کہا کہ آپ کے پاس کاغذات نامزدگی کا کوئی نمونہ ہے، کاغذات نامزدگی سے متعلق نوٹس کی کوئی کاپی ہے، آپ ہماری تسلی کیلئے کوئی کاپی دکھائیں۔
جس پر چیئرمیں پی ٹی آئی گوہرعلی خان نے جواب دیا کہ جی بالکل ہے لیکن یہاں پر نہیں لائے۔
بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ جب سکروٹنی مکمل ہوئی تو ہمیں پتہ چلا کہ یہ بلا مقابلہ ہے، بلا مقابلہ کے باوجود ہم نے سب کوجمع ہونے کی اجازت دی، الیکٹوریٹ باڈی میں سے کسی نے بھی الیکشن سے متعلق شکایت نہیں کی، غیر ممبرکے علاوہ کوئی بھی آپ کے پاس نہیں آیا، ہم واحد پارٹی ہیں جن کا سب کچھ انٹرنیٹ پرموجود ہے۔
جس پر چیف الیکشن کمشنر نے کہا کہ اب تو جلسے بھی انٹرنیٹ پر ہورہے ہیں۔
بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ کسی درخواست گزار نے ممبر شپ کارڈ نہیں دکھایا۔
کمیشن نے دلائل سننے کے بعد فیصلہ محفوظ کرلیا۔
Comments are closed on this story.