’ججز کی تقرری کے حوالے سے چیف جسٹس اپنا صوابدیدی اختیار ختم کرنے کیلئے تیار‘
چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ جوڈیشل کمیشن کے رولزمیں ترمیم پر تیار ہوگئے ہیں۔
ذرائع کے مطابق ججز کی تقرری کے حوالے سے چیف جسٹس کے صوابدیدی اختیارات ختم کیے جانے کا امکان ہے۔
آج نیوز کے پروگرام ”اسپاٹ لائٹ“ میں گفتگو کرتے ہوئے سینئیر وکیل اور جوڈیشل کمیشن کے ممبر اختر حسین نے بتایا کہ چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ ججز تقرری کلے حوالے سےاپنے صوابدیدی اختیارات چھوڑنے کو تیار ہیں۔
اختر حسین نے بتایا کہ جوڈیشل کمیشن کے رولز میں تبدیلی کے حوالے سے چیف جسٹس نے کمیٹی قائم کردی ہے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ رولز میں ترمیم کے بعد جوڈیشل کمیشن کا کوئی بھی ممبر اعلیٰ عدلیہ میں ججز کی تقرری کے حوالے سے نامزدگی کر سکے گا۔
اس سے قبل یہ اختیار صرف چیف جسٹس پاکستان اور صوبائی ہائیکورٹس کے چیف جسٹسز کے پاس ہوتا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ جوڈیشل کمیشن کے اندر صرف صوبائی چیف جسٹسز نہیں ہوں گے بلکہ بار کونسلز کے نمائندے بھی کمیشن میں موجود ہوں گے۔
خیال رہے کہ بار کونسلز اور وکلاء ایسوسی ایشنز کا مطالبہ رہا ہے کہ ججز کی تقرری میں چیف جسٹس کے صوابدیدی اختیار کو ختم کرکے جوڈیشل کمیشن میں موجود تمام اراکین کو نامزدگیوں کا اختیار دیا جائے۔
پاکستان ممیں لمبے عرصے تک اعلیٰ عدلیہ میں ججز کی تقرری کے حوالے سے ون مین شو چلتا آرہا تھا۔
چیف جسٹس پاکستان اپنی مرضی کے ججز کا ایک پینل بنا کر صدر کو بھجواتے تھے، جس کے بعد صدر اس پینل میں سے ججز کی تقرری کے پابند ہوتے تھے۔
اس کو تبدیل کرنے کیلئے اٹھارویں ترمیم میں ججز کی تقرری کے عمل کو یکسر تبدیل کردیا گیا، اٹھارویں ترمیم میں ججز تقرری کا اختیار چیف جسٹس سے لے کر جوڈیشل کمیشن کو دیا گیا اور ساتھ میں ایک پارلیمانی کمیٹی بھی بنا دی گئی۔
جوڈیشل کمیشن کو اختیار تھا کہ وہ ججز کو نامزد کرکے ان کے نام پارلیمانی کمیٹی کو بھجوائے، پارلیمانی کمیٹی کو اختیار تھا کہ وہ کمیشن کے نامزد کردہ ناموں کو مسترد کرسکے۔
تاہم، کمیٹی کے اس اختیار کو سپریم کورٹ کے عدلیہ کے معاملات میں مداخلت قرار دے کر پارلیمنٹ کو اس میں ترمیم کا حکم دیا تھا، جس کے بع انیسویں ترمیم کرکے پارلیمانی کمیٹی کو کمزور کردیا گیا۔
اب معاملہ یہ ہے کہ صرف چیف جسٹس کے پاس اختیار یہ ہے کہ وہ کسی کو بھی سپریم کورٹ کے جج کے لیے پر نامزد کرسکتا ہے اور جوڈیشل کمیشن اس شخص کو مسترد یا منظور کرسکتا ہے، لیکن کمیشن کا کوئی ممبر خود نامزدگی نہیں کرسکتا۔
2010 سے لے کر اب تک صرف ایک مرتبہ ایسا ہوا ہے جب جوڈیشل کمیشن نے چیف جسٹس کی نامزدگی کو مسترد کیا ہو۔
ایک سوال کے جواب میں سینئیر وکیل نے کہا کہ ججز کی تقرری پر خفیہ اداروں کی جو رپورٹیں آتی تھیں وہ ’ایک طرح سے بند ہوگئی ہیں ہماری اپوائنٹمنٹس میں، ہم نے یہ اعتراضات کیے تھے، کیونکہ جو رپورٹس آتی تھیں ان پر کسی کے سائن نہیں ہوتے تھے، نہ ہم ان کو بلاکر پوچھ سکتے تھے، تو کمیشن کے اندر اس پر بحث ہوئی تھی کہ آئندہ کسی خفیہ ادارے نے رپورٹ کرنی ہے تو وہ اٹارنی جنرل سے بات کرلیں یا لا منسٹر سے بات کرلیں جو ان سے تفصیلات کے بارے میں پوچھ سکتے ہیں، لیکن کمیشن کے سامنے ان کی رپورٹس نہیں آئیں گی، ان کی رپورٹس کو اگر صھیح سمجھتے ہیں تو لا منسٹر یا اٹارنی جنرل اپنی طرف سے ہمیں کہیں گے تو ہم ان کی بات کو تسلیم کرلیں گے‘۔
ان کا کہنا تھا کہ ’خفیہ اداروں کا مسئلہ نہیں ہے ججز کی اپوانٹمنٹس میں، مین (اہم) مسئلہ جو ہے وہ ہمارے خود کمیشن کے رولز کا ہے اور اپوائنٹمنٹس کے طریقہ کار کا ہے‘۔
انہوں نے کہا کہ سارا جھگڑا رول تھری کا ہے۔
اختر حسین کا کہنا تھا کہ ’کریڈٹ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو جاتا ہے کہ وہ اپنے اختیارات چھوڑنے کو تیار ہیں، انہوں نے کہا کہ میں نے بھئی جو رول تھری ہے جس میں چیف جسٹس کا ایبسولیوٹ (کُلّی)اختیار ہے، انہوں نے کہا کہ بھئی میں اپنے اختیارات کو کم کرنے کیلئے تیار ہوں، رولز کو امینڈ (ترمیم) کیا جائے اور اس کے اندر اسٹیک پولڈر یعنی پاکستان بار کونسل، پروونشل (صوبائی) بار کونسلز کے نمائندوں کی کنسلٹیشن (مشاورت) کے بغیر یہ نہیں ہونا چاہئیے‘۔
انہوں نے کہا کہ چنانچہ رولز میں ترمیم اور نئے رولز شامل کرنے کیلئے کل ہم نے جوڈیشل کمیشن میں ایک رولز کمیٹی بنائی ہے۔
سینئیر وکیل نے سویلین کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کے خلاف توہین عدالت کی دائر درخواست پر کہا کہ ’اگر کورٹ کے آرڈرز (احکامات) کی وائلیشن (خلاف ورزی) ہے یا کورٹ کے آرڈرز پر عمل نہیں کیا جارہا تو اس صورت میں توہین عدالت کی کارروائی ہو سکتی ہے‘۔
’بات نہیں مانی تو میں 18ویں ترمیم اڑا دوں گا‘
پروگرام میں اسی حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما قادر مندوخیل نے کہا کہ یہ سارے ججز ادھر ادھر کے چیمبرز سے آتے ہیں، غریب کا بچہ کبھی سوچ بھی نہیں سکتا کہ ہائیکورٹ کا جج بن جائے۔
انہوں نے کہا کہ جب آپ چپڑاسی کی نوکری کیلئے اشتہار دیتے ہیں تو ہائیکورٹ کے جج کی نوکری کیلئے اشتہار کیوں نہیں دیتے؟
قادر مندوخیل نے کہا کہ جسٹس افتخار چوہدری نے 18ویں ترمیم کے زریعے اس وقت کی حکومت کو 19ویں ترمیم کیلئے بلیک میل کیا تھا۔
قادر مندوخیل کے مطابق جسٹس افتخار چوہدری نے کہا کہ ’میری بات نہیں مانی تو میں 18ویں ترمیم اڑا دوں گا‘۔
Comments are closed on this story.