کوہستان میں جرگے کا حکم: لڑکے کے ساتھ تصاویر وائرل ہونے پر ایک لڑکی قتل، دوسری عدالت میں پیش
خیبر پختونخوا میں کوہستان کے ضلع کولئی پالس میں ایک اور حوا کی بیٹی انا کی بھینٹ چڑھ گئی، سوشل میڈیا پر لڑکے کے ساتھ مبینہ طور پر تصاویر وائرل ہونے پر جرگے کے فیصلے پر 18 سالہ لڑکی کو قتل کر دیا گیا۔ نگراں وزیرِاعلیٰ خیبرپختونخوا ارشد حسین شاہ نے واقعہ کا نوٹس لے کر ایڈیشنل چیف سیکرٹری سے رپورٹ طلب کرلی۔
کولئی پالس کے علاقے شریال میں کچھ روز قبل مقتولہ ریا بی بی اور ایک دوسری لڑکی کی ویڈیو اور تصاویر ایک لڑکے کے ساتھ سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی تھیں، جس پر مقامی لوگوں نے لڑکی کے ورثاء کی مشاورت سے فیصلہ کرکے ریا بی بی کو قتل کر دیا۔
مانسہرہ سے تقریباً 150 کلومیٹر شمال مغرب میں واقع کولائی پلاس ضلع کے ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ پولیس مسعود خان نے کہا کہ ’کچھ لوگوں نے دونوں لڑکیوں کی تصاویر اپ لوڈ کی تھیں۔‘
انہوں نے گاؤں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’انہوں نے ان میں سے ایک کو گولی مار کر ہلاک کر دیا جبکہ پولیس نے دوسری کو بچا لیا‘۔
پولیس نے بتایا کہ ہلاک ہونے والی خاتون کے کچھ رشتہ دار ملزمان میں شامل ہیں۔
پولیس نے پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 109 (جرم کیلئے اُکسانا)، 302 (قتل عمد یا پہلے سے سوچے سمجھے قتل کی سزا) اور 311 (قصاص کی چھوٹ کے بعد سزا) کے تحت قتل کی ایف آئی آر درج کی۔
ڈی ایس پی مسعود خان نے مقتول کے والد کو گرفتار کرنے کا دعویٰ بھی کیا ہے۔
ڈی ایس پی مسعود خان کے مطابق لڑکی کے والد سمیت تمام جرگہ کے خلاف قتل مقدمہ درج کر لیا ہے اور مقتولہ کے والد ارسلان کو گرفتار کر لیا گیا ہے، جبکہ دیگر افراد کی گرفتاری کے لیے بھی چھاپے مارے جا رہے ہیں۔
دوسری لڑکی نے مقامی عدالت میں بیان دیا کہ اس کی جان کو کوئی خطرہ نہیں جس کے بعد عدالت نے اسے گھر والوں کے ساتھ بھیج دیا۔
تاہم، ڈی پی او کولئی پالس مختیار تنولی کہتے ہیں کہ کوئی علاقائی جرگہ نہیں ہوا، گھر والوں نے ہی فیصلہ کرکے لڑکی کو قتل کیا۔
مختیار تنولی کے مطابق قتل میں لڑکی کے والد، چچا اور اس کے دو بھائی شامل تھے۔
ڈی پی او مانسہرہ کا کہنا تھا کہ ملزمان کو سزا دلوائیں گے اور قانون کی عمل داری یقینی بنائیں گے۔
دریں اثنا، تصویر میں لڑکا روپوش ہو گیا ہے اور اس کا ٹھکانہ ابھی تک نامعلوم ہے۔
دوسری جانب نگران وزیرِ اعلیٰ خیبرپختونخوا جسٹس سید ارشد حسین شاہ نے واقعے کا سخت نوٹس لیتے ہوئے فوری انکوائری کرکے رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت جاری کردی، جبکہ انسپکٹر جنرل پولیس کو واقعے میں ملوث تمام افراد کی فوری گرفتاری کا حکم دے دیا۔
وزیراعلیٰ کا کہنا ہے کہ کسی کو بھی قانون اپنے ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں دی جاسکتی، قانون اور انصاف کی بالادستی کو ہر صورت یقینی بنایا جائے گا۔
وزیر اعلیٰ نے ہدایت دی کہ مقتولہ لڑکی کی ساتھی کو مکمل تحفظ فراہم کرنے کے لئے بھی تمام ضروری اقدامات یقینی بنائے جائیں۔
قبل ازیں، سال 2013 میں بھی ویڈیو وائرل ہونے پر 5 لڑکیوں اور 4 لڑکوں کو جرگے کے حکم پر قتل کر دیا گیا تھا، جس پر سپریم کورٹ نے ازخود نوٹس لے کر ملزمان کو گرفتار کرنے کا حکم دیا تھا۔
یہ واقعہ ایک دہائی سے زائد عرصے کے بعد پیش آیا ہے، 2012 میں اسی علاقے میں پانچ خواتین اور چار مردوں کو قتل کیا گیا تھا، کیونکہ مردوں کے رقص کے دوران تالیاں بجانے والی خواتین کی ایک ویڈیو وائرل ہو گئی تھی، جس کے بعد مقامی جرگے نے ان کے قتل کا حکم دیا تھا۔
کوہستان ویڈیو سکینڈل کے ملزمان کی بریت قتل کا باعث بنی؟
انسانی حقوق کی کارکن فرزانہ باری کا کہنا ہے کہ ان کے پاس اس حوالے سے بات کرنے کیلئے ’الفاظ نہیں ہیں کیونکہ ہم ان واقعات کی مذمت کرتے رہتے ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہاس لڑکی کی موت لوگوں کو کوہستان میں ماضی کے واقعات کی یاد دلا رہی ہے۔
آج نیوز کی خصوصی نشریات میں گفتگو کرتے ہوئے فرزانہ باری نے کہا کہ کے پی کے علاقے میں یہ پہلا کیس نہیں تھا۔ اس کیس نے ناظرین کو 2012 کے بدنام زمانہ کوہستان ویڈیو اسکینڈل کی یاد دلائی جس میں تین افراد کو، جو مقتول لڑکی کے رشتہ دار تھے، انہیں عمر قید کی سزا سنائی گئی تھی۔
2012 کے اُس ویڈیو اسکینڈل میں کم از کم پانچ خواتین اور چار مرد مارے گئے تھے۔ خبر عام کرنے اور غیرت کے نام پر قتل کے واقعات کو بے نقاب کرنے والے محمد افضل کوہستانی کو مارچ 2019 میں ایبٹ آباد میں گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا تھا۔
فرزانہ باری نے مقامی لوگوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ لوگ خوفزدہ تھے اور ملزمان کی گرفتاری کے بعد جرگے کی طرف سے اس قسم کی سزائیں ختم ہو گئی تھیں۔
ان کا خیال تھا کہ تمام مشتبہ افراد کے بری ہونے سے ایک ”پیغام“ دیا گیا ہے کہ گاؤں کے بزرگوں کو ان کے حکم پر سزا نہیں دی جائے گی۔
فرزانہ باری نے حکم نامہ جاری کرنے والے لوگوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا، ’متاثرہ کے والد کی گرفتاری کافی نہیں ہے۔‘
ہیومن رائٹس کارکن نے مزید کہا کہ جرگوں کو پہلے ہی غیر قانونی قرار دیا جا چکا ہے اور مطالبہ کیا کہ اگر ایسے اجلاس ہوتے ہیں تو پولیس کارروائی کرے۔
انہوں نے اس طرح کی غیر قانونی سرگرمیوں کو روکنے کے لیے مقامی سطح پر پولیس اہلکاروں، سول سوسائٹی، قانون سازوں اور عوامی نمائندوں پر مشتمل مانیٹرنگ میکنزم بنانے کی ضرورت پر زور دیا۔
کے پی میں آج نیوز کی بیورو چیف فرزانہ علی کے مطابق دوسری لڑکی کو اسی ماحول میں واپس بھیجنا مناسب نہیں تھا جہاں ایک لڑکی کو قتل کیا گیا تھا۔ لیکن پولیس نے نامہ نگاروں کو یقین دہانی کرائی ہے کہ لڑکی کو تحفظ فراہم کرنے کے تمام انتظامات ہیں۔
انہوں نے پہاڑی علاقے کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ روایتی ماحول میں معافی کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ کوہستان کی تاریخ پر روشنی ڈالتے ہوئے فرزانہ علی نے کہا کہ کچھ لوگ 40 سال بعد بھی اپنے حریفوں سے انتقام لیتے ہیں۔
ایک سوال کے جواب میں فرزانہ باری نے کہا ایسے واقعات پر کسی بھی کمیشن کے پاس انسانی حقوق سے متعلق ٹریک ریکارڈ رکھنے والے افراد ہونے چاہئیں جو سمجھوتہ نہ کریں۔
انہوں نے کہا کہ مجھ سمیت بشریٰ گوہر اور منیر عباسی پر مشتمل تین رکنی کمیشن ویڈیو سکینڈل کے بعد کوہستان گیا تھا۔ دونوں ارکان نے کہا کہ انہوں نے جو خواتین دیکھی تھیں وہ زندہ تھیں، میں نے اس پر اعتراض کیا اور سات سال بعد ثابت ہوا کہ ان لڑکیوں کو قتل کیا گیا اور انہیں سزا دی گئی۔ اس لیے کمیشن میں صرف خواتین کا ہونا ضروری نہیں ہے’۔
فرزانہ باری کا مؤقف تھا کہ اس بار واقعے میں دوسری لڑکی اور لڑکے محفوظ نہیں ہیں۔
ایک سوال کے جواب میں، انہوں نے کہا کہ وائرل ہونے والی تصویر ”ڈاکٹرڈ“ (ترمیم شدہ) تھی اور جعلی اکاؤنٹ کے ذریعے بھیجی گئی تھی۔
فرزانہ باری کے مطابق، کوہستان میں لوگوں کے ذاتی اختلافات ہیں اور انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ وفاقی تحقیقاتی ادارے کو اس میں شامل کیا جائے تاکہ حقائق کا پتہ لگایا جا سکے۔
Comments are closed on this story.