آبادی میں سو فیصد اضافہ، لیکن اقلیتی برادری کیلئے مخصوص نشستیں نہیں بڑھیں
’مردم شماری میں درست اندراج نہ ہونے کے باوجود ہماری آبادی میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے، لیکن ناقص پالیسیوں اور حکمران جماعتوں کی عدم دلچسپی کی وجہ سے 38 سال گزرنے کے بعد بھی قانون ساز اسمبلیوں میں مختص ہماری مخصوص نشستوں میں کوئی اضافہ نہیں کیا گیا۔‘
یہ کہنا تھا آل پاکستان ہندو رائٹس موومنٹ کے چیئرمین ہارون سرب دیال کا، جو ایک مندر کے سامنے اپنی برادری کے دیگر افراد کے ہمراہ مایوس کھڑے تھے۔
1981 کی مردم شماری میں اقلیتوں کی آبادی
1981 کی مردم شماری کے مطابق پاکستان میں مذہبی اقلیتوں کی آبادی 27 لاکھ 90 ہزار نفوس پر مشتمل تھی، جس میں مسیحی آبادی 13 لاکھ جبکہ ہندوؤں کی آبادی 12 لاکھ 80 ہزار تھی، جو کُل آبادی کا 1.55 فیصد بنتی تھی۔
اسی طرح احمدی ایک لاکھ، اور سکھ، بدھ مت اور پارسی وغیرہ کی کل آبادی ایک لاکھ دس ہزار افراد پر مشتمل تھی۔
اسی مردم شماری کے مطابق پاکستان میں مسلمانوں کی آبادی آٹھ کروڑ 14 لاکھ تھی جو کل آبادی کا 96.68 فیصد تھے۔
اقلیتی برادری کیلئے مخصوص نشستوں کی تاریخ
دسمبر 1970 کے عام انتخابات مشترکہ انتخابی نظام کے تحت ہوئے جس میں صوبائی اسمبلی سے رانا چندر سنگھ اور قومی اسمبلی کے لئے راجہ تری دیو کے علاوہ کوئی اقلیتی امیدوار انتخاب نہ جیت سکا۔
جس کے بعد نومبر 1975ء میں چوتھی آئینی ترمیم کے ذریعے اقلیتی برادری کے لئے قومی اسمبلی میں 6 نشستیں مختص کی گئیں، تاہم بعد میں صدر جنرل ضیاء الحق نے اپنے صدارتی فرمان نمبر 16 مجریہ 1985ء کے تحت اقلیتوں کیلئے قومی اسمبلی میں 10 نشستیں مختص کیں۔
ہارون سرب دیال کا دعوٰی ہے کہ مردم شماری میں حکومتی اداروں اور اقلیتی برادری میں موجود رابطوں کے فقدان کی وجہ سے ان کی زیادہ تر آبادی اندراج سے رہ جاتی ہے، مگر اس کے باوجود 1985 کے مقابلے میں ان کی آبادی میں سو فیصد سے زیادہ اضافہ ہوا ہے۔ لیکن حکمرانوں نے قانون ساز اسمبلیوں میں مذہبی اقلیتوں کے لیے اب تک ان کی مخصوص نشستوں میں کوئی اضافہ نہیں کیا ہے۔
2017 کی مردم شماری میں اقلیتی برادری کی آبادی
2017 کی مردم شماری کے مطابق مذہبی اقلیتوں کی کل آبادی 73 لاکھ 20 ہزار شمار کی گئی ہے، جن میں مسیحی 2.64 ملین، ہندو 3.6 ملین، احمدی 0.19 ملین، شیڈول کاسٹ 0.85 ملین اور دیگر مذاہب کے لوگ 0.4 ملین ہیں۔
پشاور سے تعلق رکھنے والے مسیحی برادری کے سرکردہ رہنما آگسٹن جیکب بھی اپنی برادری کے دیگر افراد کی طرح اپنے سیاسی مستقبل کے حوالے سے کافی فکرمند ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ’ہمارا ہمیشہ یہ مطالبہ رہا ہے کہ اقلیتی برادری کی آبادی میں اضافے کے تناسب سے قومی اور صوبائی اسمبلی میں ان کیلئے مخصوص نشستوں میں اضافہ کیا جائے اور ان کی مخصوص نشستوں پر نامزدگی کا عمل بھی بہتر بنایا جائے لیکن کوئی بھی سیاسی جماعت اس میں سنجیدہ نہیں ہے کیونکہ وہ ہمارے نمائندے ہم سے پوچھے بغیر براہ راست نامزد کر لیتی ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ آبادی میں اضافے کے باوجود سیٹوں میں اضافہ نہ ہونے کی وجہ سے ان کے بنیادی اور آئینی حقوق متاثر ہو رہے ہیں۔
آگسٹن جیکب نے سیاسی جماعتوں سے مطالبہ کیا کہ وہ انتخابات سے پہلے اپنا اپنا منشور پبلک کریں تاکہ ہمیں اندازہ ہو کہ کون سی سیاسی جماعتیں اقلیتی برادری کو حقوق دلانے میں سنجیدہ ہے۔
انہوں نے بتایا کہ مخصوص نشستوں پر اسمبلیوں میں جانے والے قانون ساز اقلیتی برادری سے زیادہ ترجیح اپنے سیاسی جماعتوں کو دیتے ہیں۔ ’اگر سیاسی جماعتیں چاہیں تو وہ اقلیتی برادری کے نشستوں میں اضافہ کر سکتے ہیں۔‘
آئین پاکستان کے آرٹیکل 51 کے مطابق قومی اسمبلی میں اقلیتوں کے لیے قومی اسمبلی میں دس جبکہ آرٹیکل 106 کے تحت صوبوں میں 24 سیٹیں مختص ہیں جن میں صوبہ سندھ کے 9، پنجاب کے 8، بلوچستان کے 3 جبکہ خیبر پختونخواہ کی 4 نشستیں شامل ہیں۔ اِس کے علاوہ اقلیتی برادری کے لیے سینیٹ آف پاکستان میں بھی 4 سیٹیں مختص ہیں۔
اس حوالے سے جب ہم نے ہیومن رائٹس کونسل آف پاکستان کے چیئرمین جمشید حسین سے سوال کیا تو انہوں نے بتایا کہ اقلیتی برادری سے تعلق رکھنے والے افراد کے بھی دیگر شہریوں کے برابر حقوق ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ’قائداعظم محمد علی جناح نے پاکستان آزاد ہونے کے بعد اپنی پہلی تقریر میں اقلیتی برادری کے حقوق اور ان کے مذہبی و ثقافتی آزادی کا ذکر کیا۔‘
جمشید حسین کے مطابق یہاں اقلیتی برادری کو بے شمار مسائل درپیش ہیں جن کا حل ان کو سیاسی طور پر خودمختار اور مظبوط بنانا ہے، لیکن بدقسمتی سے آج تک قومی اسمبلی نے کوئی ایسا قانون پاس نہیں کیا جس کی رو سے اقلیتی برادری کی نشستیں بڑھ جائیں۔
انہوں نے کہا کہ اس مسئلے پر سیاسی جماعتوں کو آواز اٹھانی چاہیے۔ وہ اقلیتی برادری سے ووٹ تو لیتی ہیں لیکن جب حق دینے کی بات آتی ہے تو وہ حق دینے سے کتراتی ہیں۔
انہوں نے مطالبہ کیا کہ اقلیتی برادری کی مخصوص نشستوں میں اضافہ کیا جائے کیونکہ اقلیتی برادری کی آبادی تیزی سے بڑھ رہی ہے۔
جمشید حسین کا کہنا تھا کہ جس طرح ہم ہر مردم شماری کے بعد قومی و صوبائی اسمبلی کی نشستوں میں اضافہ کرتے ہیں اُسی طرح اقلیتی برادری کی آبادی کو مدنظر رکھ کر قانون ساز اسمبلیوں میں ان کی نمائندگی بھی بڑھانی چاہیے۔
انہوں نے بتایا کہ سیٹوں میں اضافہ نہ ہونے کی وجہ سے اقلیتی برادری کے مسائل اور احساس محرومی میں اضافہ ہو رہا ہے جس کا تدارک ضروری ہے۔
مخصوص نشستوں کے حوالے سے الیکشن کمیشن کے نئے اعداد و شمار کے مطابق بلوچستان میں خواتین کی نشستیں تین سے بڑھا کر 4 کر دی گئی ہیں۔
خیبر پختونخوا میں 8 سے 10 کر دی گئی ہیں۔ پنجاب میں 35 سے کم کر کے 32 کر دی گئیں جبکہ سندھ کی 14 برقرار ہیں۔ اس کے علاوہ قومی اسمبلی میں اقلیتی نشستوں کی تعداد 10 برقرار رکھی گئی ہے۔
اقلیتی نشستوں میں اضافے کے حوالے سے مخصوص نشست پر منتخب ہونے والے رکن قومی اسمبلی ڈاکٹر رمیش کمار نے 2013 میں ترمیمی بل قومی اسمبلی میں پیش کیا جس میں آئین کے آرٹیکل 51 اور 106 میں ترمیم کرتے ہوئے آبادی کی بنیاد پر اقلیتوں کے لیے زیادہ نشستیں مختص کرنے اور اقلیتی برادری کو ووٹ کے دہرے حقوق دینے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔
اگر یہ بل دو تہائی اکثریت سے منظور ہو جاتا تو قومی اسمبلی میں غیرمسلم اراکین کی نشستوں کی تعداد دس سے بڑھ کر 15 ہو جاتی اور اس طرح صوبائی اسمبلیوں میں بھی ان کے نمائندوں کی تعداد میں اضافہ ہو جاتا لیکن متعلقہ سٹینڈنگ کمیٹی میں بحث کے بعد اس بل کو ڈیفرڈ کیا گیا۔
ڈاکٹر رامیش کمار نے بتایا کہ سٹینڈنگ کمیٹی کے فیصلے پر وہ خود حیران ہے اور یہ نہیں جانتے کہ بل کو واپس اسمبلی میں کیوں نہیں بیجھا گیا، انہوں نے کہا کہ میں نے سال 2014 میں دوبارہ بھی کوشش کی لیکن کامیاب نہیں ہوا۔
سال 2013 میں اقلیتی برادری کے نشستوں میں اضافہ کے حوالے سے بل لانے والوں میں مسلم لیگ ن سے تعلق رکھنے والا سابقہ ممبر قومی اسمبلی شہاب الدین خان بھی شامل تھا۔
انہوں نے اس حوالے سے بتایا کہ وہ بل سٹینڈنگ کمیٹی چلا گیا، جہاں اس پر بحث ہوتی ہے اور اس کی ضرورت اور اہمیت کو دیکھا جاتا ہے اور اس بات کو دیکھا جاتا ہے کہ یہ کس قدر ممکن ہے جہاں وہ ڈیفر ہو گیا۔
انہوں نے کہا کہ سٹینڈنگ کمیٹی میں ڈیفرڈ ہونے کے رامیش کمار سمیت کسی نے اس میں کوئی دلچسپی نہیں لی۔
انہوں نے کہا کہ میں سمجھتا ہوں یہ ایک جمہوری معاشرہ ہے، اقلیتی برادری کو بھی جنرل نشستوں پر انتخابات لڑنا چاہیے۔
شہاب الدین خان نے سیاسی جماعتوں پر زور دیا کہ وہ جنرل نشستوں پر اقلیتی برادری کے امیدواروں کو ٹکٹ جاری کرے اور عوام کو بھی چاہیے کہ وہ ان کو ووٹ دیکر کامیاب کریں۔
شہاب الدین خان پر امید ہیں کہ آنے والا دور حکومت پاکستان مسلم لیگ ن کا ہے جس میں وہ اقلیتی برادری کے حقوق کے لیے نہ صرف موثر قانون سازی کریں گے بلکہ ان کو سیاست میں بھی نمایاں کردار آدا کرنے کا حق دیں گے۔
اسسٹنٹ ڈائریکٹر الیکشن کمیشن خیبر پختونخوا سید عون احمد نقوی کا اس حوالے سے کہنا تھا کہ قانون ساز اسمبلیوں کی سیٹس میں اضافہ آبادی کی تناسب سے کیا جاتا ہے۔ اگر اقلیتی برادری کی آبادی میں اضافہ ہوا ہے تو ان کی سیٹس میں اضافہ قانون سازی کے ذریعے ہی ممکن ہے جس میں الیکشن کمیشن کا کوئی عمل دخل نہیں۔
انہوں نے بتایا کہ جب قانون سازی کے ذریعے نشستوں میں اضافہ ہو گا تب یہ الیکشن ایکٹ کا حصہ بن جائے گا جس پر عمل درآمد کو ہم یقینی بنائیں گے۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جون 2022 کی ووٹر لسٹ کے مطابق پاکستان میں اس وقت مذہبی اقلیتوں کے کل رجسٹرڈ ووٹوں کی تعداد 39 لاکھ 56 ہزار 336 ہے جس میں مردوں کے رجسٹرڈ ووٹ 21 لاکھ 52 ہزار 143 ہیں جبکہ خواتین کے رجسٹرڈ ووٹ 18 لاکھ 41 ہزار 193 ہیں۔
سینئر صحافی محمد فہیم اقلیتی برادری کے مسائل پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ آبادی اور مخصوص نشستوں میں اضافے کے حوالے سے انہوں نے بتایا کہ اقلیتی برادری کی تعداد کم نہیں ہو رہی ہے بلکہ ان کا تناسب کم ہو رہا ہے کیونکہ یہاں مسلمانوں کی تعداد 95 فیصد سے زیادہ ہے اس وجہ سے اقلیتی برادری کے مقابلے میں ان کی آبادی اور تناسب زیادہ بڑھ رہا ہے۔
محمد فہیم سمجھتے ہیں کہ اقلیتی برداری کا بڑا مسئلہ مخصوص نشستوں کی کمی نہیں بلکہ موجود نشستوں کا طریقہ انتخاب ہے۔ 1997 تک اقلیتی برادری ووٹ کے ذریعے اپنے نمائندے قانون ساز اسمبلیوں میں بھیجتی تھی۔ ووٹ کے ذریعے آنے والے نمائندے ان کے سامنے جوابدہ تھے لیکن یہ عمل 2002 میں مشرف نے ختم کیا جس کے بعد یہ اختیار سیاسی جماعتوں کو دیا گیا۔ اب وہ اقلیتی برادری سے من پسند افراد چن کر اسمبلیوں میں لے کر جاتے ہیں جس سے اقلیتی برادری کو اصل نمائندگی نہیں مل رہی۔
انہوں نے کہا کہ جب تک یہ طریقہ کار ہو گا اگر ان کی سیٹس میں اضافہ بھی کیا گیا تو ان کے مسائل حل نہیں ہوں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ پہلے اقلیتی برادری کو ووٹ کے ذریعے اپنے نمائندے منتخب کرنے کا جداگانہ حق دیا جائے اس کے بعد ان کی سیٹس میں اضافہ کیا جائے۔
Comments are closed on this story.