Aaj News

اتوار, دسمبر 22, 2024  
19 Jumada Al-Akhirah 1446  

’ایک وعدہ وفا نہ ہوا پھر ووٹ کس ضمن میں دیں‘، پورے گاؤں نےالیکشن کےبائیکاٹ کا تہیہ کرلیا

گاؤں شفیع محمد جعفری کے لوگ گدلہ پانی پینے سے ہیپاٹائٹس میں مبتلا، عوامی نمائندوں کے گھسے پٹے وعدے
شائع 16 نومبر 2023 05:50pm

ضلع کشمور سندھ اور پنجاب کے سنگم پر واقع ہے۔ یہ تین تحصیلوں، کشمور، کندھ کوٹ، تنگوانی پر مشتمل ہے۔ جن میں ایک میونسپل کمیٹی کندھ کوٹ اور 6 ٹاؤن کمیٹیاں ہیں۔ جن میں غوث پور، کرم پور، بخشاپور، گڈو، کشمور اور تنگوانی شامل ہیں۔

ضلع کشمور میں ویسے تو ہزاروں مسائل ہیں مگر سب سے بڑا مسئلہ بنیادی صحت کی سہولیات کا ہے جو عوام کو میسر نہیں۔

مقامی صحافی علی شیر جعفری سندھی چینل کے ٹی این کے نمائندہ ہیں، وہ کہتے ہیں کہ ہر بار بلدیاتی انتخابات ہوں یا پھر عام انتخابات، عوامی نمائندگان عوام کے پاس جب بھی ووٹ لینے جاتے ہیں تو ایک ہی مسئلہ سنتے ہیں کہ یہاں سرکاری ہسپتالوں کی سہولیات ناپید ہے، صاف پانی کی عدم فراہمی سے لوگ بیمار رہتے ہیں۔

یہاں ایک علاقہ گاؤں شفیع محمد جعفری ہے جس میں 200 سے زائد خواتین بچے اور بڑے ہیپاٹائیٹس کا شکار ہیں۔ بیمار بچوں کی تعداد 27، خواتین 36، اور دیگر افراد 150 تک ہیں جن کا ایک ہی برادری سے تعلق ہے۔ مجموعی بیمار افراد کی تعداد دو سو کے قریب ہے۔

 مقامی صحافی علی شیر جعفری ہیپاٹائٹس میں مبتلا ہیں
مقامی صحافی علی شیر جعفری ہیپاٹائٹس میں مبتلا ہیں

اس گاؤں کے لوگ بیماری سے تڑپ رہے ہیں جس کی وجہ سے آئندہ عام انتخابات میں ووٹ دینے سے صاف انکار کر رہے ہیں۔ کہتے ہیں وعدہ وفا نہ ہوا تو ووٹ کس ضمن میں دیں۔

تحصیل تنگوانی میں واقع یونین کاؤنسل صیفل

اسسٹنٹ الیکشن کمشنر جمیل احمد منگی نے بتایا کہ ریکارڈ کے مطابق یوسی صیفل کے گاؤں شفیع محمد جعفری میں ایک سو سے زائد گھر جبکہ آبادی پانچ ہزار سے زائد ہے، اور ووٹرز کی تعداد دو ہزار تک ہے۔

سول ہسپتال کندھ کوٹ کے ہیپاٹائیٹس پروگرام کے انچارج ذوالفقار اوگاہی نے بتایا کہ مذکورہ گوٹھ شفیع محمد جعفری کے رہائشی صحت کی بنیادی سہولت سے بالکل محروم ہیں ، وہاں کے رہائشی آلودہ پانی پینے سے دو سو سے زائد بچے اور بڑے خواتین ہیپاٹائیٹس سی اور بی کی جان لیوا بیماریوں میں مبتلا ہیں ۔

گزشتہ پانچ سالوں کے دوراں بیس سے زائد افراد ہیپا ٹائیٹس سی کی بیماری میں جان کی بازی ہار گئے ہیں، مرنے والوں کا ریکارڈ کندھ کوٹ سول ہسپتال میں موجود ہے۔

ریکارڈ کے مطابق مرنے والوں میں استاد محمد حسن عمر 45 سال ، صوبھو خان جعفری عمر 25 سال ، فدا حسین عمر 23 سال ، عمران علی عمر 18 سال ، قربان علی عمر 17 سال ، گل حسن عمر 24 سال ، سیانی خاتوں عمر 23 سال ، ساھجاں خاتوں عمر 27 سال ، علی حسن عمر 40 سال ، کلات خان عمر 45 سال ، دیورغ خان عمر 18 سال شامل ہیں۔

 ایک ہی خاندان کے دو بچے ہیپاٹائٹس کا شکار
ایک ہی خاندان کے دو بچے ہیپاٹائٹس کا شکار

اس کے علاوہ سول ہسپتال کے ریکارڈ کے مطابق علی شیر جعفری ، علی بیگ ، نور حسن ، محمد شعبان ، اللہ بخش امام بخش ، بجار علی ، علی محمد ، ثناء اللہ سمیت دو سو سے زائد لوگ ایک ہی خاندان جعفری برادری کے ہیں، جو ہیپا ٹائیٹس سی کی بیماری میں زندگی اور موت کی کشمکش سے گزر رہے ہیں۔

گاؤں شفیع محمد کے رہائشی چالیس سالہ شربت علی جعفری کا کہنا ہے کہ میں کھیتی باڑی کا کام کرتا ہوں۔

اس نے بتایا کہ گاؤں شفیع محمد جعفری کے دو ہزار ووٹرز ہیں جو ایک ہی قبیلے کے ہونے کے ناطے ہر انتخابات میں ووٹ کیا کرتے ہیں، مگر ہماری ایک ہی شرط ہوتی ہے کہ ہمارے گاؤں میں میٹھے پانی کی سہولیات کو فراہم کی جائیں اور ہیپا ٹائیٹس سی کے مریضوں کا علاج کرایا جائے۔

انہوں نے کہا کہ اس سے پہلے عوامی نمائندگان ہر انتخابات میں صحت کے مراکز کو فعال کرنے کا وعدہ کرتے ہیں، جب الیکشن ختم ہوجاتا ہے تو پھر مڑ کر واپس نہیں آتے مگر اس مرتبہ ہم ووٹ دینے سے قاصر ہیں۔

کشمورکے ڈسٹرکٹ تنگوانی حلقہ کی پچھلے انتخابات میں جیتنے والے امیدواراں کی فہرست

2008 کے عام انتخابات میں پاکستان پیپلز پارٹی کی ٹکٹ سے سردار میر محبوب علی خان بجارانی نے پی ایس 16 تنگوانی کی نشست سے جیت حاصل کی تھی مگر انہوں نے بھی مذکورہ گاؤں میں عوام سے وعدے وفا نہیں کئے۔

اس کے بعد 2013 کے عام انتخابات میں تنگوانی تحصیل پی ایس 16 کے امیدوار پاکستان پیپلز پارٹی کے سینئیر رہنما مرحوم میر ہزار خان بجارانی صوبائی اسمبلی کے میمبر بنے تھے جنہوں نے جے یو آئی کے امیدوار میر جھانگیر خان بنگلانی سے مقابلہ کرکے فتح حاصل کی تھی۔

2018 کے عام انتخابات میں اسی حلقے کا نام تبدیل کرکے پی ایس 6 رکھا گیا جہاں پر پاکستان پیپلز پارٹی کی ٹکٹ سے مرحوم میر ہزار خان بجارانی کے فرزند میر شبیر علی خان بجارانی بلا مقابلہ رکن سندھ اسمبلی منتخب ہوئے اور اس کے بعد مسلسل پانچ سال صوبائی وزیر کی حثیت سے کام سر انجام دیتے رہے۔

مقامی افراد کا کہنا ہے کہ ان تمام جیتنے والے امیدواران نے زبانی کلامی وعدے کئےتھے کہ گاؤں شفیع محمد میں بیمار افراد کا علاج صحت کے مراکز قائم کرنا اور صاف پانی کی دستیابی کو یقینی بنانا شامل تھا مگر وہ وعدے وفا نہ ہوسکے، انہی عوامی نمائندگان کا نعرہ روٹی کپڑا اور مکان کا تھا جو ایک بھی وعدہ پایہ تکمیل تک نہیں پہنچا سکے۔

گاؤں شفیع محمد کے رہائشی تیس سالہ نوجوان ظفر علی نے کہا کہ میں نے انٹر تک تعلیم حاصل کی ہے اور اس وقت پرائیویٹ جاب کرتا ہوں مگر ہمارا مسئلہ گاؤں میں گدلہ پانی ہے جو پینے سے ہمارے گاؤں کے سینکڑوں افراد ہیپا ٹائیٹس کا شکار ہورہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ گزشتہ پانچ سالوں کے دوراں بیس سے زائد افراد جاں بحق بھی ہوئے ہیں جبکہ سینکڑوں بیمار ہیں، ایسی صورت حال میں تاحال کوئی میڈیکل ٹیمیں معائنہ کرنے نہیں پہنچی ہیں۔ کئی مرتبہ انتظامیہ کو آگاہ بھی کیا ہے اور عوامی نمائندگان میں پی ایس 6 کے ایم پی اے میر شبیر علی خان بجارانی نے 2018 کے عام انتخابات میں بلا مقابلا کامیاب ہوکر ہمارے گاؤں میں ہیپا ٹائیٹس سی میں مرنے والے لوگوں کی تعزیت کرنے بھی پہنچے تھے۔ وہاں پر انہوں نے یہ وعدہ کیا تھا کہ آپ کے گاؤں میں میٹھے پانی کی فراہمی اور بیمار افراد کا مکمل علاج کرایا جائے گا جو وعدہ وفا نہ ہوسکا ہے اور اس لیے آئندہ عام انتخابات میں ہماری ایک ہی شرط ہوگی کہ میڈیکل کی سہولت اور پانی کی فراہمی تب جاکر ووٹ دیں گے ورنہ ووٹ دینے سے بائیکاٹ کریں گے۔

پینتیس سالہ بجار علی جعفری سوشل ورکر ہیں جنہوں نے کہا کہ ہم نے کئی بار میڈیا پر اپنے گاؤں میں ہیپا ٹائیٹس سی کے کنٹرول کیلئے انتظامیہ کو آگاہ کیا یے مگر ہماری آواز کو کوئی سننے والا ہی نہیں ہے، جائیں تو جائیں کہاں۔ آئندہ عام انتخابات میں جو بھی نمائندہ ووٹ لینے آئے گا، پہلے ہمارے گاؤں کے لوگوں کا علاج کرایا جائے گا جو کہ ہمارا بنیادی حق ہے۔

بجار علی نے مزید کہا کہ اب عوامی نمائندگان کے جھوٹے وعدوں سے تنگ آگئے ہیں، پہلے مسئلہ حل کریں تو ووٹ دیں گے جہاں تک مقامی نمائندگان کے جھوٹے وعدوں کی بات ہے تو اب ہم ان کے وعدوں پر یقین نہیں کریں گے۔

ڈی ایچ او ہیلتھ ڈاکٹر بابو لال نے بتایا کہ ہیپا ٹائیٹس بی اور سی ایک جان لیوا مرض ہے اس سے بچاو کے لیے مریضوں کو فوراً ڈاکٹر سے رجوع کرنا چاہئے، آپ کی نشاندہی پر گاؤں شفیع محمد جعفری میں دو سو سے زائد مریض اگرچہ ہیپا ٹائیٹس سی کا شکار ہیں تو ہم فوراً ہی وہاں اپنی میڈیکل ٹیمیں روانہ کریں گے اور مریضوں کی تشخیص کرکے معلوم کیا جائے گا کہ کتنے پازیٹیو ہیں، ان کے علاج کے لیے تین سے 6 ماہ تک کا کورس ہیپا ٹائیٹس کے پروگرام میں دیا جائے گا اور مریضوں کو ریلیف دیں گے۔

ڈاکٹر بابو لال کا مزید کہنا تھا کہ ہیپاٹائیٹس ایک ایسی بیماری ہے جو بلڈ سے دوسرے شخص میں منتقل ہوتی ہے ، اس مرض کے شکار شخص کے ساتھ میلاپ کرنے سے بھی بیماری ٹرانسفر ہوتی ہے اور اس کے علاوہ کڑوا گدلہ پانی استعمال کرنے سے بھی یہ مرض بڑھتا ہے، مریض کی آنکھیں پیلی ہوجاتی ہیں، تین ماہ تک ان کا مکمل کورس ہوتا ہے، اگرچہ مرض شدت اختیار کرجائے تو پھر اس مریض کو 6 ماہ تک علاج کرنا پڑے گا اس کے بعد مرض پر کنٹرول ہوجاتا ہے۔

ڈپٹی کمشنر امیر فضل گھمرو نے کہا کہ ہیپاٹائیٹس پروگرام کے عملداروں کو طلب کرکے میڈیکل کی ٹیمیں روانہ کروں گا تاکہ مرض میں مبتلا افراد کا علاج ہوسکے، مجھے یہاں چارج سنبھالے ابھی ایک مہینہ ہی ہوا ہے یہاں پر اسپتالوں کی حالت زار دیکھ کر افسوس ہی کیا جاسکتا ہے، کیوںکہ ہیپا ٹائیٹس کی تشخیص سن کر حیران ہوں کہ اس حلقے کے عوامی نمائندگان نے جان لیوا مرض کے خاتمے کے لیے کوئی تدارک نہیں کیا ہے۔

ڈسٹرکٹ الیکشن کمشنر کندھ کوٹ ستار سردار نے کہا کہ کسی بھی حلقے میں ووٹرز کی ناراضگی سے امیدوران کو ووٹ کرنے یا نہ کرنے کی کوئی پابندی نہیں ہوتی ہے۔ اگرچہ گاؤں شفیع محمد جعفری کے مکین ووٹ دینے سے انکار کر رہے ہیں تو یہ ان کا اپنا فیصلہ ہے۔ ای سی پی میں ایسے کوئی قواعد نہیں کہ ووٹرز کو جبراً ووٹ کرنے کا پابند بنایا جائے یہ ان کا حق بنتا ہے کہ اپنے ہی کسی ایسے امیدوار کا انتخاب کریں جو ان کے بنیادی مسائل حل کرے۔

انہوں نے کہا کہ ہمارا کام لوگوں کو آگاہ کرنا ہے تاکہ وہ اپنی حق رائے دہی سے اپنے مسائل کو ختم کرسکیں اس کے علاوہ اس معاملے کے متعلق اور کچھ نہیں کہہ سکتا ہوں۔

اس ساری صورت حال پر متعلقہ حلقے کے نمائندے سابقہ صوبائی وزیر میر شبیر علی خان بجارانی سے رابطہ کیا گی۔

میر شبیر علی خان بجارانی نے فون پر بات کرتے ہوئے کہا کہ یوسی صیفل کی عوام میری عوام ہے مجھے ان کا احساس ہے، گاؤں علی شیر جعفری کے لوگ ہیپاٹائیٹس سی کا شکار ہورہے ہیں مجھے معلوم ہے، میں نے ان سے وعدہ بھی کیا تھا یہ حقیقت ہے، مگر افسوس کہ پانچ سالہ دور میں کووڈ کی وبا کی وجہ سے مذکورہ گاؤں کے مسائل کو حل کرنے میں ناکامی ہوئی ہے، صیفل یوسی میں آلودہ پانی پینے سے یہ جان لیوا مرض بڑھتا ہی چلا گیا ہے۔

انہپوں نے کہا کہ علی شیر جعفری کے رہائشیوں کا غصہ جائز ہے میں مانتا ہوں کیوں کہ کووڈ کی وجہ سے ملک بھر میں عوام کے مسائل سے نپٹنے کے لیے پاکستان پیپلز پارٹی نے دن رات کام کیا ہے جو کہ آج بھی میڈیا کے ریکارڈ پر موجود ہے۔ گاؤں شفیع محمد جعفری کے رہائشی لوگ میرے حلقے کے ہیں، اگر ووٹ دینے سے انکار کر رہے ہیں تو یہ غلط عمل ہے، مگر ووٹ دیں یا نہ دیں انشاء اللہ آئندہ آنے والی حکومت میں سب سے پہلے اس گاؤں میں صاف پانی کو مہیا کرنے کو یقینی بناؤں گا اور ساتھ ہی میں صحت کے بنیادی مراکز قائم کروں گا، بیمار افراد کا علاج ممکن بناوں گا اور یہ میڈیا کے سامنے میں وعدہ کرتا ہوں کہ صحت ، تعلیم ، روزگار اپنے حلقے کے مسائل کو حل کرنا میرا اور میری پارٹی کا اولین فرض ہوگا۔

ایڈوکیٹ عبدالغنی بجارانی جو جی ڈی اے کی ٹکٹ سے 2018 کے عام انتخابات میں این اے 197 حلقے سے پاکستان پیپلز پارٹی کے امیدوار سردار احسان الرحمان مزاری سے مقابلہ کیا تھا، انہوں نے کہا کہ یہاں موروثی سیاست دان عوام کا خون چوس رہے ہیں گزشتہ بیس سالوں سے ضلع کشمور، کندھ کوٹ اور تنگوانی کی عوام گدلہ پانی پینے پر مجبور ہیں، یہ نمائندگان کا حال ہے جو کروڑوں روپے انتخابات میں خرچ کرکے پھر کامیابی حاصل کرتے ہیں الیکشن ختم ہوجائے تو نظر بھی نہیں آتے، اسی طرح پیپلز پارٹی نے ہمیشہ عوام سے جھوٹے وعدوں پر عوام کو ہر بار بے وقوف بنایا ہے، کسی بھی علاقے میں چلے جاؤ وہاں پر لوگوں کے ہزاروں مسائل ملیں گے، گاؤں شفیع محمد جعفری کے لوگ جان لیوا مرض میں مبتلا ہوکر سسک رہے ہیں اس گاؤں میں صاف پانی تک مہیا نہیں کیا گیا، افسوس ہی کیا جاسکتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ مجھے امید ہے عوام میں تبدیلی نظر آرہی ہے، لوگ کسی بھی امیدوار کے انتخاب میں اپنا حق ادا کریں گے میرا تو سب سے پہلے یہی فریضہ ہوگا کہ میں اسمبلی کے ممبر کی رکنیت حاصل کرکے اپنے حلقے اور ضلع بھر کی عوام کو صحت کے مراکز اور صاف پانی کی فراہمی کو یقینی بناؤں گا۔

کندھ کوٹ کےمحکمہ پبلک ہیلتھ کے انجنئیر کیلاش کمار نے آلودہ پانی کے مسئلے کے متعلق بتایا کہ گاؤں شفیع محمد جعفری میں گدلہ پانی ہے، ہم نے کئی بار متعلقہ انتظامیہ کو رپورٹ بنا کر بھیجی ہیں مگر بجٹ نہیں ہے کہ وہاں پر واٹر سپلائے لگایا جائے کیوں کہ 32 کروڑ کی لاگت سے کندھ کوٹ شہر کی سکیم بھی بجٹ کی وجہ سے سست روی کا شکار ہے، تو گاؤں میں کہاں سے واٹر سپلائی لگائی جائیں گی، ہاں اگر کوئی ایم پی اے پرائیارٹیٹی بجٹ ہوتا تو شاید کب کا یہ معاملہ حل ہوجاتا، اب تو نگران سیٹ اپ چل رہا ہے جب تک حکومت میں کوئی نمائندہ نہیں آتا تب تک یہ مسئلہ حل نہیں ہوسکے گا۔