بیرون ملک جائیدادیں خریدنے والوں کیلئے دبئی قدرتی طور پر سب سے بہترین آپشن
رئیل اسٹیٹ فرم ”ہاس اینڈ ہاس“ (haus & haus) کے منیجنگ ڈائریکٹر سائمن بیکر کہتے ہیں کہ متحدہ عرب امارات کے ساتھ قربت اور ”قریبی تعلقات“ سمیت دیگر عوامل کی وجہ سے پاکستانی دبئی میں رئیل اسٹیٹ (جائیداد) خریدنے میں بہت زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں۔
بزنس ریکارڈر کے ساتھ خصوصی انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ، ’متحدہ عرب امارات کے شہریوں کے بعد پاکستانیوں کا شمار سب سے اوپر کی ان چار یا پانچ قومیتوں میں ہوتا ہے جو دبئی کی رئیل اسٹیٹ میں سرمایہ کاری کرنے کے خواہاں ہیں اور اس کا جغرافیہ سے بہت گہرا تعلق ہے، ظاہر ہے کہ (دونوں) سمندر پار ہمسایہ ممالک ہیں‘۔
’اس کے علاوہ، دونوں ممالک کے درمیان کافی قریبی تعلقات اور رشتہ داری ہے۔ اس لیے مجھے لگتا ہے کہ اُن (پاکستانیوں) کے لیے متحدہ عرب امارات آنا اور (یہاں) سرمایہ کاری کرنا فطری بات ہے‘۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ پاکستانی کس قسم کی جائیدادوں کی طرف متوجہ ہیں، تو بیکر نے کہا کہ ترجیحات مختلف ہوتی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ’میں ایمار کی ایک وِلا کمیونٹی میں رہتا ہوں اور میرے بہت سے پڑوسی پاکستانی ہیں۔ یہ ان کی انفرادی ضروریات پر منحصر ہے۔‘
بیکر نے کہا کہ ان کی فرم سرمایہ کاری کے لیے ’لوگوں کی ایسی جائیدادوں کی طرف رہنمائی کرتی ہے جو کرائے سے حاصل ہونے والی آمدنی کے لیے بہترین ہیں۔‘
’ہم ہالی ڈے رینٹلز (چھٹیوں گزارنے کیلئے کرائے پر لیا گیا گھر) بھی دیتے ہیں، جو قلیل مدتی لیز کی طرح ہے۔ ہم جائیدادیں فراہم کرتے ہیں اور ہم انہیں ہفتہ وار اور ماہانہ کرایہ پر دیتے ہیں جو طویل مدتی کرائے پر دینے سے تقریباً 20 سے 25 فیصد زیادہ منافع دیتا ہے‘۔
بیکر کہتے ہیں کہ بہت سارے سرمایہ کار اس طرف آرہے ہیں اور ”ہاس اینڈ ہاس“ ان کے لیے یونٹس کا انتظام کرتے ہیں۔ یہ ایک جان چھڑانے والا عمل ہے اور مالک مکان ’کافی آرام محسوس کرتے ہیں کہ ہم انہیں ہر مہینے کے آخر میں صرف رقم بھیج دی جاتی ہے‘۔
ان کا کہنا تھا کہ ’اگر آپ چاہیں تو یہ کافی آسان سرمایہ کاری ہے، جس میں آپ کو شاید کرائے کی 8 فیصد کبھی کبھار 9 فیصد خالص آمدنی حاصل ہوسکتی ہے جو کہ دنیا میں بہت سی جگہوں کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے۔‘
صحیح ڈویلپرز کا انتخاب اہم ہے
جب پہلی بار سرمایہ کاری کرنے والوں کے لیے مشورہ طلب کیا گیا تو بیکر نے کہا کہ ’ہمیشہ سب سے بڑے ڈویلپرز یا حکومت کے حمایت یافتہ ڈویلپرز کے پاس جائیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’یہاں بہت سے حکومتی حمایت یافتہ ڈویلپرز ہیں، جن کے بارے میں مجھے یقین ہے کہ پاکستان میں بہت سے لوگوں نے سنا ہوگا، جیسے ایمار اور نخیل۔‘
بیکر کے مطابق، ان کے ساتھ کام کرنا سب سے محفوظ آپشن ہے، کیونکہ اس طرح یقینی بناتا ہے کہ کوئی ایسے شخص سے خرید رہا ہے جو (زیر تعمیر ہے) یقینی طور پر پراپرٹی بنائے گا اور ’جس کے پاس ثابت شدہ ٹریک ریکارڈ ہے، جو معیاری چیز بنائے گا۔‘
وہ کہتے ہیں ’رئیل اسٹیٹ کو طویل مدتی نظریہ کے ساتھ خریدا جانا چاہیے۔ یہ ایسی چیز ہونی چاہیے جو 10 یا 20 سال کے لیے ملکیت میں ہو جسے آپ کرائے پر دے سکتے ہیں، جسے آپ کرائے کی اچھی آمدنی پیدا کرنے کے لیے استعمال کر سکتے ہیں۔‘
’اس طرح لوگ کسی بھی پراپرٹی مارکیٹ میں مرکب دولت بناتے ہیں۔‘
دوسرا مشورہ جو انہوں نے دیا کہ وہ یہ کہ کسی ایسے ایجنٹ کے ساتھ معاملات طے کریں جو قابل بھروسہ ہے، جو ناصرف صحیح جائیداد تلاش کرنے میں مدد کرے بلکہ اس کا انتظام بھی کرے اور اسے کرایہ پر لینے میں بھی آپ کی مدد کرے گا۔ کچھ ایجنٹس مالیات کا بندوبست کرنے میں بھی مدد کر سکتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر آف پلان پراپرٹیز (جو ابھی تعمیر ہونا باقی ہے) کو مد نظر رکھیں تو فائدہ یہ ہے کہ آپ جدید ترین ٹیک اور کنسٹرکشن میٹریل کے ساتھ بالکل نئی پراپرٹی خرید سکتے ہیں اور آپ اس رقم کو ممکنہ طور پر دوگنا کر سکتے ہیں جو آپ نے ابتدائی طور پر ’واپس حاصل کرنے کے نقطہ نظر سے خرچ کی‘۔
لیکن منفی پہلو کے تحت خطرہ یہ ہے کہ آپ طویل عرصے تک انتظار کر سکتے ہیں اور ’وہ سرمایہ حاصل نہیں کر سکتے جس کی آپ توقع کر رہے تھے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’میرے خیال میں یہ اُس شخص کی صورتِ حال، اس کی ذاتی مالیات اور توقعات پر منحصر ہے اوراس پر بھی کہ وہ کتنی جلدی جائیداد سے آمدنی حاصل ہونے کی توقع رکھتے ہیں اور اس سے حاصل آمدنی دیکھنا شروع کر دیتے ہیں۔‘
ابتدائی سرمایہ کاری کیلئے کم سے کم بیرئیر
بیکر نے کہا کہ ہاس اینڈ ہاس عام طور پر جن پراپرٹیز کا سودا کرتا ہے ان ڈیلز کی شروعات چار لاکھ سے پانچ لاکھ درہم سے ہوتی ہے جو تقریباً ایک سے ڈیڑھ لاکھ ڈالرز بنتے ہیں۔
سرمایہ کار اس کا تقریباً 10 فیصد ڈاؤن پیمنٹ کے طور پر دے سکتے ہیں اور اور پھر بقیہ رقم کو 10 قسطوں میں تقسیم کردیا جائے گا۔
’ہم بیرون ملک مقیم لوگوں کی مالی مدد کرتے ہیں، یہاں تک کہ غیر رہائشی (جو امارات میں رہائش پذیر نہیں) بھی 50 فیصد اور بعض اوقات 60 فیصد تک رہن حاصل کر سکتے ہیں۔ اور یہ 60 فیصد تک کے ”لون ٹو ویلیو“ پر مبنی ہے۔‘
’تو بالآخر آپ کو یہاں پراپرٹی خریدنے کے لیے 60 سے 70 ہزار ڈالرز کے درمیان رقم درکار ہوگی اور اس سے آپ کو کچھ ایسا مل سکے گا جس سے چھ یا سات فیصد کرایہ حاصل ہوسکے گا‘۔
بیکر کا کہنا ہے کہ ’یہ بیرئیر مارکیٹ میں داخلے کیلئے کافی کم ہے‘۔
2023 میں دبئی کی رئیل اسٹیٹ مارکیٹ کی اب تک کی کارکردگی پر تبصرہ کرتے ہوئے بیکر نے کہا کہ اس نے ’شاید سب کو تھوڑا سا حیران کر دیا ہے، اس نے 2022 میں ہونے والی نمو کو بڑھاوا دیا ہے جو اس سے کہیں زیادہ ہے جس کی کسی نے واقعی توقع نہیں کی ہوگی‘۔
ان کا کہنا تھا کہ اس وقت ڈیمانڈ بہت زیادہ ہے۔
اس کی وضاحت ’بیرونی عوامل کے ساتھ ساتھ مقامی مارکیٹ کے عوامل سے بھی کی جا سکتی ہے جنہوں نے دبئی میں رئیل اسٹیٹ میں زبردست طوفان برپا کیا ہے‘۔
بیکر کے مطابق، ’روس، یوکرین اور یورپ میں جو کچھ بھی ہو رہا ہے اس کی وجہ سے زیادہ سے زیادہ لوگ دبئی جانا چاہتے ہیں، اور اس نے لوگوں کو پہلے سے ہی امارات کا انتخاب کرنے پر مجبور کرنے والی وجوہات میں سے ایک انتہائی پرکشش تجویز بنا دیا ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ مارکیٹ نے وبائی امراض کے بعد ’بوم ٹائم کا لطف اٹھایا‘ اور یہ سلسلہ 2023 تک جاری ہے۔
2024 کو دیکھتے ہوئے بیکر نے کہا کہ ’میرے خیال میں ولا مارکیٹ ہمیشہ سے بہت گرم رہی ہے۔‘
’زیادہ سے زیادہ لوگوں کا خیال ہے کہ وہ ایک باغ والے گھر یا شاید ایک نجی سوئمنگ پول میں رہنا چاہتے ہیں۔‘
’اگر آپ یونٹس کی تعداد کو دیکھ رہے ہیں تو اپارٹمنٹس کی نسبت مارکیٹ میں آنے والے یونٹوں کے لحاظ سے ہمیشہ بہت کم ولاز اور ٹاؤن ہاؤس ڈیویلپمنٹ ہوتی ہے۔ لہٰذا میں اب بھی محسوس کرتا ہوں کہ یہاں ایک بڑی ڈیمانڈ ہے۔‘
Comments are closed on this story.