Aaj News

جمعہ, نومبر 22, 2024  
19 Jumada Al-Awwal 1446  

جی ایچ کیو کی اجازت یا کسی کا انتظار، الیکشن سے پہلے نئی سیاسی جماعت انٹری کیلئے تیار

جماعت ایسا کیا نیا کرے گی جو دوسرے نہیں کرپائے؟
شائع 28 ستمبر 2023 09:22pm
Bitter facts of Faizabad sit-in, the echo of a new political party!| Faisla Aap Ka | Aaj News

پاکستان پیپلز پارٹی کے سابق رہنما اور نئی سیاسی جماعت بنانے کے خواہش مند مصطفیٰ نواز کھوکھر کا کہنا ہے کہ چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے جو سب سے پہلی اچھی چیز کی وہ یہ کہ انہوں نے اپنے ادارے کی غلطی کو تسلیم کیا، انہوں نے تسلیم کیا کہ بھٹو کا جو قتل تھا وہ غلط تھا، سپریم کورٹ کا فیصلہ ٹھیک نہیں تھا۔ ماضی میں ڈکٹیٹرزکی آئین شکنی کو جو سپریم کورٹ تحفظ دیتی آئی، انہوں نے اس کے بارے میں بھی کہا کہ وہ غلط تھا۔

آج نیوز کے پروگرام ”فیصلہ آپ کا“ میں میزبان عاصمہ شیرازی سے گفتگو کرتے ہوئے مصطفیٰ نواز کھوکھر نے کہا کہ تصحیح کا عمل تو شروع ہی اس وقت ہوتا ہے جب آپ اپنی غلطیوں کو تسلیم کرتے ہیں۔

فیض آباد دھرنا کیس کے حوالے سے بات کرتے ہوئے مصطفیٰ نواز کھوکھر نے کہا کہ اس ملک میں سویلین حکومتوں کو غیرمستحکم کرنے کیلئے کیا کچھ نہیں کیا جاتا رہا، آج جس کیس کی سماعت ہوئی اس کا تعلق اسی ایک چیز سے ہے جہاں ایک سویلین حکومت کو غیرمستحکم کرنے کیلئے یہ سارا سلسلہ چلا۔ پھر دھرنا کیس کے فیصلے میں قاضی فائز صاحب کو جو نتائج بھگتنے پڑے وہ بھی ہمارے سامنے ہے۔

انہوں نے کہا کہ فیض آباد دھرنے کے چند سال بعد اسی تنظیم نے ایک بار پھر اسلام آباد پر چڑھائی کی کوشش کی اور اس کو روکنے کے نتیجے میں ہمارے کئی پولیس کے سپاہی اور جوان شہید ہوئے، ’ان کے لوگوں کے ہاتھوں شہید ہوئے اور پرتشدد طریقے سے، اور پھر اس کے بعد ایک تصویر آئی، رات کو ہم نے دیکھی جو ایک دم سے ریلیز کی گئی، جس میں آرمی چیف کھڑے ہوئے تھے ایک جگہ اور ان کے ساتھ کچھ بزنس مین تھے، اور بتایا یہ گیا کہ ایک اور معاہدہ طے پاگیا‘۔

مصطفیٰ نواز کھوکھر نے کہا کہ قاضی صاحب نے اسی فیصلے پر آج کہا کہ اس فیصلے پر عمل کرلیا جاتا تو آگے یہ نہ ہوتا۔

ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ ہمیں کبھی تو یہ طے کرنا پڑے گا کہ یہ ملک چلانا کس طرح ہے، ٹروتھ اینڈ ریکنسلیشن جن ممالک میں استعمال ہوا انہوں نے بہت بڑی قیمت ادا کی، وہاں کشت و خون کے دریا بہہ گئے، ہم کیوں چاہتے ہیں ہم کوئی بڑی قیمت چکا کر اس جگہ پہنچے۔

انہوں نے کہا کہ ممالک جب وجود میں آتے ہیں تو وہ پہلے ہی ذمہ داریاں طے کرلیتے ہیں، ہمارا جب پہلا الیکشن ہوا اس وقت بھارت کی تین اسمبلیاں اپنی مدت پوری کرچکی تھیں، ہم نے اپنے راستے کو درست کرنے کی کوشش کی تو اس کو بھی تسلیم نہیں کیا گیا۔

ان کا کہنا تھا کہ گزشتہ دس سالوں میں ایکسٹینشن والے سلسلے نے ایک ایسی غیر مستحکم ساخت کھڑی کردی ہے کہ ہر دو سال بعد ایک سوال کھڑا ہوجاتا ہے، اس سوال کے نتیجے میں مسائل پیدا ہونے شروع ہوتے ہیں اور پھر ایکسٹینشن ہونے یا نہ ہونے کے نتائج سامنے آتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ یہ بات عام ہے کہ ڈان لیکس صرف اس وجہ سے ہوا کہ راحیل شریف صاحب کو ایکسٹینشن چاہیے تھی، اس لیے وہ غیر مستحکم ماحول پیدا کیا گیا، اس لیے ہمیں یہ سلسلہ ختم کرنا ہے ہمیں قانون کو تبدیل کرنا ہے۔

مفتاح اسماعی اور خود کے جماعتیں چھوڑنے پر بات کرتے ہوئے مصطفیٰ نواز کھوکھر نے کہا کہ ہم اپنی پارٹیوں کو بتاتے رہے تھے کہ اگر ہم نے بیساکھیوں والا راستہ پکڑنا ہے تو عوام کی کیا ضرورت ہے، ہم جو باتیں کرتے تھے انہیں پسند نہیں کیا گیا اسی وجہ سے ہم مس فٹ ٹھہرے، ’کہا گیا کہ جناب آپ اپنا راستہ پکڑیے تو ہم استعفا دے کر باہر آگئے‘۔

انہوں نے کہا کہ مجھے تو وزارت بھی دے رہے تھے، اگر اقتدار میں اتنی ہی دلچسپی ہوتی تو استعفا دیتے ہی نہ۔

انہوں نے بتایا کہ مفتاح اسماعیل نے شوگر کی امپورٹ نہیں ہونے دی، یہی وجہ بنی انہیں پارٹی سے فارغ کرنے کی۔

مصطفیٰ نواز کھوکھر نے کہا کہ ہمیں دیکھنا ہوگا اس ملک کو چلانا کس طرح ہے ، کوئی کریانے کی دکان بھی اس طرح نہیں چل سکتی جہاں دو تین مالک بیٹھے ہوں اور ہر کوئی الگ الگ بات کرے، ہم جب تک بند کمروں کے پیچھے بات کرتے رہیں گے یہی سب چلتا رہے گا۔

پروگرام کے دوران عاصمہ شیرازی نے بتایا کہ اطلاعات ہیں آپ الیکشنز سے پہلے پارٹی لانچ کریں گے اور اس کیلئے سروے بھی کرچکے ہیں۔ جس پر انہوں نے کہا کہ میری تجویز تو یہی ہے کہ الیکشن سے پہلے ہماری جماعت آجائے۔

پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے مسلم لیگ (ن) کے سابق رہنما مفتاح اسماعیل نے کہا کہ فیض آباد دھرنے سے دنیا میں پاکستان کا تمسخر اڑا، دھرنے سے معیشت کو بہت نقصان پہنچا تھا۔ پچاس سال پہلے بنگلہ دیش ہم سے آزاد ہوا تھا آج اس کے ایک عام شہری کی پاکستانی شہری سے آمدن زیادہ ہے، ہندوستانیوں کی آمدن ہم سے زیادہ ہے، ہم دنیا میں پیچھے کیوں جارہے ہیں ہم میں کمی تو نہیں ہے، سیاستدان اس بدحالی سےبری الذمہ نہیں ہوسکتے، سیاستدان اور اداروں سمیت سب کی غلطیاں ہیں۔

ایکسٹینشن والی بات پر گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’رانا ثناء صاحب یہ فرماتے رہے ہیں کہ ہم نے باجوہ صاحب کو ایکسٹینشن دیا اور اس کے بدلے میں باجوہ صاحب نے ہماری مدد کردی، یہ بھی ایک معیوب سی بات ہے‘۔

ان کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی والے اسٹبلشمنٹ کے کردار پر بات کر رہے ہیں لیکن ان کو بھی پتا ہے کہ وہ خود کس طرح حکومت میں آئے تھے۔ ان کو بھی تو پتا ہے کہ آر ٹی ایس بند ہوگیا تھا، ’ان کو بھی تو پتا ہے کہ کس طرح جنرل فیض لوگوں کو فون کرتے تھے ان کو ووٹ دے جاؤ ایم کیو ایم کو ووٹ دے جاؤ وغیرہ وغیرہ‘۔

ان کی نئی جماعت ایسا کیا کر لے گی جو وہ پہلی جماعتوں میں رہتے ہوئے نہیں کر پائے؟َ اس سوال کا جواب دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ایک سال سے ہم ری امیجن پاکستان کی مہم چلارہے ہیں اور چند چیزیں پاکستانیوں سے سیکھی ہیں، ہم نے سیکھا کہ پاکستانی شفافیت چاہتے ہیں، عوام دن رات محنت کرتے ہیں مگر گھر چلانا آسان نہیں، لوگ چاہتے ہیں کہ یہ نظام ٹھیک ہو۔

انہوں نے کہا کہ لوگوں سے جائزٹیکس لیں تو وہ ضرور دیں گے، اگر ایک آدمی 10 لاکھ کما رہا ہے اور آپ اس سے 3 لاکھ ٹیکس لے رہے اور 2 کروڑ کمانے والے سے بھی اتنا ہی ٹیکس لیں تو یہ زیادتی ہے۔

کیا جماعت کی لانچنگ کیلئے شاہد خاقان عباسی کی شمولیت کا انتظار ہے اور کیا وہ جماعت میں شامل ہوں گے؟ اس سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ شاہد خاقان عباسی کا پارٹی میں شمولیت کا فیصلہ تو وہ خود ہی لے سکتے ہیں، انہیں بھی پتا ہے کہ ملک میں ایک نئی جماعت کی ضرورت ہے، وہ جانتے ہیں کہ موجودہ جماعتیں اپنے اپنے مسائل میں الجھی ہوئی ہیں، یہ جماعتیں موجودہ مسائل نہیں سمجھتیں۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ صرف شاہد، مصطفیٰ اور مفتاح کی بات نہیں ہے، اور بھی لوگ ہیں جن کا نام ہم ابھی نہیں لے سکتے۔

کیا جی ایچ کیو کی مرضی کے بغیر جماعت آپائے گی یا مرضی سے ہی آرہی ہے؟ اس سوال کے جواب میں مفتاح اسماعیل نے کہا کہ باجوہ صاحب سے میری دوستی ان کے جنرل بننے سے پہلے بھی تھی، لیکن انہوں نے اس دوستی میں مجھے جیل جانے سے بچایا یا پہلے سے خبر دے کر باہر نہیں بھجوایا۔

Shahid Khaqan Abbasi

Miftah Ismail

Mustafa Nawaz Khokhar

New Political Party