Aaj News

جمعہ, نومبر 22, 2024  
19 Jumada Al-Awwal 1446  

جرگوں کے سامنے مجبور صحافی فرائض ادا کرنے سے قاصر کیوں؟

جنوبی وزیرستان میں صحافی کو بے گھر اور علاقہ بدر کردیا گیا
اپ ڈیٹ 27 ستمبر 2023 06:52pm
جرگے کی جانب سے مسماری کے حکم کے بعد صحافی معراج خالد کے گھر کے باہر جمع بھیڑ
جرگے کی جانب سے مسماری کے حکم کے بعد صحافی معراج خالد کے گھر کے باہر جمع بھیڑ

پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا میں نئے ضم ہونے والے ضلع جنوبی وزیرستان اپر اور لوئر جنوبی وزیرستان میں قبائلی روایات آج بھی مقامی صحافیوں کے لیے خطرہ بنے ہوئے ہیں۔

23 ستمبر 2023 کو مقامی پاکستانی ٹی وی چینل کے لیے کام کرنے والے نوجوان صحافی معراج خالد نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ فیس بک پر پوسٹ کی جس کے الفاظ کچھ یوں تھے ’ایک بار پھر کہہ رہا ہوں کہ اگر کسی نے کوئی غلطی کی ہے تو سزا دینا ریاست کا کام ہے، لیکن جہاں ہم جی رہے ہیں وہاں ریاست کے اندر ریاست ہے، خدارا کسی کا گھر مسمار نہ کریں، اس سے بچے اور خواتین سب سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں انکا کیا قصور ہے‘۔

جیسے ہی یہ پوسٹ کی گئی ایک طوفان اٹھا اور معراج خالد کو گھر سے بے گھر اور علاقہ بدر کرگیا۔

 صحافی معراج خالد
صحافی معراج خالد

اس سوشل میڈیا پوسٹ کے بعد کے حالات کے بارے میں جب ہم نے معراج خالد سے پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ وانا میں وزیر قبیلے کی ذیلی شاخ زلی خیل نے ایک 9 رکنی کمیٹی بنائی ہے جس کا کام علاقے میں زمینی اور دوسرے علاقائی تنازعات پر صلح صفائی کروانا ہے، اس 9 رکنی کمیٹی کے پاس زلی خیل قبیلے کا ایک شخص اپنا مسئلہ لے کر گیا تھا، جس پر اس کمیٹی نے مخالف فریق کا گھر گرانے کا حکم دیا تھا۔

معراج خالد نے بتایا کہ جب میں نے یہ سنا تو بطور صحافی مناسب سمجھا کہ ایک غلط کام ہورہا ہے، کیونکہ ریاست کا کام ہے کسی کو سزا دینا اور فاٹا انضمام کے بعد تو جرگے کا کام نہیں رہا، یہ عام لوگ خود سے کیوں فیصلے کریں۔

جس کے بعد انہوں نے پوسٹ کی جس میں صرف منت زاری کی تھی کہ خدارا کسی کا گھر مسمار نہ کریں۔ کیونکہ اس سے پہلے کئی لوگوں کے گھر مسمار کیے گئے ہیں جن کی مشکلات ہم نے دیکھی تھیں۔

معراج نے مزید بتایا کہ اس پوسٹ کا اتنا سخت ری ایکشن آنے کی توقع نہ تھی، اگلی صبح اطلاع ملی کے جرگہ کے فیصلے پر بات کرنے کے جرم میں 5 لاکھ جرمانہ ادا نہ کرنے پر گھر مسمار کردیا جائے گا۔

معراج خالد کے والد شیر علی سے جب ہم نے پوچھا کہ آپ کو کب اور کیسے پتہ چلا اور گھر کیوں خالی کیا؟ تو اس سوال کے جواب میں شیر علی نے بتایا کہ صبح میں معمول کے کام پر تھا کہ ہمارے علاقے کا ملک آیا اور کہا کہ آپ کے بیٹے نے جرگہ کے فیصلے کے خلاف بات کی ہے اس پر جرمانہ لگایا ہے وہ ادا کریں ورنہ گھر مسمار کیا جائے گا۔

شیر علی کہتے ہیں کہ میں نے جواب دیا کہ جرمانے کی رقم تو ان کے پاس نہیں ہے اگرسوشل میڈیا پوسٹ پر گھر مسمار کرنا ہے تو آپ لوگ طاقتور ہیں کرلیں۔ جس کے بعد مجبوراً گھر خالی کردیا۔

 صحافی معراج خالد کے والد شیر علی
صحافی معراج خالد کے والد شیر علی

شیر علی نے مذید بتایا کہ اگلی صبح پولیس نے گھر کو گھیرے میں لیا اور لشکر سے گھر کو مسمار کرنے سے بچالیا۔

دوسری طرف گھرمسمار کرنے میں ناکامی پر جرگہ نے فیصلہ دیا کہ ان کا سوشل بائیکاٹ ہوگا جب تک ان کا گھر مسمار نہیں کیا جاتا کوئی شخص نہ پانی، نہ رہائش اور نہ کوئی تعلق رکھے گا اگر کوئی خلاف ورزی کرتا ہے تو وہ بھی پانچ لاکھ جرمانہ ادا کرے گا اور ادا نہ کرنے پر گھر مسماری کے لیے تیار رہے۔

شیر علی نے مذید کہا کہ جب بات یہاں تک پہنچی تو مجبوری کے طور پر ہم نے علاقہ چھوڑ دیا اور اب ہم اسلام آباد دوست کے گھر آگئے ہیں۔

اس واقعے کے خلاف ملکی سیاسی، صحافتی اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے آواز بلند کی، لیکن تاحال معراج خالد کا گھر پولیس کے گھیرے میں ہے۔ نہ ہی مقامی جرگہ ممبران کے خلاف کوئی اقدامات اٹھائے گئے ہیں۔

مقامی ملکان نے گذشتہ روز پریس کانفرنس کی جس میں ملک علاؤالدین نے کہا کہ فاٹا انضمام کے بعد نہ یہاں عدالتیں ہیں اور نہ پولیس، انصاف کا نظام مکمل طور پر غیرفعال ہے، ایسے میں لوگوں کو شدید مشکلات ہیں اور ہم اپنے قبائلی رسم و رواج کے مطابق مسائل حل کررہے ہیں۔ ایسے میں ہماری روایات پر کسی کو حق نہیں کہ وہ بات کرے۔

 مقامی ملکان میڈیا ٹاک کر رہے ہیں
مقامی ملکان میڈیا ٹاک کر رہے ہیں

ملک عالم جان نے کھلے عام کہا کہ اگر کوئی ہمارے فیصلوں پر بات کرے گا تو اس کو بھی بے گھر کردیں گے، جرمانہ عائد کریں گے یا علاقہ بدر کریں گے اور معراج خالد کے خاندان کے ساتھ کیا گیا سلوک ان کے لیے مثال ہے۔

قبائلی ضلع جنوبی وزیرستان جو کہ اب دو اضلاع اپر اور لوئر جنوبی وزیرستان میں تقسیم کردیا گیا ہے، اس میں دو رجسٹرڈ پریس کلبز وانا اور محسود ہیں۔

دونوں پریس کلبز کے تیس سے زائد صحافی ملکی و بین الاقوامی اداروں کے ساتھ منسلک ہیں، لیکن یہاں بہت کم کسی مخصوص بنیادی مرکز صحت، سکول، مقامی زمینی تنازعہ، مقامی جرگہ، خواتین کے مسائل، غیرت کے نام پر قتل کی کوریج دیکھنے کو ملتی ہیں۔

اس حوالے سے سنئیر قبائلی صحافی اور روزنامہ گلوبل پوسٹ کے چیف ایڈیٹر انور محسود کا کہنا ہے کہ ’یہ بات درست ہے کہ ہم بعض اوقات بہت اہم مسائل پر خاموشی اختیار کرلیتے ہیں جیسے کہ اگر کئی غیرت کے نام پر قتل کا واقعہ ہوجاتا ہے تو ہم رپورٹ اس لیے نہیں کرپاتے کہ دونوں فریقین کی جانب سے ہمیں خطرہ ہوتا ہے، دونوں قتل پر تو خاموش ہوجاتے ہیں لیکن اگر اسی ایشو کو میڈیا پر لایا جاتا ہے تو ہمیں ذاتی دشمنی مول لینی ہوگی، کیونکہ تب وہ کہتے ہیں کہ یہ آپ نے دنیا کے سامنے ہماری عزت خراب کردی‘۔

 سینیئیر صحافی انور مسعود
سینیئیر صحافی انور مسعود

انور محسود مزید کہتے ہیں کہ یہاں کی رسم و روایات اب بھی مضبوط ہیں۔ ایسے کئی واقعات ہیں کہ جس میں صحافی کو ذاتی طور پر ذہنی جسمانی اور مالی تشدد کا نشانہ بنادیا جاتا ہے۔

انور نے مثال دیتے ہوئے کہا کہ گذشتہ دنوں سوشل میڈیا پر ایک مقامی نوجوان صحافی آتش محسود نے ایک سڑک کی تعمیر میں ناقص مٹیریل کے استعمال کا مبینہ الزام لگایا اور ویڈیو بنائی جس کے بعد اگلے دن ان کو شدید تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور وہ کئی دنوں تک زیرعلاج رہا۔

انہوں نے مزید کہا کہ میں یہ نہیں کہتا کہ صحافی ٹھیک ہوگا لیکن اگر غلط تھا بھی تو اس کا طریقہ یہ تو نہیں کہ آپ کسی کو تشدد کا نشانہ بنائیں۔

انور محسود کا مزید کہنا تھا کہ بنیادی طور پر وزیرستان میں اگر کسی اسکول کے بند ہونے، اسپتال میں ڈاکٹرز کی غیرحاضری، کسی ترقیاتی کام میں کرپشن وغیرہ پر آواز اٹھانے پر اگر حکومت ایکشن لے لیتی ہے تو رواج بن گیا ہے کہ وہ شخص یا ادارہ آپ کے خلاف ہوجاتا ہے کہ یہ آپ نے میرے خلاف لکھا، اب جو نقصان مجھے پہنچے گا اس کے ذمہ دار آپ ہوں گے، ایسے میں حکومتی سطح پر بھی آپ کو تحفظ نہیں ملتا اور پھر جرگوں میں گھسیٹا جاتا ہے۔

اس سوال پر کہ کیا اب بھی جرگہ سسٹم رائج ہے تو انور محسود نے جواب دیا کہ عدالتی نظام مکمل طور پر فعال نہیں اور ہمارے ہاں رواج ہے کہ اگر آپ پر کوئی بھی الزام عائد کرے تو آپ کو اس کے ساتھ جرگہ میں بیٹھنا ہوگا۔ اگر آپ ایسا نہیں کرتے تو آپ کو ہر کوئی غلط قرار دیتا ہے۔

پاکستان کی وفاقی حکومت کی طرف سے 25 مئی 2018 کو فاٹا کے خیبرپختونخوا میں انضمام کے بعد وہاں انگریز دور کے تمام قوانین اور روایات کے خاتمے کا اعلان کیا گیا تھا۔

نئے نظام کے تحت ضم تمام اضلاع میں ان قوانین کا اطلاق ہوگا جو ملک کے دیگر شہروں میں نافذ العمل ہیں۔

 صحافی معراج خالد کے گھر سے پولیس کی گاڑیاں نکل رہی ہیں
صحافی معراج خالد کے گھر سے پولیس کی گاڑیاں نکل رہی ہیں

تاہم قبائلی علاقوں کے خیبر پختونخوا میں انضمام کو پانچ سال سے زائد عرصہ گزرنے کے باوجود آج بھی فاٹا کے اضلاع میں ماورائے آئین و قانون واقعات کا سلسلہ جاری ہے۔

جنوبی وزیرستان میں ماہ ستمبر 2023 میں زمینی تنازعات پر شکئی میں دو قبائل مورچہ زن ہوئے اور لڑائی میں دو افراد جاں بحق اور کئی زخمی ہوئے، ستمبر ہی کے مہینے میں وانا کے علاقے گوارگورہ میں دو قبائل مورچہ زن ہیں اور ایک دوسرے کے خلاف چھوٹے اور بڑے ہتھیاروں کا استعمال کررہے ہیں۔

ایسے حالات میں اگر صحافی حق کی بات کرے تو اسے مقامی جرگہ اور قبائلی روایات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

اس حوالے سے پختون خواہ یونین آف جرنلسٹ کے صدر شمس مہمند کہتے ہیں کہ ہم صحافی روایات کے پاسدار ہیں، لیکن ایسی خوساختہ روایات جوکہ ظلم، تشدد، اور ناانصافی کا سبب اور صحافت پر قدغن کا باعث بنیں وہ کبھی بھی قابل قبول نہیں اور اس حوالے سے حکومت کی جانب سے سخت اقدامات کی ضرورت قانون و آئین کی ضرورت ہیں۔

وانا سے تعلق رکھنے والے صحافی حفیظ وزیر جن کا محل نما گھر مارچ سال 2019 میں قبائلی روایات کے خلاف ورزی کے الزام میں قبائلی لشکر نے مسمار کردیا تھا، کہتے ہیں کہ ہم ایسے حالات میں صرف یہی نیوز دے سکتے ہیں کہ ”دو فریقین میں زمینی تنازعہ، فائرنگ، جاں بحق یا زخمی“ اس کے علاوہ اگر حقیقت پر مبنی رپورٹ میڈیا پر دی تو ہمیں قبائلی روایات میں کسی ایک فریق کے سامنے جواب دہ ہونا پڑے گا۔

حفیظ وزیر اپنے گھر کی مسماری کے بارے میں بتاتے ہیں کہ میں نے کچھ خاندانی زمین فروخت کی تھی جس پر ان کے قبیلے خوجل خیل کی طرف سے شدید ناراضگی کا اظہار کیا گیا، کیونکہ فاٹا انضمام سے قبل ہمارا خوجل خیل قبیلے کی طرف سے ایک معاہدہ ہوا تھا جس کے مطابق کسی دوسرے قبیلے کے افراد کو زمین کی فروخت پر پابندی لگائی گئی۔ تاہم فاٹا کے انضمام کے بعد یہ تمام مقامی معاہدے ختم ہوگئے تھے اور نئے نظام میں کوئی ایسی پابندیاں عائد نہیں تھیں جبکہ اس دوران علاقے میں زمینوں کی خرید و فروخت بھی ہورہی تھی۔

حفیظ وزیر نے مزید بتایا کہ اس وقت معاملے کے حل کے لیے تقریباً ایک سال قبائلی جرگوں کا سلسلہ جاری رہا اور اس دوران جرگوں پر کافی مالی خرچہ بھی آیا۔ ان کی طرف سے ایف آئی آر کے اندراج کے علاوہ عدالت میں ایک درخواست بھی دائر کی گئی۔ جس میں استدعا کی گئی کہ ان کا قبیلہ ان کے مکانات مسمار کرنے جارہا ہے لہٰذا انہیں فوری طور پر تحفظ فراہم کیا جائے، لیکن اس کے باوجود حکومت کی طرف سے کوئی کارروائی نہیں ہوئی اور خاندانی مکانات پر لشکر کشی کی گئی، پہلے انہیں نذرآتش کیا گیا اور پھر مسمار کردیا گیا۔ جس سے ان کا تقریباً دو کروڑ روپے کا نقصان ہوا ہے اور سارا سامان بھی جل کر راکھ ہوگیا۔

 خالی کئے جانے کے بعد معراج خالد کے گھر کا اندرونی منظر
خالی کئے جانے کے بعد معراج خالد کے گھر کا اندرونی منظر

حفیظ وزیر کہتے ہیں کہ تمام قبائلی روایات خراب نہیں لیکن کچھ ایسی روایات ہیں جن کی وجہ سے انصاف کے تقاضے پورے نہیں ہوتے۔ ایسے حالات میں صحافیوں کو بہت سوچ سمجھ کر قدم اٹھانا پڑتا ہے اور اکثر اوقات سیلف سینسرشپ کرکے صحافتی بددیانتی کرنی پڑتی ہے۔

صحافی خان زیب اس حوالے سے کہتے ہیں کہ چونکہ پولیس کا نظام بہتر نہیں، عدالتوں میں مقدمات کی طوالت بھی پریشان کن معاملہ ہے جس کے قبائل عادی نہیں، اس لیے ان معاملات سے نمٹنے کا واحد حل قبائلی روایات کے مطابق معاملات کو مقامی لوگ چلانا بہتر سمجھ رہے ہیں اور اب یہی ہو رہا ہے۔ ایسے میں پھر صحافی بھی انہیں روایات کی پاسداری کریں گے چاہے وہ ٹھیک ہو یا غلط اور ایسے میں صحافت پر قدغن لگ جاتی ہے۔

خان زیب کہتے ہیں کہ انہوں نے لدھا جنوبی وزیرستان میں ایک ترقیاتی منصوبے میں سست روی اور ناقص مٹیریل کے استعمال پر رپورٹ بنائی جس کے بعد مجھے قبائلی روایات میں جرگہ میں بیٹھنا پڑا، میں نے بہت کہا کہ اگر میری رپورٹ پر اعتراض ہے تو عدالتی کارروائی کے مطابق مجھے آپ اس کی سزا دلواسکتے ہیں، لیکن نہیں اور مجھے جرگہ کرنے پڑے اور اس میں لاکھوں کا نقصان کرنا پڑا۔ ایسے حالات میں کوئی کیسے صحافت کا حق ادا کرسکتا کہ جب اس کو قانون کے مطابق تحفظ حاصل نہ ہو۔

قانون دان اسد عزیز محسود نے اس سوال کے جواب میں کہ کیوں پانچ سال بعد بھی پولیس،عدلیہ، مکمل طور پر فعال نہیں اور لوگوں کو انصاف کے حصول میں مشکلات ہیں؟ کہا کہ بنیادی طور پر فاٹا انضمام جلدبازی میں کیا گیا اور بغیر کسی گراؤنڈ ورک کے سب کچھ ایک روز میں کردیا گیا، اب پرانے نظام سے نکلنے میں ٹائم لگے گا۔ ان حالات میں صحافیوں کا کردار بہت اہم ہے کہ وہ ایسے مسائل کو سامنے لائیں۔

 سینئیر ہائی کورٹ وکیل اسد عزیز محسود
سینئیر ہائی کورٹ وکیل اسد عزیز محسود

اسد عزیز کے اس جواب میں جب ان سے پوچھا گیا کہ صحافی تو خود قبائلی روایات کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں، انہوں نے اس پر کہا کہ بلکل ایسے غیرقانونی واقعات روزمرہ کی بنیاد پر ہورہے ہیں، اس میں حکومت کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ صحافیوں کے خلاف ہونے والے واقعات پر فوری ایکشن لیں اور ان کو ہر لحاظ سے تحفظ فراہم کریں اور صحافیوں کو بھی چاہیے کہ وہ پولیس پر اعتماد کریں اور کوئی ایسا واقعہ پیش آتا ہے تو وہ کیسز درج کروائیں کیونکہ اب تک صحافیوں کی جانب سے کوئی ایسا کیس ہمارے سامنے نہیں آیا۔

معراج خالد کے کیس کو بنیاد بناتے ہوئے ڈی پی او جنوبی وزیرستان فرمان اللہ سے صحافیوں کو تحفظ فراہم کرنے کے بارے میں سوال کیا گیا تو انہوں نے جواب دیا کہ ہم بھرپور کوشش کررہے ہیں کہ غیرقانونی اقدامات کی روک تھام کریں جس میں ہم کامیاب بھی ہوئے ہیں اور معراج خالد کا گھر گرانے نہیں دیا گیا۔

جب ان سے پوچھا کہ وہ تو ٹھیک ہے لیکن اب کھلے عام ملکان کہہ رہے ہیں کہ ہم مزید بھی ایسے اعلانات کریں گے اور ان کے اعلانات پر مقامی لوگ مجبوراً عمل بھی کررہے ہیں، جس پر ڈی پی او نے کہا کہ بہت جلد ان مسائل پر قابو پا لیا جائے گا۔

انضمام کے باوجود جرگہ اور قبائلی روایات کی فعالی پر ڈپٹی کمشنر جنوبی وزیرستان لوئر ناصر احمد نے کہا کہ فاٹا انضمام کے بعد کسی غیرقانونی و غیر آئینی کام کی اجازت نہیں اور نہ کسی کو خلاف ورزی پر معاف کیا جائے گا۔

 ڈپٹی کمشنر جنوبی وزیرستان لوئر ناصر احمد
ڈپٹی کمشنر جنوبی وزیرستان لوئر ناصر احمد

انہوں نے مزید کہا کہ صدیوں سے چلے آرہے قبائلی نظام میں تبدیلی میں مشکلات کا سامنا ہوتا ہے لیکن وقت کے ساتھ پھر لوگ تبدیلی کو قبول کرلیتے ہیں۔

Waziristan

Journalist Meraj Khalid

Jirga System