روپے کی قدر میں تیزی سے کمی پاکستان کیلئے بدترین طوفان ہے، بزنس کونسل
پاکستان بزنس کونسل (پی بی سی) نے خبردار کیا ہے کہ امریکی ڈالر کے مقابلے میں روپے کی تیزی سے گرتی ہوئی گراوٹ پاکستان کے لیے ’بدترین طوفان‘ ہے۔
پی بی سی نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس ، جسے پہلے ٹویٹر کے نام سے جانا جاتا تھا ، اس پر جاری بیان میں کہا کہ شرح تبادلہ میں کمی کی وجہ کئی عوامل ہیں۔
اس میں درآمدات میں قبل از وقت نرمی، برآمدات میں کمی، گھروں کی ترسیلات زر کو حوالہ کی طرف موڑنا شامل ہے، جس کے نتیجے میں اسمگلروں اور غیر رسمی / کم انوائس تاجروں کی طرف سے امریکی ڈالر کی مضبوط مانگ کو پورا کیا جاتا ہے۔
پی بی سی نے اپنے نوٹ میں مزید کہا کہ ذخائر پر درآمدی دباؤ (اور اس طرح روپے کی قدر) کافی تیزی سے کم ہوجائے گا کیونکہ بینک اپنی کھلی پوزیشن کو دوبارہ متوازن کریں گے۔
پی بی سی کا کہنا ہے کہ برآمدات عالمی طلب کا حصہ ہیں اور پاکستان کی متبادل ذرائع سے حاصل ہونے والے ممالک کے مقابلے میں قدر پیش کرنے کی صلاحیت ہے۔”ہم جن اہم مارکیٹوں کی خدمت کرتے ہیں ان میں مالیاتی سختی کی وجہ سے عالمی طلب کی بحالی کا امکان نہیں ہے“۔
پی بی سی نے کہا کہ حکومت کی جانب سے برآمد کنندگان کے لیے علاقائی مسابقتی توانائی ٹیرف (آر سی ای ٹی) کو واپس لینے سے قیمت کی تجویز میں مدد نہیں ملے گی، اور امکان ہے کہ صارفین خطرناک ملک سے خریداری کرتے وقت ”ناقابل اعتماد رعایت“ کی اپنی مانگ کو برقرار رکھیں گے۔
ادارے نے شرح تبادلہ کے انتظام کے حوالے سے اسٹیٹ بینک آف پاکستان (ایس بی پی) کی مانیٹری پالیسی کمیٹی (ایم پی سی) کے کردار پر بھی سوال اٹھایا۔ اپنے نوٹ میں سوال اٹھایا کہ تو پھر روپے کی قدر کے انتظام میں اعلی شرح سود پر مبنی ہماری مانیٹری پالیسی کا کیا کردار ہے۔
کونسل نے کہا کہ 9 ٹریلین روپے سے زائد نقد رقم گردش میں ہونے کی وجہ سے کرنسی اور سونے میں قیاس آرائیوں کے لئے کافی لیکویڈیٹی دستیاب ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یہ 9 ٹریلین روپے غیر بینکڈ رقم ہے، اس کے ہولڈرز کے لیے نہ تو بینک ڈپازٹ اکاؤنٹس ہیں اور نہ ہی منی مارکیٹ میں سرمایہ کاری۔
پی بی سی کے مطابق حوالہ کے ذریعے رقوم بھیجنے والے بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو امریکی ڈالر سے 15 روپے سے زائد کی آمدنی ہوتی ہے۔
جب تک اسمگلنگ زیادہ اور پرکشش رہے گی، انٹر بینک اور حوالہ کی شرح میں فرق برقرار رہے گا۔
کونسل نے ایسے مواقع کی بھی نشاندہی کی جن سے مؤثر طریقے سے بات چیت کرنے کی ضرورت ہے۔
انہوں نے کہا کہ بھارتی برآمدی پابندی کے بعد کپاس کی بھرپور فصل اور پاکستانی چاول کی طلب میں اضافے سے تجارت کے توازن کو سالانہ 3 ارب ڈالر تک کا فائدہ ہوسکتا ہے۔
واضح رہے کہ روپے پر ایک بار پھر دباؤ بڑھ گیا ہے اور انٹر بینک میں ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر 305 کی سطح پر منڈلا رہی ہے جبکہ اوپن مارکیٹ میں یہ 330 سے بھی نیچے گر گئی ہے۔
Comments are closed on this story.