ڈھونڈو گے اگر ملکوں ملکوں، ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم
سندھ میں صحافیوں پر حملے اور انہیں ان کے کام کی وجہ سے قتل کرنا کوئی نئی بات نہیں، لیکن سب سے اہم بات یہ ہے کہ صحافیوں کے قتل میں ملوث ملزمان اپنا اثر و رسوخ استعمال کرکے قانونی کارروائی سے بچ جاتے ہیں، وہ مقتول صحافیوں کے ورثا کو جرگوں کے ذریعے صلح کرنے پر مجبور کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں، جس سے مقتول صحافیوں کے اہل خانہ اپنے ساتھ انصاف نہ ہونے پر مختلف بیماریوں میں مبتلا ہوکر انتقال کر جاتے ہیں یا پھر وہ کئی سال تک بیماریوں کا شکار ہوجاتے ہیں۔
ریاستی ادارے صحافیوں کے قاتلوں کو کیفر کردار تک پہنچانے میں مکمل طور پر ناکام نظر آتے ہیں، وہ صحافیوں کو تحفظ فراہم نہیں کر پاتے۔ قانون پر عملدرآمد نہ ہونے اور مقتول صحافیوں کے اہل خانہ کو انصاف فراہم نہ ملنے کی وجہ سے متعدد مقتول صحافیوں کی مائیں اپنے پیارے بیٹوں کی جدائی میں اللہ کو پیاری ہوگئیں، تو کئی ایسی بیویاں بھی ہیں جو اپنے شوہر کے قاتلوں کو کیفر کردار تک پہنچانے کی کوشش میں بیماری کے بستر پر آگئیں۔
گزرتے دنوں کے ساتھ صحافیوں کےاغوا، انہیں دھمکانے اور ان پر حملوں کے واقعے بھی عام ہوتے جا رہے ہیں، کوئی ایسا دن نہیں ہے جس میں صحافیوں پر حملے نہ کئے جاتے ہوں۔
ایسے واقعات میں سے کچھ تو رپورٹ ہوپاتے ہیں، تو کچھ رپورٹ ہی نہیں ہو پاتے۔
سندھ، پنجاب ،بلوچستان اورخیبرپختوا میں صحافی مشکل حالات کے باوجود اپنے علاقوں کی خبروں کو سامنے لانے کے لیے کوشاں ہیں مگر وہ آئے دن خبر دینے کی وجہ سے دشمنوں کے نشانے پر رہتے ہیں، کہیں انہیں تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے، کہیں انہیں ہراساں کیا جاتا ہے، تو بدقسمتی سے کہیں انہیں قتل کردیا جاتا ہے۔
خبروں کی پاداش میں قتل کیے جانے والے صحافیوں میں شمالی سندھ کے شہر کندھ کوٹ کے صحافی شاہد سومرو بھی شامل ہیں۔ 20 اکتوبر سال 2002میں شاہد سومرو کو قتل کیا گیا۔ خلاف خبر لگی تو دشمنوں نے گھر پر حملہ کیا، فائرنگ کرکے شاہد سومرو کو قتل کردیا۔
شاہد سومرو سندھی نجی چینل کے ٹی این اور کاوش اخبار کے رپورٹر تھے، جنہوں نے قلم کی سیاہی سے اپنی تاریخ شہدا کے سرخ اوراق میں شامل کردی، جو ہم سے جسمانی تو جدا ہوگئے مگر دل میں آج بھی زندہ ہیں۔
ایسے نایاب صحافی جو اپنے فرائض کے دوراں قتل ہوگئے اور ہورہے ہیں، مگر قانون پولیس اور انتظامیاں تماشائیوں کا کردار ادا کر رہی ہے ۔
شہید شاہد سومرو کے اہل خانہ انصاف سے محروم رہے، ماں دم توڑ گئی بیوی ذہنی مرض کا شکار ہوگئی۔ مقتول کی والدہ انصاف کی التجائیں کرتے کرتے اللہ کو پیاری ہوگئی۔
بیوی امام زادی جوانی میں ہی اپنے شوہر کی جدائی اور پانچ بچوں کی ذمہ داری سے زندہ رہتے ہوئے عمر سے قبل از وقت بوڑھی ہوگئیں، شوگر اور امراض قلب کی مریض ہوگئیں، ذہنی بیماریوں نے گھیرے میں لے لیا، کہتی ہیں 27 سالا میرے شوہر کو آخر کس جرم کے تحت قتل کیا گیا، کیا وہ صحافی تھے اس لیے انہیں مارا گیا ؟؟؟
شاہد سومرو کے چھوٹے بھائی محمد عزیز سومرو کہتے ہیں کہ 1992 میں والد کے انتقال کے بعد بڑے شاہد سومرو نے گھر سنبھالا، انہوں نے تھوڑے ہی عرصے میں صحافت میں بڑا مقام پایا تھا، بھائی شاہد سومرو کے قتل کے سانحہ کو بھلایا نہیں جاسکتا جس کے باعث ہمارے گھر کی خوشیاں ماتم میں تبدیل ہوگئیں۔
وہ کہتے ہیں شاہد کے خون کا حساب اللہ پر چھوڑ دیا ہے، میری والدہ فتح خاتوں بڑے بیٹے کی جدائی میں آخر کار اللہ کو پیاری ہوگئی۔ قتل کیس کے وقت ہمیں سرداروں، شہر کے معززین صحافیوں نے جرگہ کرنے پر مجبور کیا تھا، ہمارے پاس اللہ کے سوا کوئی اور راستہ نہیں تھا اس لیے ہم مجبور ہوکر جرگے پر آمادہ ہوئے تھے۔
انہوں نے بتایا کہ جرگے میں قتل میں مطلوب سردار شیر محمد بجارانی کے بیٹوں پر قتل ثابت کیا گیا اور امیروں نے ملزم فریقین پر 16 لاکھ جرمانہ رکھا تھا جو مجھے منظور کرنا پڑا، جس وجہ سےقتل کیس راضداری میں شامل ہوگیا۔ میرے بھائی کے قاتل تاحال بھی آزاد گھوم رہے ہیں، قانون نافذ کرنے والے ادارے بھی خاموش ہیں۔ انصاف ہوتا تو شاید شہید کا خون رائیگاں نہیں جاتا۔
شاہد سومرو کے دو بیٹے ہیں جن میں زاہد علی کی عمر 27 سال، دوسرے بیٹے یاسر علی کی عمر 26 سال جب کہ ان کی تین بیٹیاں ہیں، جس میں سے بڑی بیٹی زینت خاتون کی عمر 28 سال، دوسری بیٹی شکیلا کی عمر 24 سال جب کہ سب سے کم عمر بیٹی سائرہ کی عمر 21 سال ہے۔
مقتول کی بیوہ بتاتی ہیں کہ ان کے شوہر بہترین صحافی کے ساتھ اچھے انسان بھی تھے، جوانی میں میرے شوہرکو ظالموں نے قتل کیا جس کے غم اور جدائی میں بیمار رہتی ہوں۔ بچوں کی وجہ سے میں نے دوسری شادی کو اہمیت نہیں دی، میرے دو دیور میرا خیال رکھتے ہیں، میں شوگر کی مریض بن چکی ہوں، ہارٹ اٹیک بھی ہو چکا ہے، جنہوں نے ہمارا گھر اجاڑا خدا کرے ان کے گھر بھی اجڑ جائیں۔
امیر بخش بروہی کے اہل خانہ بھی انصاف سے محروم
شاہد سومرو کے قتل کے تقریبا ایک سال بعد 3 اکتوبر2003 میں شکارپور کی مصروف شاہراہ پر صحافی امیر بخش بروہی کو قتل کیا گیا۔
لوگوں کی آنکھوں کے سامنے قتل ہونے والے امیر بخش بروہی کا مقدمہ نامعلوم افراد کے خلاف درج کیا گیا، کیونکہ سرداروں کے گھر کی حثیت رکھنے والے شہر شکارپور میں کوئی بھی شخص گواہی دینے کے لئے تیار نہیں۔
امیر بخش بروہی گزشتہ تیرہ سال سے صحافت سے وابستہ تھے، کے ٹی این سندھی چینل بطور رپورٹر انہوں نے قبائلی جھگڑوں ، سرداری جرگوں اور کارو کاری جیسی رسوم میں جکڑے ہوئے ضلع شکارپور سے بڑی جرات مندی کے ساتھ رپورٹنگ کی، ان کے اہل خانہ کے مطابق امیر بخش کو رپورٹنگ کرتے بعض بااثر لوگوں کی جانب سے کچھ عرصے سے دھمکیاں مل رہی تھیں۔
امیر بخش بروہی کے انتہائی قریبی رشتے دار صحافی عبدالرزاق بروہی نے بتایا کہ انہیں قتل کرنے کی ایک سے زائد وجوہات تھیں۔
عبدالرزاق بروہی اخبار (کاوش) سے وابستہ ہیں، جس سے مقتول صحافی امیر بخش بروہی وابستہ تھے۔
عبدالرزاق بروہی نے کہا کہ بظاہر ملزم شاہنواز بروہی نے دیگر افراد کے ساتھ مل کر امیر بخش کو اس لیے قتل کیا کیوں کہ ان کی منگنی اسی لڑکی سے طے ہو چکی تھی جس سے ملزم کا بیٹا شادی کرنے کا خواہش مند تھا۔
یعنی امیر بخش بروہی کو قتل کرنے کی ایک وجہ رشتہ داری تھی، تاہم انہوں نے دعویٰ کیا کہ انہیں قتل کرنے کی سیاسی اور سماجی وجوہات بھی تھیں۔
ان کے مطابق شاہنواز بروہی اپنی برادری کے ایک بااثر شخص تھے اور امیر بخش بروہی صحافی ہونے کے ناطے ان سے زیادہ مشہور یا عوامی کام کرنے لگے تھے اور لوگ مسائل کے حل کے لیے شاہنواز کے بجائے امیر بخش کے پاس آنے لگے تھے اور یہ عمل ملزمان کو ناخوشگوار لگا۔
ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ مجھے پورا یقین ہے کہ امیر بخش بروہی کے قتل کی ایک وجہ سیاست بھی تھی کیوں کہ علاقےکے سیاستدان نہیں چاہتے کہ کوئی اچھا صحافی ان کے اعمال کو دنیا کے سامنے لائے۔
انہوں نے بتایا کہ ملزم شاہنواز بروہی نہ صرف بااثر تھے بلکہ وہ خود وکیل بھی تھے اس لیے انہیں پہلے تو گرفتار کرنے اور پھر ان کے خلاف عدالت میں کیس شروع کرنے میں امیر بخش بروہی کے خاندان کو سخت مشکلات درپیش آئیں۔
عبدالرزاق کا کہنا تھا کہ ملزمان نے مقتول صحافی کے بھائیوں اور والد پر چوری کے مقدمات دائر کروانے سمیت پیسوں اور طاقت کے زور پر پولیس کو بھی ان کے خلاف استعمال کیا لیکن کئی سال کی جنگ کے بعد بالآخر انہیں گرفتار کیا گیا اور ان کے خلاف انسداد دہشت گردی کی عدالت میں سماعتیں ہوئیں لیکن پھر انہوں نے سیاسی و سماجی دباؤ ڈال کر مقتول صحافی کے اہل خانہ کو صلح کرنے پر مجبور کیا اور امیر بخش بروہی کے اہل خانہ نے بھی ملزمان سے صلح کی اور یوں صحافیوں کو قتل کرنے والے ملزمان طاقت اور پیسے کے زور پر ایک بار پھر سزا پانے سے بچ گئے۔
عبدالرزاق بروہی کے مطابق مقتول صحافی کے ورثاء نے خوشی سے نہیں بلکہ مجبوری اور دباؤ میں آکر ملزمان سے صلح کیا۔ان کے مطابق امیر بخش بروہی کے ورثاء نے ملزمان سے خون بہا کے عوض نہیں بلکہ سندھ میں جاری پرانی روایات کے تحت صلح کیا۔ ملزمان نے سندھ کی پرانی سماجی روایات کے مطابق خواتین، برادری کے عزت دار افراد اور سیاسی و سماجی رہنماؤں کے ایک قافلے کو امیر بخش بروہی کے اہل خانہ کے پاس مقدس کتاب قرآن پاک کے ساتھ صلح کے لیے بھیجا جس وجہ سے مقتول صحافی کے اہل خانہ کئی سال سے چلی آرہی رسومات کی وجہ سے صلح کرنے پر مجبور ہوئے۔
عبدالرزاق کے مطابق صلح کے لیے رکھی گئی تقریب میں مرکزی ملزم شہباز بروہی کو بھی لایا گیا اور انہوں نے قسم کھائی کہ انہوں نے امیر بخش کو قتل نہیں کیا، وہ بے قصور ہیں۔انہوں نے بتایا کہ شہباز بروہی کی جانب سے قسم کھانے کے بعد ان کے والد نے انہیں معاف کرکے ان سے صلح کی اور بعد ازاں عدالت میں ایک درخواست دائر کی گئی، جس کے بعد ملزمان کے خلاف کیس خارج کردیا گیا۔
سماجی روایات کو استعمال کرکے ملزمان نے مقتول کے اہل خانہ کو بے وقوف بنایا اور ساتھ ہی انہوں نے مطالبہ کیا کہ ایسے واقعات ہونے کے بعد ریاست، حکومت اور عدالتوں کو آگے آکر انصاف کے تقاضے پورے کرنے چاہئیں۔
عبدالرزاق بروہی کا کہنا کہ اگرچہ امیر بخش بروہی کے قتل کیس کے صلح کے لیے ملزمان کی جانب سے کی جانے والی ہوشیاری کو جرگہ نہیں کہا جا سکتا، تاہم دیکھا جائے تو وہ ایک طرح سے جرگہ ہی ہے۔
ان کے مطابق ایسے یا اس طرح کے کسی بھی طریقے کو جس سے ملزمان کو فائدہ پہنچے، اسے غیر قانونی سمجھ کر حکومت، ریاست، عدالت اور پولیس کو کارروائی کرنی چاہیے اور اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ انصاف کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے ورثاء کے ساتھ ساتھ ریاست کا بھی ایک کردار ہوتا ہے۔
سینیئر وکیل کا جرگوں سے متعلق موقف
سپریم کورٹ کے سینیئر وکیل محسن پٹھان کہتے ہیں کہ پاکستان کے عدالتی اور قانونی نظام میں صلح کا آپشن موجود ہے اور کسی بھی معاملے میں صلح کے بعد ریاست یا عدالتوں کو یہ حق نہیں ہونا چاہیے کہ وہ اس طرح کے صلح کو غیر قانونی قرار دے کر اپنی طاقت کا استعمال کرکے ملزمان کو سزائیں دیتے پھریں۔
انہوں نے کہا کہ اسلامی ممالک میں کہیں بھی ایسا نظام موجود نہیں ہے کہ فریقین کے درمیان صلح ہونے کے بعد ریاست یا عدالت اپنے حساب سے ملزمان کو سزائیں دے۔
سینیئر وکیل کا کہنا تھا کہ برصغیر میں جرگے کا نظام انگریز دور کی پیداوار ہے، جسے سابق صدر ایوب خان کے دور حکومت میں ختم کرکے غیر قانونی قرار دیا گیا تھا، تاہم پھر بھی ملک بھر میں کئی دہائیوں تک غیر قانونی طور پر جرگے ہوتے رہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ملک بھر میں کئی سال تک غیر قانونی طور پر ہونے والے جرگے سیاسی و سماجی طور پر طاقتور اور بااثر افراد کی جانب سے کیے جاتے رہے، اس لیے انہیں روکنا پولیس کے بس کی بات نہیں تھی، تاہم 2009 میں ایک بار پھر سپریم کورٹ نے ایسے جرگوں کو غیر قانونی قرار دیا، جس کے بعد اب جرگوں میں واضح کمی ہوئی ہے۔
ایک طرف جہاں جرگوں میں کمی ہوئی ہے، وہیں دوسری جانب سیاسی و سماجی طور پر طاقتور افراد کی جانب سے صلح کرائے جانے کے معاملات میں تیزی دیکھی گئی اور چونکہ پاکستان میں قانونی طور پر صلح کا آپشن موجود رہتا ہے، اس لیے اب وڈیرے یا سردار جرگہ کرنے کے بجائے فریقوں کے درمیان صلح کرواتے ہیں اور متاثرہ فریق پر رقم لینے یا پھر خدا کے نام پر معاف کرنے کے لیے دباؤ ڈالا جاتا ہے۔
انہوں نے جرگے اور صلح میں فرق بتاتے ہوئے وضاحت کی کہ جرگے میں وڈیرے اور سردار ایک طرح سے کورٹ کی طرح کارروائی کرنے کے بعد فیصلہ سناتے تھے جب کہ صلح میں وڈیرے اور دوسرے لوگ متاثرہ فریق سے درخواست کرنے سمیت ان پر صلح کے لیے دباؤ ڈالتے ہیں اور یہ طریقہ غیر قانونی نہیں ہے۔
انہوں نے واضح کیا کہ پاکستان میں قتل جیسے معاملات پر بھی قانونی و مذہبی طور پر صلح کی گنجائش موجود ہے اور اس طریقہ کار کو غیر قانونی قرار نہیں دیا جا سکتا۔تاہم مقتول صحافیوں کے اہل خانہ شکایت کرتے تو نظر آتے ہیں کہ اگر وہ اپنے پیاروں کی خون بہا نہیں لیتے تو انہیں سیاسی و سماجی طور پر دباؤ ڈال کر صلح پر مجبور کیا جاتا ہے اور وہ مطالبہ کرتے ہیں کہ ایسے صلح پر حکومت اور ریاست سخت لائحہ عمل تیار کرے۔
دو دہائیوں میں صرف پانچ صحافیوں کے ملزمان کو سزائیں
ملک میں صحافیوں کے قاتلوں کو سزائیں نہ ملنے کا مسئلہ دیرینہ ہے اور اگر تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو گزشتہ دو دہائیوں میں صرف پانچ ایسے کیسز ہیں جن میں صحافیوں کو قتل کرنے والے ملزمان کو سزائیں دی جا چکی ہیں۔
صحافیوں کے تحفظ کے لیے کام کرنے والے ادارے پاکستان پریس فائونڈیشن (پی پی ایف) کے مطابق 18 سالوں میں ابتک قتل کیے جانے والے 5 صحافیوں کے قاتلوں کو سزائیں ہوئیں ۔
ان صحافیوں میں ڈینیئل پرل ، نثار احمد سولنگی ، عبدالرزاق جاڑا ، ولی خان بابر اور ایوب خان خٹک شامل ہیں۔ جن کے قتل کے مقدمات میں عدالتوں نے ملزمان کو سزائیں سنائیں ، تاہم ان کیسز میں بھی جن مجرمان کو پھانسی کی سزائیں ہوئیں ان پر تاحال عمل نہیں ہوسکا ہے ۔
رپورٹ کے مطابق امریکی اخبار وال اسٹریٹ جرنل کے رپورٹر ڈینیئل پرل کو صوبہ سندھ کے دارلحکومت کراچی میں 22 فروری 2002 کو اغوا کے بعد قتل کیا گیا تھا۔ عدالت نے جولائی 2002 سال کو سماعت کے دوران مرکزی ملزم عمر سعید شیخ کو سزائے موت جبکہ تین ملزمان کو عمر قید سمیت جرمانے کی سزائیں سنائیں تھی ، تاہم تمام ملزمان نے سندھ ہائی کورٹ میں فیصلے پر نظر ثانی کی درخواست دائر کی تھی ، جس پر تاحال سماعت نہیں ہوسکی ۔
پی پی ایف کی رپورٹ میں دوسرے نمبر پر سندھی اخبار روزنامہ خبروں کے رپورٹر نثار احمد سولنگی کو 2007 میں سندھ کے شہر خیرپور میں قتل کیا گیا تھا ۔ قتل میں مطلوب جونیجو برادران سے مقتول صحافی کے ورثاء نے جرگہ کرکے ملزمان سے خون بہا کی رقم لے کر صلح کرلی تھی مگر سیشن کورٹ خیرپور نے واقعے کا نوٹس لے کر 2012 میں مرکزی ملزمان کو 25 سال قید کی سزا سنائی جب کہ دیگر ملزمان کو بری کردیا ۔
تیسرے نمبر پر نجی ٹی وی رائل نیوز کے رپورٹر عبدالرزاق جاڑا کو 2008 میں قتل کیا گیا تھا اور میانوالی کی سیشن کورٹ نے 2009 میں مرکزی ملزم منیر حسین کو سزائے موت اور ایک ملزم کو بری کیے جانے کے فیصلے کو مقتول صحافی کے اہل خانہ نے 2013 میں لاہور ہائی کورٹ میں چیلینج کیا تو عدالت نے سزائے موت کے ملزم کی سزا عمر قید میں بدل کر دوسرے ملزم کو بری کردیا ۔
چوتھے نمبر پر ہائی پروفائیل کیس نجی ٹی وی جیو نیوز کے رپورٹر ولی خان بابر کو 2011 میں قتل کیا گیا تھا اور عدالت نے مارچ 2014 میں دو مرکزی ملزمان کو سزائے موت جب کہ دیگر 4ملزمان کو عمر قید کی سزا سنائی ، تاہم بعد ازاں تمام ملزمان نے فیصلے کے خلاف سندھ ہائی کورٹ میں درخواست دائر کردی ، جس پر تاحال سماعت نہیں ہوسکی ۔
پانچویں نمبر پر خیبر پختونخواہ میں 2013 میں صحافی ایوب خان خٹک کو قتل کردیا گیا اس کیس پر عدالت نے 2016 کو قتل میں مطلوب دو ملزمان کو عمر قید اور جرمانے کی سزا سنائی تھی ۔
Comments are closed on this story.