چرچ کے اندر کابینہ اجلاس، جڑانوالہ واقعہ کیلئے 20 لاکھ روپے فی گھر امداد کی منظوری
نگران وزیراعلیٰ پنجاب محسن نقوی نے چرچ کے اندر کابینہ اجلاس منعقد کرلیا۔ جس میں جڑانوالہ واقعہ کیلئے 20 لاکھ روپے فی گھر امداد کی منظوری دی گئی۔ محسن نقوی کہتے ہیں سارے چرچ بحال کئے جائیں گے۔ سابق ممبر اقلیتی کمیشن آف پاکستان البرٹ ڈیورڈ نے کہا ہے کہ ریاست کو مسیحی برادری کو تحفط دینا ہوگا۔
چرچ کے اندر منعقد کیے گئے کابینہ اجلاس میں میں تمام وزرا اور متعلقہ حکام نے شرکت کی۔
چیف سیکرٹری نے کابینہ کا یک نکاتی ایجنڈا پیش کیا۔
نگراں کابینہ نے متفقہ طور پر جڑانوالہ واقعہ کیلئے بیس لاکھ روپے فی گھر امداد کی منظوری دے دی۔
مزید پڑھیں
جڑانوالہ واقعہ: حملے کے وقت مقامی افراد نے کیا دیکھا؟
نگراں وزیراعلیٰ نے کہا کہ واقعہ میں نذرآتش ہونے والے ہر گھر کے مالک کو بیس لاکھ فوری طور پر ملے گا، امدادی رقوم کے چیک جلد مالکان تک پہنچ جائیں گے۔
محسن نقوی نے کہا کہ سارے گرجا گھروں کی عیسائی برادری کی مرضی کے مطابق تعمیر و بحالی کی جائے گی۔
انہوں نے بتایا کہ دو چرچ سو فیصد بحال کر دیئے گئے ہیں، تمام متاثرہ لوگوں کو انصاف دلانے کا وعدہ پورا کریں گے۔
وزیر اعلیٰ کا مسجد کا دورہ
نگراں وزیراعلیٰ پنجاب نے جڑانوالہ میں جامع مسجد صابری کا دورہ کیا۔ انھوں نے تمام مکاتب فکر کے علما کرام اور دیگر مذاہب کی شخصیات سے ملاقات کی اور قیام امن کیلئے ممبران کی کاوشوں کو سراہا۔
اس موقع پر محسن نقوی نے کہا کہ سانحہ جڑانوالہ کے ذمہ داروں کو سخت سزا ملے گی، واقعہ سے قائد اعظم کے پرامن پاکستان کا امیج خراب ہوا۔
انھوں نے کہا کہ اسلام نے اقلیتوں کے ساتھ حسن سلوک کا درس دیا ہے، سب نے مل کر مسیحی برادری کے دکھوں کا مداوا کرنا ہے۔
سابق ممبر اقلیتی کمیشن آف پاکستان
اسلام آباد میں اقلیتی رہنماؤں کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے سابق ممبر اقلیتی کمیشن آف پاکستان البرٹ ڈیورڈ نے کہا ہے کہ جڑوانوالہ واقعہ کے بعد مسیحی پورے ملک میں غیر یقینی کا شکار ہیں، ریاست کو مسیحی برادری کو تحفط دینا ہوگا۔
انھوں نے جڑانوالہ واقعہ کی بھرپور مذمت کرتے ہوئے کہا کہ مقدس کتابوں سے ابھی بھی دھواں نکل رہا ہے، لوگوں کا جلا ہوا سامان ابھی بھی سڑکوں پر پڑا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہماری آنکھیں نم ہیں، گھروں کو تباہ کرنے کے ساتھ لوٹا گیا اورجلایا بھی گیا، اس حوالے سے قانون نافذ کرنے والے اداروں کا رسپانس قابل افسوس ہے، ایس ایچ او دو گھنٹے کی تاخیر سے پہنچا۔
انھوں نے مزید کہا کہ اگر پولیس بروقت کارروائی کرتی تو اتنی آگ نہ پھیلتی، صبح مقدس مقامات کو جلایا گیا، شام کو آگ بجھانے کی گاڑیاں پہنچیں۔
البرٹ ڈیورڈ کا کہنا تھا کہ سوشل میڈیا کے ذریعے لوگوں کو اشتعال دلایا گیا، انٹرنیٹ اور موبائل سروس کو بند کردیا جاتا تو اتنا نقصان نہ ہوتا، ضلعی انتظامیہ نے مدد نہیں کی۔
سابق ممبر اقلیتی کمیشن آف پاکستان نے مزید کہا کہ جوڈیشنل کمیشن ایک ماہ میں انکوائری کرکے ملزمان کو سامنے لائے، علما اور مذمبی رہنما ایسے واقعات کا قانون سازی سمیت حل تلاش کریں، پاکستانی شہریوں، علما، سول سوسائٹی کا ساتھ دینے پر شکر گزار ہیں۔
Comments are closed on this story.