عملے نے حکم عدولی کی، صدر علوی نے آفیشل سیکریٹ ایکٹ اور آرمی ترمیمی بل پر دستخط کی تردید کردی
**صدر مملکت عارف علوی نے آفیشل سیکریٹ ترمیمی بل اور پاکستان آرمی ترمیمی بل پر دستخط کرنے کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ میں تو ان قوانین سے اختلاف کرتا ہوں، میں عملے کو بل واپس بھیجنے کا کہنا تھا لیکن اس نے حکم عدولی کی۔ دوسری جانب آفیشل سیکریٹ ترمیمی بل اور پاکستان آرمی ترمیمی بل کے قانون بننے کا گزٹ نوٹیفکیشن جاری کردیا گیا ہے۔ **
صدر مملکت عارف علوی نے آفیشل سیکرٹ ایکٹ اور آرمی ترمیمی بل پر دستخط کرنے کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ میں نے آفیشل سیکریٹ ترمیمی بل اور پاکستان آرمی ترمیمی بل پر دستخط نہیں کیے۔
صدر مملکت کا کہنا ہے کہ میں تو ان قوانین سے اختلاف کرتا ہوں، اور میں نے اپنے اسٹاف سے یہ بل واپس بھیجنے کا کہا تھا، اور کہا تھا کہ وہ بغیر دستخط شدہ بلوں کو مقررہ وقت کے اندر واپس کر دیں تاکہ انہیں غیر موثر بنایا جا سکے، لیکن عملے نے میری خواہش سے انحراف اور حکم عدولی کی۔
صدر مملکت نے بتایا کہ انہوں نے اپنے عملے سے کئی بار تصدیق کی کہ آیا وہ بل واپس جا چکے ہیں، تو مجھے یقین دلایا گیا کہ وہ جا چکے ہیں، تاہم مجھے آج پتہ چلا کہ میرا عملہ میری مرضی اور حکم کے خلاف گیا۔
عارف علوی کا کہنا تھا کہ اللہ سب جانتا ہے، وہ معاف کر دے گا، لیکن جو لوگ متاثر ہوں گے میں ان سے معافی مانگتا ہوں۔
مزید پڑھیں: تحریک انصاف کے رہنما اسد عمر بھی گرفتار
بل کے قانون بننے کا گزٹ نوٹیفکیشن جاری
صدر مملکت عارف علوی کی جانب سے دستخط کیے جانے کی تردید کے باوجود آفیشل سیکریٹ ایکٹ اور آرمی ایکٹ ترمیمی بل قانون بن گئے۔
دونوں بلوں کے قانون بننےکا گزٹ نوٹیفکیشن جاری کردیا گیا ہے جس پر 18 اگست 2023 کی تاریخ درج ہے۔
آفیشل سیکرٹ ایکٹ پر صدر کے دستخط
ہفتہ 19 اگست کو خبرسامنے آئی تھی کہ صدرمملکت ڈاکٹرعارف علوی نےآفیشل سیکرٹ اورآرمی ایکٹ ترمیمی بلوں پر دستخط کردیے جس کے بعد دونوں قوانین اپنی ترمیم شدہ حالت میں نافذ ہوگئے ہیں۔
مدت ختم کرنے والی قومی اسمبلی نے جانے سے قبل آفیشل سیکریٹ ایکٹ کی منظوری دی تھی، اس ایکٹ سمیت قومی اسمبلی سے 9 بل منظور کیے گئے تھے۔
قومی اسمبلی میں بل پیش کرتے ہوئے بتایا گیا تھا کہ آفیشل سیکرٹ ایکٹ 1923 میں ترمیم ناگزیر ہے، یہ بل سرکاری دستاویزات کے تحفظ اور سکیورٹی کو یقینی بنانے کے لیے بدلتے ہوئے سماجی منظر نامے کے تناظر میں یہ اس عمل کو مزید مؤثر بناتا ہے۔
سینیٹ میں آفیشل سیکرٹ ایکٹ ترمیمی بل پیش کیے جانے پرحکومتی ارکان کے علاقہ اپوزیشن نے بھی شدید برہمی کا اظہارکیا تھا۔ پیپلزپارٹی سے تعلق رکھنے والے سینیٹررضا ربانی نے بل کی کاپیاں تک پھاڑ دی تھیں۔
مزید پڑھیں: نئی مردم شماری کا نوٹیفکیشن، انتخابات مارچ تک جاسکتے ہیں، قانونی ماہر
اس بل پر جماعت اسلامی، پی ٹی آئی، ایم کیو ایم پاکستان، نیشنل پارٹی سمیت دیگر کےاحتجاج پر چیئرمین سینیٹ نے بل قائمہ کمیٹی کے سپرد کیا تھا۔
اس کے بعد آفیشل سیکریٹ ترمیمی بل اورآرمی ایکٹ سے کچھ متنازع شقیں نکال کر دوبارہ پیش کیا گیا جہاں سینیٹ سے منظوری کے بعد سمری دستخط کیلئے صدر کو ارسال کی گئی تھی۔
مزید پڑھیں: ’تنقید کی پرواہ نہیں‘، خصوصی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کیخلاف فل کورٹ کی درخواست مسترد
آفیشل سیکرٹ ایکٹ (ترمیمی) بل کیا ہے؟
بل میں حساس اداروں، مخبروں اور ذرائع کی شناخت ظاہر کرنے پر تین سال قید اور دس لاکھ روپے جرمانے کی سزا تجویز کی گئی ہے۔
سیکشن 6 اے (غیر مجاز طور پر شناخت ظاہر کرنا) میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کے امن و امان، تحفظ، مفاد اور دفاع کے خلاف انٹیلی جنس اداروں کے اہلکاروں، مخبروں یا ذرائع کی شناخت ظاہر کرنا جرم تصور ہوگا۔
کون ملک کا دشمن تصور کیا جائے گا؟
سیکشن 8 اے میں ”دشمن“ کی تعریف بیان کرتے ہوئے لکھا گیا ہے کہ ’کوئی بھی وہ شخص جو بلواسطہ یا بلا واسطہ، جانے یا انجانے میں بیرونی قوت، ایجنٹ، نان اسٹیٹ ایکٹر، ادارے، ایسوسی ایشن یا گروپ جس کا مقصد پاکستان کے مفاد اور تحفظ کو نقصان پہنچانا ہو، اس کے ساتھ کام کرتا ہو‘۔
سیکشن 9 کے مطابق جرم پر اُکسانے، سازش یا معاونت کرنے والوں کو جرم میں شریک سمجھ کر وہی سزا دی جائے گی۔
متنازع قرار دی گئی شق
تاہم آفیشل سیکرٹ ایکٹ ترمیمی بل کی ایک شق کو مبصرین نے زیادہ متنازع قرار دیا تھا۔
سرچ وارنٹ سے متعلق شق میں کہا گیا کہ انٹیلی جنس ادارے کسی جرم یا جرم کے شبے میں ’ضرورت پڑنے پر بغیر وارنٹ طاقت کے زور پر کسی بھی وقت کسی شخص یا جگہ کی تلاشی لے سکتے ہیں۔‘
ایف آئی اے کے اختیارات
ترمیمی بل میں یہ بھی کہا گیا کہ تحقیقات کے لیے وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے گریڈ 17 یا اوپر کے افسر کو ڈی جی ایف آئی اے کی جانب سے نامزد کیا جائے گا۔
ڈی جے ایف آئی اے کے پاس یہ اختیار ہوگا کہ وہ آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی خلاف ورزی پر ایف آئی اے اور حساس اداروں کے افسروں پر مشتمل جے آئی ٹی بنا سکتے ہیں، مگر ایف آئی اے کو 30 روز میں تحقیقات مکمل کرنا ہوں گی۔
شواہد اور سامان کی ضبطگی
انٹیلی جنس ادارے (آئی بی اور آئی ایس آئی) شک کی بنیاد پر کسی بھی قسم کے دستاویزات، نقشے، ماڈل، آرٹیکل، نوٹ، ہتھیار یا الیکٹرانک آلات ضبط کرنے اور ملزم کو گرفتار کرنے کے مجاز ہوں گے۔
ایسی الیکٹرانک ڈیوائسز، ڈیٹا، معلومات، دستاویزات یا دیگر مواد جو تحقیقات کے دوران حاصل کیے گئے اور ان سے جرم کے ارتکاب میں سہولت کاری کی گئی، انہیں بطور شواہد پیش کیا جاسکے گا۔
حساس علاقوں تک رسائی
سیکشن 3 کا نام ”جاسوسی کی سزا“ سے بدل کر ”جرائم“ رکھا جا رہا ہے۔
موجودہ جرائم میں معمولی ترامیم کے ساتھ اس نے ممنوعہ علاقوں کی ڈرون کیمروں کے ذریعے تصویر کشی کو بھی جرم کی فہرست میں شامل کردیا ہے۔
آفیشل سیکرٹ ایکٹ میں درج ہے کہ ممنوع علاقوں کی جانب پیشرفت، داخلہ یا حملے کی منصوبہ بندی کرنا جرم تصور ہوگا، اور ”ان مینڈ وہیکل“ یا ڈرون کی مدد سے ممنوع علاقوں کا جائزہ لینے پر پابندی ہوگی۔
اس کے تحت افواج کی صلاحیت سے جڑی کسی سرگرمی، دستاویزات، ایجاد یا ہتھیار وغیرہ تک غیر مجاز رسائی غیر قانونی ہوگی۔
ترمیم کے طور پر ان علاقوں کو بھی شامل کیا گیا ہے جو عارضی طور پر جنگی آزمائش، تربیت، ریسرچ، دستوں کی نقل و حرکت یا ان کیمرا اجلاس کے لیے مسلح افواج کے زیرِ کنٹرول ہیں۔
آفیشل سیکرٹ ایکٹ (ترمیمی) بل 2023 فی الحال یہ جرم صرف جنگ کے دوران اس طرح کی نقل و حرکت تک محدود ہے، تاہم مجوزہ بل میں امن کے دنوں میں بھی یہ لاگو ہو سکے گا۔
Comments are closed on this story.