Aaj News

اتوار, دسمبر 22, 2024  
20 Jumada Al-Akhirah 1446  

سوشل میڈیا کا صحافیوں کے تحفظ میں کردار

'انتہائی عجیب سا لگتا ہے کہ سوشل میڈیا کی وجہ سے صحافی تحفظ محسوس کرنے لگے، لیکن یہ ایک حقیقت ہے'
اپ ڈیٹ 09 اگست 2023 08:57pm
علامتی تصویر
علامتی تصویر

گذشتہ دہائی میں جو چیز دنیا بھر میں لوگوں کی ذاتی زندگیوں، معاشرتی رویوں، حکومتی پالیسیوں اور سیاست پر سب سے زیادہ اثرانداز ہوئی ہے وہ ہے سوشل میڈیا۔

سال 2010 سے پہلے تک پاکستان کی سیاسی جماعتیں، سماجی تنظیمیں یا تحریکیں سب سوشل میڈیا کے بجائے روایتی ذرائع ابلاغ کے ذریعے ہی اپنے پیغامات کا پرچار کرتی تھیں، لیکن گذشتہ ایک دہائی میں سب کچھ بدل گیا۔

پاکستان کی سیاسی جماعتوں جن میں پاکستان تحریک انصاف سرفہرست ہے، نے سوشل میڈیا کو اپنے مقاصد کے لیے بھرپور استعمال کیا۔ وہیں ایسی دیگر سماجی تحریکوں نے بھی سوشل میڈیا کا سہارا لیا جنہیں پرنٹ و الیکٹرونک میڈیا پر کوریج نہیں ملتی تھی۔

صرف یہ ہی نہیں بلکہ خیبرپختونخوا کے قبائلی اضلاع بالخصوص جنوبی وزیرستان میں سوشل میڈیا پلیٹ فارمز صحافیوں کی حفاظت کا بھی ایک ذریعہ بن چکا ہے۔

جنوبی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے صحافی سکندر حیات کا کہنا ہے کہ یہ جملہ انتہائی عجیب سا لگتا ہے ’سوشل میڈیا کی وجہ سے صحافی ایک حد تک تحفظ محسوس کرنے لگے‘، لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ وزیرستان میں اکثر مسائل کو ہمارے مین اسٹریم میڈیا پر یا تو جگہ نہیں دی جاتی یا پھر ان کے خبر چلانے پر پابندی لگائی جاتی ہے۔ ایسے میں مقامی صحافی سوشل میڈیا پر عوام کی آواز بلند کرتے ہیں۔

قبائلی اضلاع بالخصوص جنوبی وشمالی وزیرستان دو دہائیوں سے دہشتگردی کا شکار رہے ہیں۔ یہاں کئی چھوٹے اور بڑے فوجی آپریشن ہوئے جن میں آپریشن راہ نجات اور آپریشن ضرب عضب شامل ہیں۔ دہشتگردی کے خلاف اس جنگ میں حکومتی اعداد وشمار کے مطابق 15 لاکھ سے زائد افراد متاثر ہوئے۔

جنوبی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے صحافی سکندر حیات (تصویر بزریعہ مصنف)
جنوبی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے صحافی سکندر حیات (تصویر بزریعہ مصنف)

سکندر کہتے ہیں کہ جنگ سے متاثرہ لوگوں کوبہت سارے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور بطور صحافی اگر ہم ان کی آواز میڈیا پر نہیں لاتے تو ان کی طرف سے ہمیں کافی غصے کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ رپورٹر کا کام خبر رپورٹ کرنا ہوتا ہے۔ ٹی وی پر چلانا نہ چلانا ہمارے بس میں نہیں لیکن یہ چیز عام لوگوں کو سمجھانا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہے۔ جس کی وجہ سے اکثر ہمیں احتجاج، جلوس، وغیرہ میں لوگوں کی جانب سے برا بھلا سننے کو ملتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ سوشل میڈیا خاص کر سماجی ویب سائٹس کی وجہ سے اب اکثر صحافیوں نے پیجز بنائے ہیں اور اگر کوئی اسٹوری مین اسٹریم میڈیا پر نہیں چل پاتی تو اسے ہم اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر چلا دیتے ہیں اور پھر کم ازکم ہم لوگوں کو بتا دیتے ہیں کہ ’جو ہمارے بس میں ہے وہ ہم نہیں کردیا باقی ہمارے میڈیا اداروں کی پالیسی کے مطابق خبر نہیں چلی‘ تو تھوڑا بہت عوامی غصے میں کمی دیکھنے کو مل جاتی ہے۔

وائس آف امریکہ ریڈیو کے نمائندہ عدنان بیٹنی کا اس بارے میں کہنا ہے کہ پشتون تحفظ موومنٹ بننے سے پہلے یہ چند نوجوانوں پر مشتمل ایک مقامی سطح کی تحریک تھی اور اس وقت وہ اپنے مطالبات کے لیے احتجاج کرتے تھے، لیکن مین اسٹریم میڈیا پر کوریج نہیں دی جاتی تھی۔ ان نوجوانوں نے سوشل میڈیا کا بھرپور استعمال کیا اور پھر اس تحریک کو جان ملی، اس کے علاوہ سوشل میڈیا پر جنوبی وزیرستان میں گھوسٹ اسکولز اور ٹیچرز کے خلاف نوجوانوں نے اواز بلند کی تو حکومت کی جانب سے سو سے زائد ٹیچرز اور پچاس سے زائد گھوسٹ اسکولز کے خلاف کاروائی کی گئی۔ جبکہ اس کے مقابلے میں مین سے اسٹریم میڈیا پر ایسی خبریں یا صرف ٹکرز، یا پھر ایک منٹ کی رپورٹ تک محدود رہی وہ بھی ایک دو چینلز کے علاوہ کسی نے کوریج نہیں دی۔

وائس آف امریکہ ریڈیو کے نمائندہ عدنان بیٹنی، تصویر بزریعہ مصنف
وائس آف امریکہ ریڈیو کے نمائندہ عدنان بیٹنی، تصویر بزریعہ مصنف

بیٹنی مذید کہتے ہیں کہ اکثر پاکستانی میڈیا کے صحافیوں کو ان نوجوانوں کی جانب سے سخت تنقید کا سامنا کرنا پڑتا تھا کہ جب وہ کسی احتجاج کی کوریج کے لیے جاتے اور پھر وہ نشر نہ ہوتا، اکثر یہ بھی دیکھا گیا کہ ان کو ایسے احتجاجی جلسوں میں کوریج سے روکا بھی گیا، لیکن سوشل میڈیا پھر جب صحافی ان کے احتجاج کو کوریج دینے لگے تو یہ سوشل میڈیا ہی واحد راستہ تھا کہ اس نے صحافیوں کو تحفظ فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ لوگوں کا صحافیوں پر اعتماد بحال کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ سوشل میڈیا نے جنوبی وزیرستان کے رہائشیوں کی آواز اٹھانے میں مختلف طریقوں سے مدد کی ہے، بہت سارے ایسے واقعات اس کی مثال ہیں، گذشتہ کئی عرصے سے جنوبی وزیرستان میں دہشتگردی کے واقعات رونما ہورہے تھے، اور لوگوں نے ان واقعات بارے احتجاجی مظاہرے کیے۔

انہوں نے کہا کہ رواں سال جنوری کے مہینے میں وانا میں 8 روز تک دھرنا بیٹھا رہا لیکن 6 روز تک اسے مین سٹریم میڈیا پر کوریج نہیں ملی۔ لیکن مسلسل سوشل میڈیا پر کوریج کے بعد مین سٹریم میڈیا پر خبریں چلنے لگی اور پھر دو روز بعد ہی دھرنا مظاہرین کے ساتھ مذاکرات ہوئے اور دھرنا ختم کردیا گیا۔ ایسی ہزاروں مثالیں ہیں۔ سوشل میڈیا نے عوام کو اور صحافیوں کو مین سٹریم میڈیا کی کوریج کی عدم موجودگی میں دنیا تک آپنی اواز/ لوگوں کی آوازوں کو پہنچانے کا موقع فراہم کیا ہے۔

جنوبی وزیرستان سے تعلق رکھنے والی خاتون صحافی رضیہ محسود کہتی ہیں کہ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز صحافیوں کے لیے اپنی خبر چلانے کاایک اچھا ذریعہ بن چکے ہیں۔

رضیہ مزید کہتی ہیں کہ قبائلی اضلاع بالخصوص جنوبی وزیرستان میں بہت ساری ایسی خبریں ہوتی ہیں کہ جن سے بہت سارے لوگ جڑے ہوتے ہیں لیکن وہ مین اسٹریم میڈیا پر نشر نہیں کی جاتیں تو اسے سوشل میڈیا پر شئیر کردیا جاتا ہے، جس کے بعد اکثر وہ خبر مین سٹریم میڈیا میں بھی جگہ بنا لیتی ہے۔

جنوبی وزیرستان سے تعلق رکھنے والی خاتون صحافی رضیہ محسود، تصویر بزریعہ مصنف
جنوبی وزیرستان سے تعلق رکھنے والی خاتون صحافی رضیہ محسود، تصویر بزریعہ مصنف

رضیہ نے کہا کہ سوشل میڈیا پر خبر جب ہم شئیر کرتے ہیں تو ہمیں اس خبر کی حساسیت اور اہمیت کا پتہ ہوتا ہے اور مقامی ہونے کے ناطے اسی لحاظ سے شئیر کرتے ہیں۔ اکثر ہمیں دیکھنے کو ملتا ہے کہ کچھ خبریں جب مین اسٹریم میڈیا پر چل جاتی ہیں تو ان کی وجہ سے صحافیوں کے لیے مسائل بنتے ہیں۔

صحافی جلال محسود جن کا تعلق جنوبی وزیرستان سے ہے اور پاکستانی نجی ٹی وی چینل کے ساتھ منسلک ہیں کہتے ہیں کہ ہمارے علاقے کی وہ خبریں جیسا کہ بم دھماکا، دہشتگردی کے واقعات یا پھر سیاسی دوروں وغیرہ کو پاکستانی الیکٹرانک میڈیا پر کوریج تو مل جاتی ہے، لیکن عوامی مسائل، احتجاج وغیرہ کو کوریج نہیں ملتی۔ دوسری جانب عوام کی ڈیمانڈ ہوتی ہے کہ آپ صحافی ہیں تو ہمارے مسائل کو کوریج دیں، ایسے موقع پر ہمارے پاس صرف سوشل میڈیا ہی واحد زریعہ رہ جاتا ہے۔

ٹی وی جرنلسٹ جلال محسود (تصویر بزریعہ مصنف)
ٹی وی جرنلسٹ جلال محسود (تصویر بزریعہ مصنف)

جلال مزید کہتے ہیں کہ اکثر ایسا ہوا ہے کہ احتجاج جلسوں یا عوامی مسائل کو جب ہم مین اسٹریم میڈیا پر کوریج نہیں دیتے تو مقامی سطح پر ہمارے خلاف آوازیں اٹھنا شروع ہوجاتی ہے۔ اور اگر پھر ہم سوشل میڈیا پر ان کو کوریج دے دیتے ہیں تو ہمیں پھر ان لوگوں کی جانب سے سراہا بھی جاتا ہے۔ اس کی مثال یہ ہے کہ محسود قبائل کا ایک احتجاجی دھرنا بائیس روز مطالبات کے حل کے لیے چلا اور اسکو ہم ٹی وی پر کوریج دینے میں ناکام رہے لیکن اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر کوریج دی تو وہاں اس دھرنے کے اسٹیج پر ہمارے بارے میں اچھے تاثرات سامنے آئے جس سے ہمارے الیکٹرانک میڈیا کی خاموشی چھپ گئی۔

ان کے مطابق مین سٹریم میڈیا مختلف پسندیدگیوں اور عموما جمعی رائے کے تاثرات کے مطابق کام کرتا ہے۔ پاکستان میں ٹی وی چینلز کا ریٹنگ سسٹم ہے، اورریٹنگز چینلز اکثر بڑے شہروں کے علاوہ کئی نہیں اس وجہ سے بھی بڑے شہروں کی چھوٹی سے چھوٹی خبر بھی میڈیا کی زینت بن جاتی ہے۔

محسود پریس کلب کے صدر اشتیاق محسود اس بارے میں کہتے ہیں کہ جنوبی وزیرستان میں مین سٹریم میڈیا پر سیلف سنسر شپ کی مختلف وجوہات ہیں، اکثرموضوعات کا کسی نہ کسی لحاظ سے سیکورٹی اداروں، پر تشدد واقعات، اور بعض علاقائی قومی واقعات سے تعلق ہوتا ہے۔ جنوبی وزیرستان میں اگر ہم پی ٹی ایم کے احتجاجی جلسے جلوس کی مثال لیں تو ان کا احتجاج اکثر ان واقعات کی سے جڑا ہوتا ہے جن میں کسی نہ کسی لحاظ سے سیکورٹی اداروں کی بھی بات کی گئی ہوتی ہے۔

اشتیاق محسود مذید کہتے ہیں کہ وزیرستان سے ان موضوعات کو زیادہ ترجیح دی جاتی ہے جن کا اثر پورے ملک پر پڑتا ہو جیسے کہ کوئی بم دھماکہ، ڈرون حملہ، یا کوئی اور دہشتگردی کا واقعہ ، اس لیے دوسرے عوامی مسائل کو اگر جگہ مل بھی جاتی ہے تو وہ بہت کم ہوتی ہے۔

 محسود پریس کلب کے صدر اشتیاق محسود، تصویر بزریعہ مصنف
محسود پریس کلب کے صدر اشتیاق محسود، تصویر بزریعہ مصنف

اشتیاق محسود مزید کہتے ہیں کہ مین اسٹریم میڈیا سے اب عوامی توقعات میں کمی آئی ہے، جس کی بنیادی وجہ سٹیزن جرنلزم پر لوگوں کا انحصار ہے۔ لیکن سٹیزن جرنلزم کی وجہ سے اب اکثر لوگوں کو مسائل کا سامنا بھی کرنا پڑ رہا ہے کیونکہ سٹیزن جرنلزم/ سوشل میڈیا پر کوئی شخص یا ادارہ اپنے عقائد،مفروزوں یا جذبات کی بنا پر خبروں کو شائع کرتا ہے جن کا اکثر حقیقت سے تعلق نہیں ہوتا، ایسی خبریں عموماً تشدد یا غلط تشہیر کا باعث بنتی ہیں اور معاشرے میں بےچینی پیدا کرتی ہیں۔

ایڈوکیٹ ہائی کورٹ اسد عزیز محسود کہتے ہیں موجودہ دور میں سوشل میڈیا ایک طاقتورترین ہتھیارکے طورپرسامنے آیاہے۔اس کی اہمیت مسلسل بڑھتی جارہی ہے۔ سوشل میڈیا دو دھاری تلوار ہے جہاں اس کے بہت سے فائدے ہیں وہاں کئی نقصانات بھی ہیں۔ اب یہ ہم پرمنحصرہے کہ ہم اس کامنفی استعمال کررہے ہیںیا مثبت؟ منفی استعمال کی وجہ سے سائبرکرائم واقعات میں بھی روز بروز اضافہ دیکھنے کو مل رہا ہے۔ اورسوشل میڈیا کے منفی استعمال نے معاشرے میں نفرت ، بد تہذیبی اور عدم برداشت کے کلچر کو فروغ دیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اس کا مثبت انداز میں استعمال کریں تاکہ سیاسی کشیدگی، ڈوبتی معیشت اور تقسیم در تقسیم ہوتے معاشرے کو سوشل میڈیا کے منفی اثرات سے بچایا جاسکے۔

social media

journalism