ایف بی آر نے سرکاری افسران اور حکام کے ٹیکس اور مراعات کا ڈیٹا دینے سے انکار کردیا
فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) نے انکم ٹیک آرڈیننس 2001 کے سیکشن 216 کے تحت ”پولیٹکلی ایکسپوزڈ پرسن“ (پی ای پیز) سمیت گریڈ 17 سے 22 تک کے اعلیٰ سطحی سرکاری افسران کی جانب سے کی جانے والی ٹیکس ادائیگیوں سے متعلق معلومات شیئر کرنے سے انکار کردیا ہے۔
فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (FATF) کی جانب سے ”پولیٹکلی ایکسپوزڈ پرسن“ (پی ای پی) پر اس شخص کو قرار دیا گیا ہے جس کا ایک نمایاں عوامی کردار ہو۔
پی ای پیز کو عوام میں ان کے اثر و رسوخ اور مقام کی وجہ سے زیادہ خطرناک سمجھا جاتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ ممکنہ منی لانڈرنگ، بدعنوانی (کرپشن)، رشوت اور دہشت گردی کی مالی معاونت سمیت متعلقہ مالیاتی جرائم کرنے کے لیے اختیار کا غلط استعمال کر سکتے ہیں۔
ٹیکس کے ایک وکیل وحید شہزاد بٹ نے ایف بی آر کے خلاف پاکستان انفارمیشن کمیشن (پی آئی سی) میں اپیل دائر کی تھی، جس میں الزام لگایا گیا تھا کہ ایجنسی اہم معلومات کو چھپانے کی کوشش کر رہی ہے۔
یہ بھی پڑھیں
ملک امجد زبیر ٹوانہ چیئرمین ایف بی آر تعینات، نوٹیفکیشن جاری
غیر منقولہ جائیدادوں کی خرید و فروخت پر ود ہولڈنگ ٹیکس کی نئی شرح نافذ
پی آئی سی نے سیکرٹری ایف بی آر کو پی ای پیز کی جانب سے کی جانے والی ٹیکس ادائیگیوں کے بارے میں معلومات فراہم نہ کرنے پر طلب کیا ہے، تاکہ بی پی ایس 17 سے 22 تک کے اعلیٰ سطح کے سرکاری عہدیداروں، ان کی بیویوں اور بچوں یا ممکنہ فائدہ حاصل کرنے والوں کی جانب سے ٹیکس کی ادائیگیوں کے بارے میں معلومات فراہم نہ کرنے پر ایف بی آر کا مؤقف حاصل کیا جاسکے۔
ایڈوکیٹ وحید بٹ نے معلومات تک رسائی کے حق کے ایکٹ 2017 (آر ٹی آئی) کے تحت مذکورہ معلومات تک رسائی کی درخواست کی تھی۔
وحید بٹ نے کہا کہ ایف بی آر کی طویل خاموشی نے ایک بار پھر ثابت کر دیا ہے کہ آر ٹی آئی قانون کا کوئی فائدہ نہیں، اور ٹیکس حکام اسے ٹیکس سے متعلق بنیادی معلومات فراہم کرنے سے انکار کرنے کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔
ٹیکس وکیل نے سی وی ٹی، سپر ٹیکس اور ڈیمڈ انکم ٹیکس کی مد میں قومی خزانے کو پی ای پیز کی طرف سے کی گئی کُل ادائیگیوں (اگر کوئی ہے تو) کی مکمل معلومات فراہمی کی درخواست کی تھی۔
ان میں اراکین قومی و صوبائی اسمبلی، سینیٹ، صدرِ پاکستان، وفاقی وزرا، ہائی کورٹس اور سپریم کورٹ کے ججز، تمام وفاقی و صوبائی محتسب، چیف الیکشن کمشنر اور الیکشن کمیشن کے اراکین اور چیئرمین نیب وغیرہ شامل تھے۔
ایف بی آر کے انکاری خط میں کہا گیا کہ ’مجھے یہ کہنے کی ہدایت کی گئی ہے کہ آئی آر آپریشن ونگ پی ای پیز بشمول بی پی ایس 17 اور اس سے اوپر کے اعلیٰ سرکاری افسران اور ملازمین، ان کی شریک حیات، بچوں یا بینامیداروں کا کوئی ڈیٹا محفوظ نہیں رکھتا‘ ۔
خط میں کہا گیا کہ ’سیکشن 216 کسی بھی فرد یا اتھارٹی کو ٹیکس دہندگان کی معلومات افشاء کرنے سے منع کرتا ہے، سوائے ان کے جو آرڈیننس کے سیکشن 21 کے ذیلی سیکشن 3 میں واضح طور پر مذکور ہیں۔ چونکہ درخواست دہندہ اس رعایت کا احاطہ نہیں کرتا۔ لہذا، خفیہ طور پر مراعات سے لطف اندوز ہونے والی معلومات کو انکم ٹیکس آرڈیننس 2001 کے سیکشن 216 کے بار کے مطابق ظاہر نہیں کیا جا سکتا‘۔
Comments are closed on this story.