Aaj News

اتوار, دسمبر 22, 2024  
19 Jumada Al-Akhirah 1446  

مولانا فضل الرحمان نے باجوڑ حملے کو بڑی انٹیلیجنس ناکامی قرار دے دیا

پاکستان میں 26 انٹیلیجنس ادارے ہیں، مگر وہ غائب کہاں ہیں، سربراہ جے یو آئی
اپ ڈیٹ 01 اگست 2023 10:36am
فوٹو ــ فائل
فوٹو ــ فائل

جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے کہا ہے کہ باجوڑ جیسے واقعات کے ذریعے اُن کی جماعت کا عوام سے رابطہ توڑنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں تاہم اس نوعیت کے اقدامات سے نہ تو پہلے ان کی پارٹی کا راستہ روکا جا سکا ہے اور نہ ہی یہ آج ممکن ہو گا۔

جے یو آئی کی جانب سے جاری پریس ریلیز کے مطابق مولانا فضل الرحمان کا کہنا ہے کہ اس نوعیت کے حربوں سے ان کی جماعت کو اپنی فکر اور نظریے سے نہیں ہٹایا جا سکتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ کیا ہمارے ریاستی ادارے صرف اس بات کے لیے رہ گئے ہیں کہ وہ کسی غریب مولوی کو تھانے میں لے آئیں اور ان پر الزمات لگائیں کہ تمہارے پاس کسی نے کھانا کھایا یا چائے پی۔ انھوں نے کہا کہ پاکستان میں 26 انٹیلیجنس کے ادارے ہیں، مگر وہ غائب کہاں ہیں۔

انھوں نے کہا کہ باجوڑ حملہ ایک بڑی انٹیلیجنس ناکامی ہے۔ ’کیا یہ مجھے اعتماد دلا سکتے ہیں کہ ریاست میری جان کی حفاظت کرسکتی ہے یا نہیں؟ یا ریاست صرف مجھ سے ٹیکس وصول کرے گی اور میری جان ومال کی حفاظت نہیں کرے گی۔

مولانا فضل الرحمان کا مزید کہنا تھا کہ مجھے شکایت ہے کہ میں نے ریاست کو بچانے کے لیے قربانیاں دی ہیں، میں نے اس ریاست کی بقا اور استحکام کے لیے جدوجہد کی ہے، میں ریاست کے شانہ بشانہ کھڑا رہا ہوں لیکن اکیلے ایک جماعت کیا کر سکتی ہے، پوری قوم ریاستی اداروں کی طرف دیکھ رہی ہے۔’

سربراہ جے یو آئی کا کہنا تھا کہ باجوڑ حملے کے تناظر میں ان کی جماعت پہلے قبائلی زعما کا جرگہ اور پھر جے یو آئی کی مرکزی مجلس شوریٰ کا اجلاس بلانے کا ارادہ رکھتی ہے تاکہ موجودہ صورتحال پر غور کیا جا سکے۔

یاد رہے کہ جے یو آئی (ف) کے ورکرز کنونشن میں اتوار کے روز خودکش حملہ ہوا تھا جس میں قیمتی جانیں ضائع ہوئیں اور درجنوں افراد زخمی ہوئے۔

اس واقعے کے وقت مولانا فضل الرحمان دبئی میں موجود تھے تاہم یہ اطلاع ملنے کے بعد وہ اپنا دورہ مختصر کر کے پاکستان واپس پہنچے تھے۔

افغانستان میں برسراقتدار طالبان اور کالعدم تحریک طالبان پاکستان کی جانب سے اس خودکش حملے کی مذمت کی گئی ہے جبکہ ابتدائی طور پر داعش نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کی ، تاہم حکام کی جانب سے اس حوالے سے ابھی تک کوئی تصدیق یا تردید نہیں کی گئی۔

security forces

Pakistan Law and order situation

BLAST IN BAJOR