رضوانہ سمیت سارے غریبوں کو مر جانا چاہیے
رضوانہ آخر مر کیوں نہیں جاتی، ہاتھ پاؤں توڑ ڈالے، مار مار کر ادھ موا کردیا، زخموں میں کیڑے پڑ گئے، پھر بھی زندہ ہے، یہ غریب بھی بہت سخت جان ہوتا ہے، کچھ بھی کر لو مرکے نہیں دیتا، دو فیصد اشرافیہ کو چھوڑ دیں، تو پوری قوم ایسی ہی ہے، مجبور، بے بس، لیکن مرکے نہیں دیتی ہے۔
جس جگہ جاؤ، رضوانہ کی بات کی جارہی ہے، کوئی کہتا ہے، اس کے ماں باپ کو گرفتار کرو، جنہوں نے صرف 10 ہزار روپے کے لیے اپنی بچی کو ظالموں کے حوالے کردیا، کسی نے کہا اس کا باپ کیا خود کام نہیں کرسکتا تھا؟ کوئی کہتا ہے سول جج کی بیوی کو پھانسی پر چڑھا دو، غرض جتنے منہ اتنی باتیں، لوگ افسردہ ہیں، غصے کا شکار ہیں۔
دوسری جانب وہ عورت ہے، جو ایک سول جج کی بیوی ہے، طاقت کے نشے میں چور، جس کی گرفتاری کے لیے پولیس نے درجنوں چھاپے مارے لیکن ہمیشہ کی طرح طاقتور ہاتھ نہ آیا۔ اس سے بھی زیادہ دلچسپ بات یہ کہ خاتون کے خلاف درج مقدمے میں جن دفعات کو شامل کیا گیا تھا ان کے تحت ضمانت نہیں ہوسکتی ہے۔
جج صاحب کی بھی سُن لیجیے کہ انہوں نے اپنی اہلیہ کو پولیس کے روبرو پیش کرنے اور بیان رکارڈ کرانے کا وعدہ کیا تھا لیکن بے چارے کچھ نہ کرسکے، ان کی اہلیہ نے کسی اور عدالت سے ضمانت لی اور پھر چھومنتر ہوگئیں۔ بے چاری پولیس نے ایک درخت سے دوسرے درخت تک چھلانگ تو لگائی اور بار بار لگائی، اب کیا کریں، ملزمہ مل کے ہی نہ دی تو اس کا کیا قصور ہے۔
حکومتی اہلکاروں کے مذمتی بیانات ایک کے بعد ایک آرہے ہیں، ملزمہ کو قرار واقعی سزا ملنی چاہیے، اسے نہیں چھوڑا جائے گا، وغیرہ وغیرہ، رضوانہ کی عیادت کے لیے اسپتال کے چکر اور ان کی میڈیا پر تشہیر سے سوال یہ پیدا ہوتا ہے اصل مسئلہ کیا ہے، رضوانہ اور اس کا غریب باپ؟ یا پھر سول جج کی اہلیہ؟ اصل مسئلہ اس نظام کا ہے، جس کی وجہ سے رضوانہ اور سول جج کی بیوی نے جنم لیا۔
ایک جانب غربت اور دوسری طرف طاقت، غربت کا خاتمہ اور قانون کا نفاذ اور انصاف کا قیام حکومت کی ذمہ داری ہے، غربت کے خاتمے کے دعوے کیے جاتے ہیں، انصاف پر مبنی معاشرے کی بات ہوتی ہے، کیا کہیں دونوں چیزیں نظر آتی ہیں؟
رضوانہ اور اس جیسی ہزاروں لاکھوں بچیوں اور بچوں کو تو اسکول میں ہونا چاہیے، رضوانہ کا والد بر سر روزگار ہونے کے ساتھ اتنی آمدنی کا حامل ہونا چاہیے کہ وہ بچوں کا خرچ خود اٹھائے، انہیں کمانے نہ بھیجے۔
اسی طرح انصاف کا مطلب صرف دعویٰ نہیں بلکہ عمل ہونا چاہیے، اگر ایسا ہوتا تو لوگ 50 ، 50 سال سے عدالتوں کی چکر نہ کاٹ رہے ہوتے، نظام انصاف کو مضبوط بنانا بھی تو حکومت ہی کی ذمہ داری ہے۔
وزیراعظم سمیت وزراء اور اپوزیشن اراکین سب ملزمہ کے عمل کی مذمت کر رہے ہیں، لیکن افسوس ناک بات یہ ہے کہ اس نظام پر کوئی بات نہیں کر رہا جس کی وجہ سے رضوانہ اور بے رحمی نے جنم لیا۔
قانون بنتے ہیں، زور دکھاتے ہیں، کمزور پر نافذ ہوتے ہیں، طاقتور کے آگے دم ہلاتے ہیں بلکہ لیٹ جاتے ہیں، جو چاہے آپ کا حُسن کرشمہ ساز کرے، آج کل تو روز نظر آرہا ہے، کل کا طاقتور آج مظلوم بن چکا ہے اور کل کا مظلوم آج قانون اور انصاف کے قیام بات کرتا ہے۔
خیر رضوانہ کی میڈیکل رپورٹ بھی سامنے آچکی ہے، رضوانہ کے سر اور جسم پر زخموں کے نئے اور پرانے 15 نشانات ہیں، علاج نہ ہونے کے باعث زخموں میں کیڑے پڑ چکے تھے، کئی ہڈیاں ٹوٹی ہوئی ہیں، بچی کے اندرونی اعضا جگر اور پھیپھڑے بھی متاثر ہیں، غرض رضوانہ کی موت کے سارے سامان میسر کردیے گئے، لیکن رضوانہ ہے کہ مر ہی نہیں رہی۔
یہ ہی حال ہمارے عوام کا ہے، رائے زنی جن کا مشغلہ ہے، چائے خانوں اور تھڑوں پر قوم کے مسائل حل نہ ہونے کا رونا روتے ہیں، عمل نام کی چیز ان کے پاس سے بھی نہیں گزرتی اور بقول جون ایلیا یہ خراباتیان خرد باختہ، صبح ہوتے ہی سب کام پر جائیں گے۔ رہی بات رضوانہ کی تو اسے کیا ضرورت ہے ایک ایسے معاشرے میں زندہ رہنے کی جو پہلے ہی مردہ ہے۔َ
Comments are closed on this story.