پیمرا ترمیمی بل: مہمان حکومت کی پھلجھڑی، بل پر ابھی تک نہ اچھا ردعمل آیا اور نہ برا
مہمان حکومت نے ایک اور پھلجھڑی چھوڑ دی، جی ہاں، پیمرا ترمیمی بل پیش کردیا گیا، بل پر ابھی تک نہ اچھا ردعمل آیا اور نہ برا، نہ جانے کیوں ایک بادشاہ کا واقعہ یاد آرہا ہے جو چاہتا تھا کہ عوام احتجاج پر اتر آئیں، مظاہرے کریں، کچھ تو کریں، پتا چلے کہ ان میں آزادی کی رمق بھی باقی ہے یا نہیں۔
مصاحب خاص کے مشورے پر اعلان ہوجاتا ہے کہ شہر میں داخل ہونے سے قبل ہر شخص کو دو جوتیاں کھانا ہوں گی، دروازے پر دربان تعینات ہوا، ہر فرد کو شہر میں داخل ہونے کی جلدی لیکن قطار اتنی لمبی کہ شام تک نمبر آنا بھی محال تھا، قطار متاثرین نے جہاں دیدہ افراد پر مشتمل وفد تشکیل دیا تاکہ مشکل سے نجات پائیں، زیرک اور ذہین وفد نے شاہ سے ملاقات کی درخواست کی، یہ سن کر بادشاہ بہت خوش ہوا کہ اس کی قوم میں اب بھی آزادی کی تڑپ ہے۔
قصہ مختصر، وفد نے بادشاہ سے درخواست کی کہ حضور والا! قطار ایک ہے، دربان بھی ایک ہے، بہت انتظار کرنا پڑتا ہے۔ آپ سے درخواست ہے کہ قطاروں اور دربان کی تعداد بڑھا دیں تاکہ جوتیاں کھا کر جلد شہر میں داخلے کی اجازت مل سکے،
کتنے شیریں ہیں تیرے لب کہ رقیب ”جوتیاں“ کھا کے بے مزا نہ ہوا
ایسا ہی کچھ حال ہمارا ہو چکا ہے خیال تھا کہ ترمیمی بل پر صحافتی حلقوں میں کوئی تو آواز اٹھے گی، کہیں تو شور و غوغا ہوگا، لیکن وائے ناکامی! متاعِ کاررواں جاتا رہا، کارواں کے دل سے احساسِ زیاں جاتا رہا۔
زیادہ پرانی بات نہیں ہے، جب ہم نے وطن عزیز میں صحافیوں اور ورکرز کو اپنے حقوق کے لیے سڑکوں پر احتجاج کرتے اور مار کھاتے دیکھا، اور آج یہ حال ہوچلا ہے کہ کہیں سے آواز تو خاک بلند ہوتی، کسی کو چوں کرنے کی بھی جسارت نہیں ہورہی، بلکہ کچھ نے تو تعریفوں کے پل باندھنا بھی شروع کردیے، سنا ہے اکا دکا مخالفانہ ٹویٹس سامنے آئی ہیں۔
حکومت نے بھی اپنے تئیں بل کو صحافیوں اور صحافت کے لیے سنگ میل قرار دے دیا ہے، یہ بات سُن کر کہ بل کی تیاری میں اسٹیک ہولڈرز سے سال بھر مشاورت کی گئی اور اتفاق رائے کے بعد مسودے کو حتمی شکل دی گئی ہے، حیران ہوں دل کو روؤں کہ پیٹوں جگر کو میں۔
بل میں مس انفارمیشن اور ڈس انفارمیشن کی تعریف بیان کی گئی ہے لیکن کیا کسی کو یہ خیال نہ آیا کہ بل میں اپنی مرضی کی خبر چلوانے والوں کا بھی کچھ ذکر ہوجائے، کچھ ان لوگوں کی بھی بات ہوجائے، جو صحافیوں کو دھمکیاں دیتے ہیں، گولیاں مارتے ہیں اور کچھ تو ایسے ہیں جنھیں صحافی برادری کی کم تنخواہوں کا علم ہے تو اپنے خرچے پر شمالی علاقہ جات کی سیر کو بھی لے جاتے ہیں۔
ڈس انفارمیشن والی خبر اسے کہا جائے گا جوجعلی، گمراہ کن اور من گھڑت ہو، ساز باز یا سازش سے تیار کردہ ہو، جو ذاتی، سیاسی یا مالی مفاد کی خاطر بنائی گئی ہو، جو کسی کو ہراساں کرنے کے لیے تیار کی گئی ہو، جس کے بارے میں خبر ہو اس کا مؤقف تک نہ لیا گیا ہو۔
مس انفارمیشن کا مطلب ایسی خبر یا مواد جو جانچ پڑتال کے بعد جھوٹ ثابت ہو اور نادانستگی میں نشر ہوگیا ہو۔ اسی طرح بڑی ”خوبصورتی اور ذہانت“ سے پابندیوں کا دائرہ کار مزید بڑھا دیا گیا یعنی شکایات کونسلز کا قیام، یعنی جو چاہے، جب چاہے، کسی بھی مواد کے خلاف شکایت درج کرائے اور میڈیا آرگنائزیشنز اور صحافتی عملہ کو طلب کیا جاسکے۔ یعنی جب چاہیں اور جس کے گلے پر چاہیں، پاؤں رکھ دیں، اداروں پر دباؤ ڈالنے کا اختیار تو اشتہارات کی شکل میں پہلے ہی ہاتھ میں ہے۔
میڈیا ورکرز کے لیے ”تاریخ ساز فیصلہ“ بھی بل کا حصہ ہے کہ تنخواہ باقاعدگی سے اور تاخیر کی صورت میں دو ماہ کے اندر ادا کرنا ہوگی، کیا بروقت تنخواہ کے لیے کسی قانون سازی کی ضرورت تھی؟ کیا میڈیا ورکرز کو حالات کار، صحت کی سہولتیں وغیرہ فراہم کرنے کے لیے آسمان سے فرشتے آئیں گے؟
کیا میڈیا ورکرز کو بے وقوف سمجھ رکھا ہے جو انہیں رشوت یا سہولت کے معنی نہیں معلوم، غریب کی جورو سب کی بھابھی۔ بظاہر ایسا لگ رہا ہے کہ دہائیوں کی لڑائی کے بعد میڈیا نے جو تھوڑی بہت نام نہاد آزادی حاصل کی تھی، اسے پابند سلاسل کرنے کا فیصلہ کرلیا گیا ہے، بلکہ مکمل طور پر مقتدر حلقوں کے تابع کرنے کی کوشش کی جارہی ہے، اور میڈیا انڈسٹری کی مثال تو میں شروع میں ہی بیان کرچکا ہوں۔حمیت نام ہے جس کا، گئی تیمور کے گھر سے۔
ویسے اس تحریر میں موجود کئی جملوں کو مس انفارمیشن یا ڈس انفارمیشن کے زمرے میں ڈالا جاسکتا ہے،یعنی پہلے مس،، پھر ڈس،، اور اس کے بعد جناب میں ڈس مس۔
Comments are closed on this story.