Aaj News

منگل, نومبر 05, 2024  
02 Jumada Al-Awwal 1446  

خیبر پختونخوا میں 11 برس کے دوران 29 افراد قتل، سکھ برادری کی نقل مکانی

دو روز کے دوران سکھ برادری سے تعلق رکھنے والے دو افراد پر قاتلانہ حملے ہوئے
شائع 25 جون 2023 06:26pm
رنجیت سنگھ اورگلجیت سنگھ کے قتل کامقدمہ تھانہ سی ٹی ڈی میں درج ____ فاٹو پی پی آئی
رنجیت سنگھ اورگلجیت سنگھ کے قتل کامقدمہ تھانہ سی ٹی ڈی میں درج ____ فاٹو پی پی آئی

خیبرپختون خوا میں گزشتہ 11 برسوں میں 29 افراد کے قتل کے بعد سکھ برادری نے صوبے سے نقل مکانی شروع کردی ہے۔

پشاور میں اقلیتی برادری کو نشانے بنانے کا سلسلہ جاری ہے، گزشتہ (ہفتہ) رات کو پشاور کے تھانہ یکہ توت کے حدود میں نامعلوم مسلح افراد نے فائرنگ کرکے من موہن نامی سکھ تاجر کو قتل کردیا۔

پولیس کے مطابق سکھ برادری سے تعلق رکھنے والا تاجر رکشے میں گھر جارہا تھا کہ یکہ توت کےعلاقے گلدرہ میں نامعلوم افراد نے اسے فائرنگ کا نشانہ بنایا۔

اس سے ایک روز قبل جمعہ کو پشاور کے علاقہ رشید گڑھی میں نامعلوم موٹرسائیکل سواروں نے سکھ پنساری ترلوک سنگھ پر اپنی دکان کے اندر فائرنگ کی جس سے وہ زخمی ہوا اور ملزمان فرار ہوگئے۔

پولیس حکام دونوں واقعات کو ٹارگٹ کلنگ قرار دے رہے ہیں، جس کا مقصد سکھ برداری کو نشانہ بنا کر بدامنی اور بے چینی پھیلانا ہے۔

سی سی پی او کا نوٹس

چیف کیپٹل سٹی پولیس آفیسر اشفاق انور نے من موہن سنگھ کے قتل کا نوٹس لیتے ہوئے ایس پی سٹی سے رپورٹ طلب کرلی ہے۔ سی سی پی او کا کہنا ہے کہ سکھ کمیونٹی کے ساتھ واقعہ افسوسناک ہے، ملزمان کو جلد گرفتار کرکے قانون کے دائرے میں لایا جائے گا۔

آئی جی پولیس خیبرپختونخوا کا مؤقف

آئی جی پولیس خیبرپختونخوا اختر حیات گنڈا پور نے واقعات پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے بتایا کہ حملے میں کالعدم تنظیم ملوث ہے۔ آئی جی نے سکھ برادری کے ٹارگٹ کلنگ میں دہشتگردوں کو قانون کے دائرے میں لانے کی یقین دہانی کرائی ہے۔

تھانہ سی ٹی ڈی میں مقدمہ درج

پولیس نے واقعہ کی تحقیقات کیلئے محکمہ انسداد دہشتگردی کو مراسلہ ارسال کیا جس کے بعد واقعہ کا مقدمہ تھانہ سی ٹی ڈی میں درج کرلیا گیا۔مقدمے میں 7 اے ٹی اے اور قتل کی دفعات شامل کی گئیں۔سی ٹی ڈی ٹیموں نے شہر میں لگے سی سی ٹی وی کیمروں کی فوٹیجز کا جائزہ بھی لینا شروع کردیا اور کئی مشتبہ افراد کو بھی تفتیش کیلئے حراست میں لے لیا گیا ہے۔

کالعدم تنظیم نے ذمہ داری قبول کرلی

کالعدم تنظیم اسلامک اسٹیٹ خراسان نے من موہن سنگھ کے قتل کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے بیان جاری کیا ہے کہ سکھ کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے ایک شخص کو تھانہ یکہ توت کے حدود میں نشانہ بنایا گیا۔

نگران وزیر اطلاعات کا مؤقف

خیبرپختونخوا کے نگراں وزیر اطلاعات بیرسٹر فیروز جمال شاہ کاکاخیل نے من موہن سنگھ کے قتل کی مذمت کرتے ہوئے بتایا کہ نگران وزیراعلیٰ محمد اعظم خان نے واقعہ کا نوٹس لیکر پولیس کو واقعہ کی فوری تحقیقات کا حکم دیا ہے۔فیروز جمال کا کہنا تھا کہ شرپسند اقلیتی برادری کو نشانہ بنا کر علاقے کا امن تباہ کرنے کے درپے ہیں جو کسی صورت قبول نہیں۔نگراں وزیر اطلاعات نے بتایا کہ حکومت اور عوام اقلیتی بھائیوں کیساتھ کھڑی ہے اور ملزمان کو جلد قانون کے کٹہرے میں لایا جائے گا۔

عوامی نیشنل پارٹی کا اظہار تشویش

عوامی نیشنل پارٹی کے صوبائی صدر ایمل ولی خان واقعات پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے مؤقف اپنایا کہ دہشتگردی کے خلاف جنگ میں عوام، پولیس، سیاستدانوں، فوج سمیت ہر فرد نے قربانیاں دی ہیں لیکن اس کے باوجود خیبرپختونخوا میں ایک بار پھر ٹارگٹ کلنگ اور دہشتگرد حملوں میں اضافہ ہورہا ہے، جب کہ اقلیتی برادری کے اراکین پر حملوں سے تاثر دیا جارہا ہے کہ پشاور محفوظ نہیں۔

ایمل ولی کا کہنا تھا کہ بدقسمتی سے آج بھی ان لوگوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہورہی جو دہشتگردوں کے ساتھی تھے۔انہوں نے مطالبہ کیا کہ دہشتگردوں کو واپس لانیوالوں کیخلاف سخت سے سخت کارروائی کی جائے۔

11 سال میں 29 سکھ قتل

سکھ برادری کے رہنماء ردیش سنگھ ٹونی کے مطابق خیبرپختون خوا میں 2012 سے لے کر اب تک 33 سکھ افراد کو ٹارکٹ کلنگ کا نشانہ بنایا گیا ہے، جن میں 29 افراد قتل اور 4 افراد زخمی ہوچکے ہیں۔

ردیش سنگھ نے بتایا کہ 2012 سے پہلے سکھ برادری سے تعلق رکھنے والے افراد سے بھتہ وصولی یا اغواء کے واقعات سامنے آرہے تھے۔ لیکن 2012 کے بعد سکھ برادری کو ٹارگٹ کلنگ کا سامنا ہے۔

ردیش سنگھ نے بتایا کہ خیبرپختونخوا میں تقریبا 35 ہزار سے زائد سکھ آبادی تھی، لیکن بدامنی اور ٹارگٹ کلنگ کے باعث اکثر سکھ خاندان خیبرپختونخوا سے پنجاب یا پھر بیرون ممالک منتقل ہوگئے ہیں۔

سکھ رہنما نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے بتایا کہ کئی مقدمات میں آج تک ملزمان کی گرفتاری نہیں ہوئی اور جن میں مشکوک افراد کو گرفتار بھی کیا گیا تو اکثر کو عدالت نے عدم ثبوت کی بناء پر بری کردیا، جو پولیس کی ناقص تفتیش اور ناکامی کا ثبوت ہے۔

ردیش سنگھ ٹونی نے بتایا کیا کہ اگر سکھ کمیونٹی کے تحفظ کو یقینی بنانا ہے تو سب سے پہلے سکھ آبادی والے علاقوں یا بازاروں میں سیکیورٹی پلان مرتب کرنے کیلئے پولیس کی سربراہی میں کمیٹی تشکیل دیکر متعلقہ جگہوں کی سیکیورٹ سخت اور عملی ہونی چاہئے۔

جسٹس تصدق جیلانی کا اقلیتیوں کی تحفظ سے متعلق فیصلہ

2013 میں پشاور کے ایک گرجا گھر حملے کے نتیجے میں 100 سے زائد مسیحی شہری ہلاک ہوئے جس پر سپریم کورٹ کے اس وقت کے چیف جسٹس جسٹس تصدق حسین جیلانی کی سربراہی میں بینچ تشکیل دیا گیا تھا جس کا مقصد پاکستان کی اقلیتوں کو تحفظ اور حقوق حوالے سے آئین کی روشنی میں جامع قانون سازی کی بنیادیں وضع کی جائیں اور حکومت کو عملی اقدامات کا پابند بنایا جائے۔

جسٹس تصدق حسین جیلانی کی سربراہی میں عدالتی فیصلے کیمطابق مذہبی رواداری کے فروغ کیلئے خصوصی ٹاسک فورس تشکیل دی جائے،تعلیمی اداروں کا نصاب مذہبی ہم آہنگی کو فروغ دے، اقلیتوں کے تحفظ کیلئے قومی کونسل بنائی جائے جو پالیسی سفارشات مرتب کرے، مذہبی اقلیتوں کے عبادت گاہوں کے تحفظ کیلئے خصوصی پولیس فورس تشکیل دی جائے، اس بات کی یقین دہانی کرائی جائے کہ ملزمان کیخلاف فوری قانونی کارروائی کی جائے۔ فیصلے میں لکھا گیا تھا کہ سپریم کورٹ کا بینچ عمل درآمد کو یقینی بنائے گا اور شکایات کی سماعت کرے گا۔

فیصلے میں یہ بھی لکھا گیا تھا، ’’ہم سمجھتے ہیں کہ اگر مذہبی اقلیتوں کے عبادت گاہوں کی بے حرمتی کرنے والوں کے خلاف متعلقہ حکام نے فوری کارروائی کی ہوتی تو ایسے واقعات کا سدباب بہت عرصہ پہلے ہو چکا ہوتا۔‘‘ لیکن بدقسمتی سپریم کورٹ کے اس فیصلے پر عملدرآمد نظر نہیں آرہا۔

Sikh pilgrims

sikh murder