پولیس کا جناح اسپتال لائی گئی ٹک ٹاکر کی میت ساس کے حوالے کرنے سے انکار
کراچی کے جناح اسپتال کی ایمرجنسی میں ہفتہ کی صبح کار میں سوار دو افراد ایک بے جان لڑکی کو لے کر آئے، لیکن ڈاکٹروں نے جب چیک اپ کے بعد لڑکی کی موت کی تصدیق کی تو دونوں افراد لاش کو وہیں چھوڑ کر فرار ہوگئے۔
یہ لاش تھی 20 سالہ ٹک ٹاکر عائشہ کی جو شیخوپورہ کی رہائشی تھی۔
متوفیہ عائشہ تھی اور گزشتہ چھ ماہ سے کراچی کے علاقے گلستان جوہر میں مقیم تھی۔
عائشہ کی موت کی خبر سن کر کراچی پہنچنے والی اس کی ساس نے میڈیا کو بتایا کہ میں ابھی پنجاب سے فلائٹ لیکر کراچی پہنچی ہوں، عائشہ کی خبر میڈیا پر دیکھ کر کراچی آئی ہوں۔ متوفیہ کی ساس نے بتایا کہ عائشہ نے کہا تھا رات کو سالگرہ پارٹی میں جارہی ہوں۔
ساس کا بیان
متوفیہ کی ساس نصرت ثوبیہ کا بیان پولیس نے حاصل کرلیا۔ جس میں انھوں نے کہا کہ میں گلستان جوہر میں 16 سالوں سے رہ رہی ہوں، میرا بڑا بیٹا محمد عادل 6 ماہ قبل تک ٹیکسی چلاتا تھا، عادل نشے کا عادی ہے اور کئی کئی دنوں بعد گھر میں آتا ہے۔
بیان میں مزید کہا گیا کہ بیٹےعادل نے 2 سال قبل عائشہ سے شادی کی تھی، عائشہ میرے ساتھ رہتی تھی اور پارلر میں کام کرتی تھی، ایک ہفتے سے میں آبائی علاقے پنجاب میں تھی، ہمارا کسی سے کوئی جھگڑا نہیں ہے، ہم کسی قسم کی کوئی قانونی کارروائی نہیں چاہتے۔
ایس ایس پی ساؤتھ
ایس ایس پی ساؤتھ اسد رضا کا کہنا ہے کہ خاتون کے دیئے گئے بیان کو مسترد کیا گیا ہے، عائشہ کی میت ساس کو نہیں دی گئی، عائشہ کی میت اس کے والد کے حوالے کی جائے گی، کوشش ہےعائشہ کے والد کی مدعیت میں مقدمہ درج کیا جائے۔
اسد رضا نے مزید بتایا کہ اگر والد نے مقدمہ درج نا کروایا تو سرکار کی مدعیت میں درج کیا جائے گا، مفرور خاتون اور مرد کی تلاش جاری ہے جلد انھیں گرفتار کرلیا جائے گا۔
ایس ایس پی کے مطابق متوفیہ کی ساس کو شامل تفتیش کیا گیا ہے، خاتون کا شوہر منشیات کا عادی ہے اور لاپتہ ہے، متوفیہ کے شوہرعادل کو بھی تلاش کیا جارہا ہے۔
یادر ہے کہ عائشہ مبینہ طور پر کراچی کے علاقے ڈیفنس میں موجود ایک بنگلے پر ڈانس پارٹی میں پہنچی، لیکن علی الصبح اس کی لاش اسپتال پہنچا دی گئی۔
پولیس کے مطابق عائشہ کو پنجاب چورنگی کے قریب سے چیک اپ کے لئے لایا گیا تھا، جس کی موت ممکنہ طور پر نشے کی زیادتی کی وجہ سے ہوئی، لیکن پولیس سرجن سمعیہ سید نے حتمی پاسٹ مارٹم کی کیمیکل رپورٹ آںے تک کسی بھی نتیجے پر پہنچنے سے گریز کیا ہے۔
لاش کو لاوارث چھوڑے جانے کے بعد اسپتال انتظامیہ نے پولیس کو مطلع کیا۔
پولیس نے آکر تفتیش شروع کی تو سی سی ٹی وی فوٹیجز نے واقعات کو کچھ حد تک واضح کردیا۔
آج نیوز کے پاس موجود اسپتال کی ایمرجنسی کے اندر اور باہر کی سی سی ٹی وی فوٹیجز کے مطابق جس گاڑی میں عائشہ کی لاش کو لایا گیا اسے اسپتال ایمرجنسی کے باہر دیکھا جاسکتا ہے۔
اسی سی سی ٹی وی فوٹیج کی مدد سے پتا چلا کہ عائشہ کی لاش لانے والے افراد میں ایک خاتون اور ایک مرد شامل تھے، جو ایک گاڑی میں آئے تھے۔
کار سوار افراد نے اسپتال انتظامیہ کو بتایا کہ ڈانس پارٹی میں آئے تھے، جہاں عائشہ کی موت ہوئی۔
لڑکی کی لاش جناح اسپتال میں چھوڑ کر جانے والا شخص بھی ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے۔
ویڈیو کے مطابق گاڑی صبح 7:28 پر اسپتال کی ایمرجنسی کے باہر پہنچی، گاڑی سے ایک خاتون اور مرد اترے، خاتون اور مرد کو اسٹریچر پر لاش کے ہمراہ دیکھا جاسکتا ہے۔
خاتون عائشہ کی لاش کے ساتھ اسٹریچر کے ساتھ چلتی ہوئی اندر آئیں، ویڈیو میں اسپتال کی ایمرجنسی میں خاتون اور مرد کو اسپتال عملے سے بات کرتے دیکھا جاسکتا ہے۔
ویڈیو میں اسپتال عملے کو اسٹریچر پر پڑی لاش کا معائنہ بھی کرتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے۔ جس نے بعد میں عائشہ کے مردہ ہونے کی تصدیق کی۔
ملزمان نے اسپتال انتظامیہ کو میڈیکل سلپ پر رابطہ کیلئے فون نمبرز لکھوائے، تاہم، پولیس کے مطابق اسپتال انتظامیہ کو ملزمان نے جو نمبر لکھوائے وہ بند ہیں۔
ملزمان کو جب پتا چلا کہ عائشہ انتقال کرچکی ہے تو دونوں اسے وہیں چھوڑ کر بنا کسی کو کچھ بتائے اسپتال سے روانہ ہوگئے۔
فوٹیج میں خاتون کو فون پر بات کرتے ہوئے ایمرجنسی سے باہر جاتے دیکھا جاسکتا ہے۔ جو صبح 07:42 پر ایمرجنسی سے چلی گئیں۔
پولیس نے فوٹیج سے ملزمان کی تصاویر حاصل کیں، بعد ازاں دونوں کی شناخت جبران اور سحرش کے نام سے ہوئی۔
پولیس کے مطابق ملزمان نے جس کار میں لاش اسپتال پہنچائی، اس کا نمبر ”بی ایکس پی 708“ تھا، اس کے بعد پولیس نے دونوں افراد اور گاڑی کی تلاش کا عمل شروع کیا۔
سی سی ٹی وی کی مدد سے گاڑی کا نمبر ملا تو پولیس کراچی کے علاقے پرانا گولیمار میں موجود ندیم ولی نامی گاڑی کے مالک کے گھر جا پہنچی، جہاں اس نے بتایا کہ گاڑی کرائے پر دی گئی تھی۔
ندیم نے کرائے پر گاڑی لینے والے کا پتا بھی بتایا جس کے بعد پولیس کی ٹیم بتائے گئے پتے پر روانہ ہوگئی۔
دوسری جانب اسپتال میں پولیس سرجن ڈاکٹر سمعیہ سید نے عائشہ کی موت کی اصل وجہ جاننے کیلئے پوسٹ مارٹم شروع کیا۔
پوسٹ مارٹم مکمل ہونے کے بعد انہوں بتایا کہ لاش کا پوسٹ مارٹم مکمل کرلیا ہے، فوری طور پر موت کی وجہ کا تعین نہیں ہوا ہے، تشخیص کیلئے متوفیہ کے اعضا کمیائی تجزیہ کیلئے محفوظ کرلیے ہیں۔
ڈاکٹر سمعیہ نے کہا کہ ظاہری طور پر متوفیہ کے جسم پر کوئی نشانات موجود نہیں، متوفیہ کی شناخت عائشہ دختر کاشف کے نام سے کی گئی ہے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ پولیس نے متوفیہ کے فنگر پرنٹس حاصل کر لئے ہیں، تلاش ایپ کے ذریعے شناخت کی کوشش کی جا رہی ہے، کمیائی تجزیہ کی رپورٹ کی روشنی میں پوسٹ مارٹم رپورٹ تیار کی جائے گی، پوسٹ مارٹم رپورٹ میں وجہ موت کا تعین کیا جائے گا۔
سی پی ایل سی حکام کے مطابق فنگر پرنٹ کی مدد سے مقتولہ کی اصل شناخت اور لواحقین کے کوائف بھی موصول ہو جائیں گے۔
ایک طرف جہاں پولیس کا کہنا ہے کہ عائشہ کی موت ڈرگ اوور ڈوز سے ہوئی ہے، وہیں اس کی ساس نے ایسی کسی بھی عادت سے لاعمی کا اظہار کیا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ میرا بیٹا عادل ڈرائیوری کرتا ہے اور نشے کا عادی ہے، عائشہ ٹک ٹاکر تھی یہ معلوم ہے، لیکن عائشہ کے نشے کا مجھے نہیں معلوم۔
انہوں نے یہ بھی بتایا کہ بیٹے سے اب تک رابطہ نہیں ہوا ہے، تھانے جاؤں گی تو مزید معلوم ہوگا۔
عائشہ کی ساس نے سی سی ٹی وی میں نظر آنے والوں پہچاننے سے انکار کردیا۔
پولیس تاحال اس بنگلے کو تلاش نہیں کرسکی جس میں پارٹی چل رہی تھی، تاہم پولیس کا کہنا ہے کہ لڑکا اور لڑکی نے جو علاقہ بتایا وہ ڈیفنس تھانے کی حدود ہے۔
بنگلہ مل گیا
ذرائع کے مطابق عائشہ کو ڈیفنس کے خیابان صباء کی اسٹریٹ 32 سے اسپتال پہنچایا گیا تھا، عائشہ کو اسپتال میں چھوڑ کر فرار ہونے والے افراد خیابان صباء کے کارنر پر گاڑی چھوڑ کر فرار ہوئے تھے۔ جو بنگلے سے چند گز کے فاصلے پر ہے۔
پولسی ذرائع کا کہنا ہے کہ عائشہ کو ندیم نامی شخص نے گزشتہ رات چار دیگر لڑکیوں سمیت مزکورہ مقام پر پہنچایا تھا۔
ذرائع کے مطابق اسٹریٹ 32 پر قائم بنگلے کو واقعے کے بعد خالی کردیا گیا ہے۔ بنگلے کا مالک ماسٹر اور مینیجر طارق نامی شخص ہے۔ واقعے کے بعد سے یہ افراد بنگلہ خالی کرکے فرار ہوگئے ہیں۔
دوسری جانب 24 گھنٹے سے زائد وقت گزرنے کے باوجود مقدمہ درج نہیں ہوسکا۔
پولیس کا کہنا ہے کہ کار سوار خاتون اور مرد کا بھی پتا نہیں چل سکا، دونوں کی گرفتاری کیلئے چھاپے مارے جارہے ہیں۔
پولیس کا کہنا ہے کہ مقدمہ لڑکی کے والدین کی کراچی آمد کے بعد درج کیا جائے گا، لڑکی کی ساس کراچی میں موجود ہے اس سےرابطے میں ہیں، لڑکی کی میت والدین کے پہنچنے کے بعد ان کے حوالے کی جائے گی۔
پولیس نے بتایا کہ واقعے میں استعمال ہونے والی گاڑی گزشتہ روز برآمد کرلی گئی، کار مالک اور کرائے پر لینے والے شخص کو حراست میں لیا جاچکا ہے۔
Comments are closed on this story.