سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ نے فوجی عدالتوں کے قیام کو چیلنج کردیا
سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ نے فوجی عدالتوں کے قیام کو چیلنج کردیا۔
سابق چیف جسٹس آف پاکستان جواد ایس خواجہ نے سپریم کورٹ میں درخواست وکیل عزیز چغتائی کے توسط سے دائر کی۔
درخواست میں وزارت قانون، وزارت دفاع، پنجاب، خیبر پختونخوا ، سندھ اور بلوچستان کی صوبائی حکومتوں کو فریق بنایا گیا ہے۔
درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا کہ آئین کے مطابق سویلینز کا ملٹری کورٹ میں ٹرائل نہیں ہو سکتا، عام عدالتوں کی موجودگی میں ملٹری کورٹس میں سویلینز کے مقدمات نہیں چلائے جاسکتے۔
درخواست میں کہا گیا کہ فوج وفاق کے ماتحت ہے جبکہ صوبوں میں امن و امان صوبائی حکومت کی ذمہ داری ہے، فوج ایگزیکٹو کے ماتحت ہے جبکہ مقدمات چلانا عدلیہ کا کام ہے۔
درخواست میں استدعا کی گئی کہ عدالت فوجی عدالتوں کے قیام کو کالعدم قرار دے، عدالت تمام سویلینز کے مقدمات عام عدالتوں میں بھجوانے، شہریوں کے خلاف جاری کارروائی پر فوری حکم امتناعی جاری کرنے اور ملٹری کورٹس میں عام شہریوں کے بھجوائے گئے مقدمات کی تفصیل طلب کرے۔
خیال رہے کہ 8 جون کو فوجی تنصیبات پر حملے میں ملوث ملزمان کے مقدمات فوجی عدالتوں میں چلانے کے خلاف پشاور ہائی کورٹ میں دائر درخواستوں پر سماعت ہوئی ہے۔
دوران سماعت جسٹس اشتیاق ابراہیم نے ریمارکس دیے کہ آرمی آفیشل سیکرٹ ایکٹ میں تو کورٹ ماشل ہوتا ہے، سویلین کےکیسزآفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت کیسے چلائے جاسکتے ہیں؟ان مقدمات میں آئین کی تشریح کی ضرورت ہے۔ فریقین تیاری کرلے، 13 جون کو کیس دوبارہ سنیں گے۔
وکیل درخواست گزار کا مؤقف ہے کہ چیئرمین تحریک انصاف کی گرفتاری کیخلاف 9 مئی کو ہونے والے پرتشدد واقعات کے مقدمات میں نامزد 7 ملزموں کو ملٹری کے حوالے کیا گیا ہے۔ درخواست کے متن کے مطابق سویلین کے مقدمات ملٹری کورٹ میں نہیں چلائے جاسکتے ہیں۔ سویلین کے مقدمات ملٹری کورٹ میں چلانے کے لیے ایکٹ میں ترمیم کرنا ہوگی۔
Comments are closed on this story.