سویلین مقدمات ملٹری کورٹ میں چلانے کیلئے آئین کی تشریح کی ضرورت ہے، پشاور ہائیکورٹ
پشاور ہائی کورٹ کا کہنا ہے کہ سویلین مقدمات ملٹری کورٹ میں چلانے کیلئے آئین کی تشریح کی ضرورت ہے۔
جمعرات کو فوجی تنصیبات پر حملے میں ملوث ملزمان کے مقدمات فوجی عدالتوں میں چلانے کے خلاف پشاور ہائی کورٹ میں دائر درخواستوں پر سماعت ہوئی ہے۔
پشاور ہائیکورٹ میں دائر درخواست میں وفاقی و صوبائی حکومت، سیکرٹری ہوم، آئی جی پولیس اور آئی جی جیل خانہ جات کو فریق بنایا گیا ہے۔
جسٹس اشتیاق ابراہیم اور جسٹس صاحبزادہ اسد اللّٰہ پر مشتمل 2 رکنی بینچ نے درخواستوں پر سماعت کی۔
دوران سماعت جسٹس اشتیاق ابراہیم نے ریمارکس دیے کہ آرمی آفیشل سیکرٹ ایکٹ میں تو کورٹ ماشل ہوتا ہے، سویلین کے کیسز آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت کیسے چلائے جاسکتے ہیں؟ ان مقدمات میں آئین کی تشریح کی ضرورت ہے۔ فریقین تیاری کرلے، 13 جون کو کیس دوبارہ سنیں گے۔
وکیل درخواست گزار نے مؤقف اختیار کیا کہ چیئرمین پی ٹی آئی کی گرفتاری کے خلاف 9 مئی کو ہونے والے پرتشدد واقعات کے مقدمات میں نامزد 7 ملزموں کو ملٹری کے حوالے کیا گیا ہے۔
درخواست کے متن کے مطابق سویلین کے مقدمات ملٹری کورٹ میں نہیں چلائے جاسکتے۔ سویلین کے مقدمات ملٹری کورٹ میں چلانے کے لیے ایکٹ میں ترمیم کرنا ہوگی۔
درخواست میں مزید کہا گیا ہے کہ مقدمات میں آرمی ایکٹ 1952 کے سیکشن 59 اور آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے سیکشن 3 کو شامل کیا گیا ہے، جب کہ عام شہریوں کے خلاف آرمی ایکٹ کے تحت مقدمات درج کرنا غیر قانونی ہے اور یہ ناصرف بنیادی انسانی حقوق کے خلاف ورزی ہے بلکہ انٹرنیشنل قوانین کی بھی خلاف ورزی ہے۔
درخواستگزار کے وکیل کے مطابق 23 ویں ترمیم کے بعد سویلین کا ٹرائل ملٹری کورٹ میں نہیں ہوسکتا۔
سرکاری وکیل نے دوران سماعت کہا کہ پہلے ایف آئی آر میں آرمی ایکٹ شامل نہیں ہے، ڈسٹرکٹ پبلک پراسیکیوٹر آفیسر اپنی رائے دے چکا ہے۔
جس کے بعد عدالت نے کہا وکلاء کو کہا کہ تیاری کریں 13 جون کو اس کیس کو دوبارہ سنیں گے۔
عدالت نے سماعت 13 جون تک ملتوی کردی۔
حکمران اتحاد منقسم
پاکستان میں نو مئی کو ہونے والے پر تشدد واقعات کے تناظر میں ان واقعات کی منصوبہ بندی کے الزام میں چئیرمین پی ٹی آئی کے خلاف بھی مقدمہ فوجی عدالت میں چلائے جانے پر غور کیا جا رہا ہے۔
وفاقی کابینہ کے اہم وزراء اپنی پریس کانفرنسوں میں اس کا عندیہ بھی دے چکے ہیں۔
حکمراں اتحاد میں شامل دوسری بڑی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی ہے جو سیاسی کارکنان بالخصوص قیادت کی فوجی عدالتوں کے ٹرائل کی حامی نہیں ہے، لیکن تاحال چئیرمین کے حوالے سے حتمی رائے قائم نہیں کرسکی۔
پیپلز پارٹی کے رہنما فیصل کریم کنڈی کا کہنا ہے کہ ان کی جماعت واضح طور پر کہہ چکی ہے کہ وہ کسی ایسے کام کی حمایت نہیں کرے گی جو آئین اور قانون کے خلاف ہو گا۔
حکمراں اتحاد کی تیسری بڑی جماعت جمیعت علمائے اسلام (ف) اس معاملے پر سب سے سخت موقف اپنائے ہوئے ہے۔
نجی ویب سائٹ سے گفتگو میں جے یو آئی (ف) کے جنرل سیکرٹری مولانا عبدالغفور حیدری نے کہا کہ ’کسی بھی جماعت کے لیڈرز اور کارکن اپنی قیادت کے فیصلوں کے خلاف نہیں جاتے۔ اب تک سامنے آنے والی آڈیوز، ویڈیوز سے ثابت ہوتا ہے کہ کور کمانڈر ہاؤس اور جی ایچ کیو سمیت تمام فوجی عمارات اور تنصیبات پر حملے ایک منصوبہ بندی کے تحت ہوئے اور اس کے ماسٹر مائنڈ عمران خان ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’جب یہ بات واضح ہے کہ انہوں نے فوجی تنصیبات پر حملے کروائے تو پھر ان کے خلاف فوجی عدالتوں میں آرمی ایکٹ کے تحت کارروائی کیوں نہیں ہونی چاہیے؟‘
Comments are closed on this story.