نیپالی گائیڈ نے مرتے کوہ پیما کو بچانے کیلئے 45 ہزار ڈالر ٹھکرا دئیے
گیلجے شیرپا اپنے ایک چینی کلائنٹ کی 8,849 میٹر (29,032 فٹ) بلند چوٹی پر رہنمائی کر رہے تھے، اور ان کا پلان اپنے کلائنٹ کو پیراگلائیڈ کرنے میں مدد کرنے کا تھا۔
لیکن چوٹی سے صرف چند سو میٹر کے فاصلے پر اُس علاقے میں جسے ”ڈیتھ زون“ کہا جاتا ہے، انہیں ایک اکیلا آدمی نظر آیا جو رسی سے چمٹا ہوا تھا اور تھر تھر کانپ رہا تھا۔
آٹھ ہزار میٹر سے زیادہ بلند اس علاقے میں ہوا پتلی ہے، درجہ حرارت منجمد کردینے والا ہے اور یہ علاقہ کم آکسیجن کی سطح کی وجہ سے مشہور ہے۔
یہ علاقہ اپنے دشوار گزار راستے کے لیے بھی بدنام ہے۔
شیرپا گیلجے نے اے ایف پی کو بتایا، ”جب میں نے اُسے اِس حالت میں پایا تو میرے دل نے مجھے اسے وہاں چھوڑنے نہیں دیا۔“
اس دن بہت سے دوسرے کوہ پیما اس آدمی کے پاس سے گزر چکے تھے، لیکن شیرپا نے ان پر تنقید کرنے سے انکار کر دیا۔
انہوں نے کہا، ”یہ ایک ایسی جگہ ہے جہاں آپ کو پہلے اپنی بقا کے بارے میں سوچنا ہوگا۔“
چینی کلائنٹ نے ایورسٹ سر کرنے کیلئے شیرپا گیلجے کو 45 ہزار ڈالر ادا کئے تھے، اور چوٹی تک نہ پہنچنے کی صورت میں 11 ہزار ڈالر دینے کا معاہدہ ہوا تھا۔
شیرپا گیلجے نے کہا ”جب میں نے نیچے جانے کا فیصلہ کیا تو میرا کلائنٹ پہلے تو راضی نہیں ہوا، یقیناً وہ کافی پیسہ خرچ کرنے کے بعد وہاں موجود تھا، یہ اس کا برسوں سے خواب رہا ہوگا اور اسے یہاں چڑھنے کے لیے آنے کے لیے وقت نکالنا تھا۔“
”وہ غصے میں آ گیا اور کہا کہ وہ چوٹی پر جانا چاہتا ہے۔“
شیرپا گیلجے نے کہا ”مجھے اسے ڈانٹنا پڑا اور بتانا پڑا کہ اسے نیچے اترنا ہوگا کیونکہ وہ میری ذمہ داری تھی اور میں اسے خود سے سمٹ پر نہیں بھیج سکتا تھا۔ وہ پریشان ہوگیا۔“
شیرپا گیلجے نے وضاحت کی کہ وہ بیمار آدمی کو پہاڑ سے نیچے لے جانا چاہتا ہے۔
”پھر اسے احساس ہوا کہ ’ریسکیو‘ سے میرا مطلب ہے کہ میں اسے بچانا چاہتا ہوں۔ وہ سمجھ گیا اور پھر اس نے بعد میں معافی مانگ لی۔“
’تم نے میری جان بچائی‘
تیس سالہ شیرپا نے بیمار کوہ پیما کو اپنی اضافی آکسیجن سپلائی کے ساتھ فٹ کیا، اس کی حالت میں کچھ میں بہتری آئی، لیکن وہ پھر بھی چلنے سے قاصر تھا۔
چٹانی ناہموار علاقے کا مطلب تھا کہ شیرپا، جو تقریباً 1.6 میٹر لمبے (پانچ فٹ اور تین انچ) اور 55 کلوگرام وزنی ہیں، کو کچھ حصوں میں ملائیشین کوہ پیما اٹھانا پڑا۔
شیرپا نے کہا، ”کسی کو اٹھا کر وہاں سے نیچے لانا بہت مشکل کام ہے۔ لیکن کچھ حصے بہت پتھریلے ہیں، میں اسے گھسیٹ نہیں سکتا تھا۔“
”اگر میں ایسا کرتا تو اس کی ہڈیاں ٹوٹ سکتی تھیں، وہ پہلے ہی ٹھیک نہیں تھا۔“
شیرپا نے اس شخص کو تقریباً چھ گھنٹے کھینچ کر تقریباً 700 میٹر نیچے کیمپ 4 تک پہنچایا۔
انہوں نے کہا کہ میں بہت سے سرچ اور ریسکیو مشنز کا حصہ رہا ہوں لیکن یہ بہت مشکل تھا۔
وہاں ایک اور گائیڈ ان کے ساتھ اس ریسکیو مشن میں شامل ہوئے، دونوں نے کوہ پیما کو سونے والی چٹائیوں میں لپیٹا اور اسے رسیوں سے محفوظ کیا، پھر اسے برفیلی ڈھلوانوں پر گھسیٹتے ہوئے اور ضرورت پڑنے پر اپنی پیٹھ پر اٹھا کر نیچے کی جانب چل پڑے۔
آخر کار، وہ 7,162 میٹر (23,500 فٹ) پر کیمپ 3 پہنچے اور ایک لمبی لائن کا استعمال کرتے ہوئے ایک ہیلی کاپٹر نے متاثرہ کوہ پیما کو نیچے بیس کیمپ تک پہنچا دیا۔
شیرپا ملائیشین کوہ پیما سے دوبارہ نہیں مل سکے لیکن انہیں شکریہ کا پیغام ملا۔
شیرپا نے کہا، ”اس نے مجھے لکھا تم نے میری جان بچائی، تم میرے لیے خدا ہو“۔
نیپالی گائیڈز، عام طور پر ایورسٹ کے آس پاس کی وادیوں سے تعلق رکھنے والے نسلی شیرپا ہوتے ہیں، اور کوہ پیمائی کی صنعت کی ریڑھ کی ہڈی سمجھے جاتے ہیں۔ یہ سامان اور خوراک لے جانے، رسیاں ٹھیک کرنے اور سیڑھیوں کی مرمت کے لیے بڑے خطرات برداشت کرتے ہیں۔
شیرپا کی دو ہفتے قبل بچاؤ کی ویڈیو کو ان کے انسٹاگرام پر 35,000 سے زیادہ بار پسند کیا گیا ہے اور سوشل میڈیا پر بڑے پیمانے پر شیئر کیا گیا ہے، بہت سے لوگوں نے ان کے بے لوث فیصلے کی تعریف کی۔
نیپال نیشنل ماؤنٹین گائیڈ ایسوسی ایشن کے صدر اینگ نوربو شیرپا نے کہا، ”ایک رہنما کے طور پر آپ پہاڑ پر دوسروں کے لیے ذمہ داری کا احساس محسوس کرتے ہیں اور آپ کو سخت فیصلے کرنے پڑتے ہیں۔“
”اس نے جو کیا ہے وہ قابل تعریف ہے۔“
نیپال نے اس سیزن میں غیر ملکی کوہ پیماؤں کو ایورسٹ کے لیے ریکارڈ 478 اجازت نامے جاری کیے اور تقریباً 600 کوہ پیما اور رہنما چوٹی پر پہنچے۔
اس سیزن میں اب تک بارہ کوہ پیماؤں کی ہلاکت کی تصدیق ہو چکی ہے اور پانچ مزید لاپتہ ہیں۔
گیلجے شیرپا چھ بار دنیا کے بلند ترین مقام پر پہنچ چکے ہیں اور انہیں اُس دن واپس پلٹنے کے اپنے فیصلے پر افسوس نہیں۔
انہوں نے کہا کہ لوگ صرف سمٹ پر توجہ مرکوز کرتے ہیں لیکن ہر کوئی ایسا کر سکتا ہے۔ ”8000 میٹر سے زیادہ بلندی سے کسی کو لانا چوٹی پر چڑھنے سے کہیں زیادہ مشکل ہے۔“
Comments are closed on this story.