سوات: اہلکار کے بچیوں کو نشانہ بنانے کے پیچھے اصل حقائق کیا ہیں
سوات کے سنگوٹہ پبلک اسکول میں بچیوں کی وین پر پولیس اہلکار کی فائرنگ نے کئی سوالات کو جنم دے دیا۔
سوات میں ایک روز قبل پولیس اسٹیشن منگلور کی حدود میں واقع سنگوٹہ اسکول میں پولیس اہلکار کی فائرنگ سے ایک بچی جاں بحق اور ٹیچر سمیت سات طالبات زخمی ہوگئی تھیں۔
اسکول میں فائرنگ کرنے والے اہلکار کے بارے میں تاثر دیا جارہا ہے کہ وہ ذہنی مریض ہے لیکن یہ جاننا بھی بہت ضروری ہے کہ کیا واقعی طالبہ کی جان لینے والا کسی نفسیاتی الجھن کا شکار ہے یا معاملہ کچھ اور ہے!
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر پولیس اہلکار ذہنی مسائل کا شکار تھا تو معطلی کے بعد اسے دوبارہ ملازمت پر کس نے بحال کیا ؟
یہ سوال بھی ذہنوں میں ابھرتا ہے کہ اسکول انتظامیہ نے ایک ماہ قبل پولیس کانسٹیبل کو ہٹانے کی درخواست کی تھی تو اس پر عملدرآمد کیوں نہیں ہوا، اسکول انتظامیہ سمجھتی تھی کہ عالم خان ڈیوٹی کے لئے فٹ نہیں ہے ؟
ذرائع کے مطابق اس طرح کی کئی مثالیں موجود ہیں کہ محکمہ پولیس سے منشیات فروشی یا دیگر جرائم میں ملوث اہلکاروں کو برخاست کیا گیا مگر اعلیٰ افسران کے خصوصی احکامات پر متعلقہ اہلکار دوبارہ بحال کر دئیے گئے یا نئے بیلٹ نمبر سے دوبارہ بھرتی کئے گئے۔
منگل کو پیش آنے والے دلغراش واقعے کے بعد عوام یہ شکوہ کرتے نظر آتے ہیں کہ اس طرح کے پولیس اہلکاروں کی دوبارہ بحالی کی وجہ سے سنگوٹہ جیسے واقعات جنم لیتے ہیں۔
اسٹوڈنٹس کی وین پر فائرنگ کے بعد سامنے آنے والے سوالات نہایت اہم تھے اس لئے آج ڈیجیٹل نے ڈی پی او سوات شفیع اللہ گنڈا پور سے رابطہ کیا اور انکے سامنے یہ تمام سوالات رکھے جس پر انکا کہنا تھا کہ کانسٹیبل عالم سنگوٹہ پبلک اسکول میں تعینات تھا اچانک اس نے بچیوں کی وین پر فائرنگ کی جس سے طالبہ عائشہ جاں بحق اور دیگر بچیاں زخمی ہوئیں۔ فائرنگ سے زخمی ہونے والی دو بچیاں اب بھی اسپتال میں زیرعلاج ہیں۔
ڈی پی او سوات شفیع اللہ گنڈا پور کے مطابق کانسٹیبل کی پوری پروفائل دیکھی جا رہی ہے۔ انھیں دی گئی اب تک کی معلومات کے مطابق عالم خان اسپیشل پولیس فورس میں بھرتی ہوا۔ اس نے 2022 میں بونیر میں ٹریننگ اسکول میں تربیت حاصل کی اور پانچ ماہ سے سنگوٹہ پبلک اسکول میں تعینات تھا۔
شفیع اللہ نے مزید بتایا کہ ایک دفعہ اس کانسٹیبل کی معطلی اُس کے غیر حاضر رہنے کی وجہ سے ہوئی تھی تاہم موجودہ واقعے پر جے آئی ٹی بنائی گئی ہے جو مکمل تحقیقات کے بعد حقائق سامنے لائے گی۔
فائرنگ کرنے والے گرفتار پولیس اہلکار عالم خان پر فی الحال 320 ، 324 اور 427 کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے۔ اسکول کی طرف سے کانسٹبیل سے متعلق شکایات پر ڈی پی او نے بتایا کہ انھیں یا ان کے دفتر کو اس حوالے سے کوئی تحریری شکایت نہیں ملی۔
یاد رہے کہ کانسٹیبل سے متعلق یہ بات بھی سامنے آئی کہ اسے کام پر حاضر نہ ہونے پر ایک بار معطل کیا گیا اور پھر دوبارہ ڈیوٹی پر لگایا گیا۔ عالم خان کا تعلق اسلام پور سے ہے اور آج نیوز سے رابطہ کرنے والے ایک پڑوسی کے مطابق وہ اپنے والد سے لڑ کر گھر سے باہر چلا گیا تھا۔
دوسری طرف اسکول وین میں فائرنگ سے جاں بحق نرسری کی طالبہ 6 سالہ عائشہ کے چچا حیات علی نے آج نیوز کو بتایا کہ عینی شاہدین نے دیکھا کہ پولیس کانسٹیبل نے پورا میگزین بچیوں پر خالی کیا اور دوسرا میگزین لوڈ کرنے کی کوشش کے دوران عوام نے اسے پکڑ لیا۔ واضح رہے کہ ملزم نے اسکول وین پر سامنے سے فائرنگ کی جبکہ پولیس نے ابتدائی طور پر کہا تھا کہ کانسٹیبل نے غلطی سے فائرنگ کی۔
حیات علی نے عینی شاہدین کے حوالے سے مزید بتایا کہ اہلکار کی جانب سے پوری وین پر حملہ کیا گیا، جس سے ایسا لگا کہ اس نے تمام بچیوں کو مارنے کی کوشش کی ہے۔ واضح رہے کہ سوات میں بچیوں پر فائرنگ کا یہ پہلا واقعہ نہیں ہے اس طرح کا حملہ اس سے قبل بھی ہوچکا ہے۔
اہلکار کی فائرنگ سے جاں بحق بچی کے چچا نے انکشاف کیا کہ حملہ کرنے والے پولیس کانسٹیبل کا پہلے طالبان سے تعلق تھا جبکہ کچھ لوگ کہہ رہے ہیں کہ وہ طبی طور پر فٹ نہیں تھا۔ دونوں صورتوں میں ادارہ اس واقعے کا ذمہ دار ہے کہ ایسے لوگوں کو کیسے بھرتی کیا گیا۔
انھوں نے بتایا کہ اب طالب (طالبان) اور پولیس والوں میں تفریق مشکل ہوگئی ہے۔ ہمیں نہیں پتہ کہ وردی میں کس سوچ کا بندہ کھڑا ہے۔ جس پولیس اہلکار کا ماضی مشکوک ہو اسے بچیوں کے اسکول میں تعینات کرنا لمحہ فکریہ ہے۔
بچی کے چچا کے مطابق اب ہم سوچ رہے ہیں کہ بچیوں کو اسکول بھیجیں یا انھیں گھر پر بیٹھا لیں کیونکہ ہمیں اداروں پر اعتماد نہیں رہا۔ ادارے اپنی حفاظت نہیں کر پا رہے اور پھر ان کے اندر ایسے اہلکار ہیں تو کس پر یقین ہوگا۔
حیات علی نے حکمرانوں پر بھی عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے ممبران اسمبلی اور ڈی پی او دعا کرنے آجاتے ہیں ہمیں ان کی دعائیں نہیں عملی اقدامات چاہئیں۔اہلکار کی فائرنگ پر اہل علاقہ نے معاملہ جرگے کے اوپر چھوڑا ہے وہ جو فیصلہ کرے گا وہ تسلیم کریں گے۔
یاد رہے کہ حیات علی کے علاقے اور خاندان میں پہلے بھی کئی افراد سوات آپریشن میں جاں بحق ہو چکے ہیں اس لئے ان کے کئی سوال اور تحفظات ہیں جن کا جواب ضروری ہے۔ لیکن یہاں ایک اور نقطہ بھی بہت اہم ہے کہ کیا اداروں میں اب بھی ایسے لوگ موجود ہیں جو طالبان کی آئیڈیا لوجی پر یقین رکھتے ہیں؟
یہ بھی کہا جاتا ہے کہ سوات میں ایک موقع پر پولیس اہلکاروں کی قلت تھی کیونکہ طالبان کے خوف سے لوگ پولیس میں بھرتی ہونے سے ڈرتے تھے۔ اس وقت بھرتی کی ضرورتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے غالباً زیادہ چھان پین نہیں کی گئی۔ اس کے علاوہ اس بات پر لوگ لب کشائی کرنے سے ڈرتے ہیں کہ طالبان کی ذہنیت رکھنے والے افراد فورسز میں شامل ہوسکتے ہیں اور جس طرح ماضی میں خون بہایا گیا ان اہلکاروں کے دل میں انتقام کا جذبہ بھی ہوسکتا ہے۔
Comments are closed on this story.