Aaj News

اتوار, دسمبر 22, 2024  
20 Jumada Al-Akhirah 1446  

کراچی چڑیا گھر کو واقعی بند کردینا چاہیئے

نورجہاں تو چل بسی لیکن یہاں کسی بھی جانور کا کوئی پُرسان حال نہیں
شائع 12 مئ 2023 04:10pm
کراچی چڑیا گھر - تصویر/ سوشل میڈیا
کراچی چڑیا گھر - تصویر/ سوشل میڈیا

تحریر: فاریحہ سلیم، مہوش اقبال، مدحت زہرہ

گندے پانی میں تیرتی بطخیں، چلو بھر گندے پانی میں بیٹھے کچھوے، پنجرے میں قید مایوس بندر، جھلسانے والی دھوپ میں لوہے کے پنجرے میں سائے کی تلاش کرتا کالا بھالو آخر کیوں پریشان ہیں؟

17 سالہ ہتھنی نور جہاں کی ناساز طبعیت کا سن کر جب ہم کراچی چڑیا گھر پہنچے (یہ دورہ نورجہاں کے چل بسنے سے قبل کیا گیا تھا) تو ہم نے دیکھا کہ چڑیا گھر میں ہتھنی نور جہاں ہی نہیں بلکہ باقی جانوروں کا بھی کوئی خاص پر سان حال نہیں۔ تقریباً تما م جانورہی پریشانی سے دوچارنظر آئے ۔

کراچی چڑیا گھر میں اکثرجانوروں کا براحال ہے۔ انتظامیہ کی بے حسی اور لا پرواہی کی بدولت ہتھنی تو زندگی اور موت کی جنگ لڑتی نظرآئی لیکن دیگر بڑے جانور بھی خوراک اور پانی کی کمی کا شکار نظر آتے ہیں۔ شیر، بھالو، بندر، کچھوےاور مگرمچھوں کی حالت زار بہتر نہیں ہے، ان میں سے اکثر شدید خوراک کی کمی کا شکارنظر آرہے تھے۔

پچھلے دنوں، چڑیا گھر میں جانوروں کو خوراک مہیا کرنے والےٹھیکیدار نے انتظامیہ پرکرپشن کے الزام لگائے جس کےباعث جانوروں کو خوراک کی فراہمی متاثر ہوئی ہے۔ آج نیوز کے نمائندوں کی ایک ٹیم نے کراچی چڑیا گھر کا دورہ کیا اوراکثرجانوروں کی حالت زار دیکھ کرشدید تشویش کا شکار ہوئے۔

ہتھنی نورجہاں کی صحت سے متعلق بین الاقوامی تنظیم فور پازکی کاوشیں قابل تحسین رہیں مگر نورجہاں اس حالت تک کیسے پہنچی اور اس حالت کا ذمہ دار کون ہے؟ یہ تمام سوال حکومت وقت کے لیے لمحہ فکریہ ہیں۔

سحرغازی جو وائس ورلڈ نیوز کی ساوتھ ایشیاء ایڈیٹر ہیں، ان کے مطابق ایک افریقن ہاتھی کی عمر 70 سال ہوتی ہے جبکہ کراچی میں موجود ہتھنی نور جہاں کی عمر صرف 17 سال تھی۔

انتظامیہ کی واضح غفلت کے باعث کم عمر نور جہاں موت کےدوراہے پر کھڑی تھی، جو کچھ عرصہ پہلے نور جہاں اپنے پیروں پر چلنے سے قاصر ہونے کے بعد جانوروں کے حقوق کیلئے کام کرنے والی تنظیموں کی توجہ کا مرکز بن گئی۔ مگراسےمناسب طبی امداد مہیا کرنے میں بہت تاخیر ہوگئی تھی کیوں کہ پاکستان میں ہاتھی جیسے بڑے جانور کے علاج کے لیے کوئی طبی سہولت مہیا ہی نہیں۔ انتہائی اذیت اور تکلیف برداشت کرنے کے بعد آخرکار نور جہاں مستقل اُٹھنے سے بھی ہوئی اور پھر دُنیا سے ہی منہ موڑ لیا۔

آخر جانوروں کی خوراک اور دیکھ بھال کے لیے ملنے والے فنڈز کہاں جاتے ہیں؟ آخر کیوں کراچی کے چڑیا گھر کے جانور بے موت مر رہے ہیں۔ انتظامیہ اپنی غفلت کو چھپانے کے لیے ہر ممکن کوشش کر رہی ہے، جب ہم گئے تو نوبت یہاں تک آپہنچی تھی کہ ہتھنی نور جہاں کی خبر گوئی کے لیے میڈیا کا چڑیا گھر میں داخلہ بھی ممنوع قرار دیا جاچکا تھا۔ جب وہاں کے سیکیورٹی گارڈ سے ہتھنی کے متعلق دریافت کیا گیا تو اُن کے جواب میں بے حسی صاف نمایاں تھی۔

”ایک ہتھنی نہ ہوگئی پتا نہیں کیا ہوگیا، ایک ہتھنی نے پورا کراچی سر پر اُٹھا رکھا ہے۔“

چڑیا گھر میں جانوروں کو کھانے پینے کی اشیاء کے ساتھ ساتھ ماحولیاتی آلودگی کا بھی سامنا بھی کرنا پڑرہا ہے۔اس سے قبل بھی کراچی کے چڑیا گھر میں نمونیہ کے باعث سفید شیر اور اکیلے پن کے باعث زیبرہ بھی موت کی نیند سو چکے ہیں۔

جانوروں کی طبی امداد کے لیے بھی چڑیا گھر میں بنیادی سہولیات تک میسر نہیں۔ ہمارے خیال میں یہ مطالبہ جائز ہے کہ کراچی زو کو ختم کرکےوہاں سے تمام جانوروں کو منتقل کردیا جائے، بلکہ ملک میں موجود دیگر چڑیاگھروں کو بھی مرحلہ وار ختم کردینا چاہئیے ۔

karachi

Karachi Zoo

Noor Jehan

Four Paws

ELEPHANT NOOR JEHAN