’نریندر مودی کی جانب سے وزیراعظم شہباز شریف کو مدعو کیا جائے گا‘
بھارت کے سینئر صحافی پاکستانی وزیرخارجہ بلاول بھٹو زرداری کے دورہ بھارت کو خوش آئند قرار دے رہے ہیں۔ سوہاسنی حیدر اور مندرا نائیر کا کہنا ہے کہ گوا میں منعقدہ شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس میں وزیرخارجہ بلاول بھٹو زرداری کی شرکت سے مستقبل میں پاک بھارت دوطرفہ تعلقات کی راہیں کھل سکتی ہیں۔
شنگھائی تعاون تنظیم کی کوریج کے لئے بھارتی شہر گوا جانے والی آج نیوز کی سینئر اینکر پرسن منیزے جہانگیر نے پاکستان اور بھارت پر گہری نظر رکھنے والی سینئر صحافیوں بھارتی اخبار دی ہندو کی ڈپلومیٹک افیئر کی ایڈیٹر سوہاسنی حیدر اور دی ویک کی ڈپٹی بیورو چیف مندرا نائیر سے خصوصی بات چیت کی۔ جس میں پاک بھارت دوطرفہ تعلقات سمیت مقبوضہ کشمیر اور تجارت سمیت دیگر امور پر گفتگو کی گئی۔
منیزے جہانگیر نے سوہاسنی حیدر سے سوال کیا کہ بلاول بھٹو زرداری نے اپنے بیان میں کہا کہ ہمیں مل کر دہشت گردی کے مسئلے کو حل کرنا ہے نہ کہ دہشت گردی کے مسئلے کو ڈپلومیٹک پوئنٹ اسکورنگ کے طور پر استعمال کیا جائے۔ آپ یہ سمجھتی ہیں کہ بلاول نے ہندوستان کی طرف ایک اشارہ کیا ہے کہ دہشت گردی کو ایک مدعا کی طرح استعمال نہ کیا جائے کہ جس کے ذریعے پاکستان کے خلاف پروپیگنڈہ کیا جائے۔
سوہاسنی حیدر نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ میرے خیال میں بلاول کا جواب بھارتی وزیر خارجہ جے شنکر کے جواب میں تھا جو انھوں نے کراس بارڈر دہشت گردی سے متعلق دیا تھا اور کراس بارڈر دہشت گردی بھارت کے لئے واقعی ایک مسئلہ ہے اور بھارت کو اس پر تشویش ہے اور بھارتی وزیرخارجہ جے شنکر نے جو کہا ہے اور پچھلے کچھ ہفتوں سے وہ یہی کہتے آئے ہیں انھوں نے بین الاقوامی سطح پر بھی یہ کہا ہے کہ پاکستان کے سوا بھارت کے تمام پڑوسیوں کے ساتھ اچھے تعلقات ہیں لیکن پاکستان کے ساتھ ایک ہی مسئلہ ہے اور وہ کراس بارڈر دہشت گردی کا ہے۔
سوہاسنی کا مزید کہنا تھا کہ میرے خیال میں مسٹر بھٹو نے بھارتی وزیرخارجہ کے بیان کے رد عمل میں بیان دیا اور انھوں نے کہا کہ دہشت گردی کے مسئلے پر ڈپلومیٹک پوئنٹ اسکورنگ نہیں ہونی چاہیے اسے سیاسی طور پر استعمال نہیں ہونا چاہیے، لیکن دن کے آخر میں ایس سی او میں دہشت گردی کا مسئلہ ایک بہت اہم مدعا ہے ایس سی او دہشت گردی پر ہر سال ایک تقریر نکالتا ہے اور انڈیا اور پاکستان دونوں ایس سی او کے ریجنل انسداد دہشت گردی اسٹرکچر کے ممبرز ہیں ایک دوسرے کے ملکوں میں دہشت گردی کے مسئلے پر بات چیت کرتے ہیں تو میں نہیں سمجھتی کہ اس میں اتنی بڑی بات ہے کہ دونوں ممالک کے وزرائے خارجہ نے اس پر بات چیت کی۔
آج نیوز کی اینکر پرسن منیزے جہانگیر نے سوال کیا کہ بلاول بھٹو زرداری جب ہندوستان آئے تو ان کو پی ٹی آئی سے بڑی تنقید کا سامنا کرنا پڑا کہ وہ کیوں ہندوستان آئے کہ دنوں ممالک میں دوطرف تعلقات کی بات چیت بھی نہیں ہوئی تو مندرا جی آپ اسے کس طرح دیکھتی ہیں اور ہندوستان بلاول بھٹو کے دورے کو کیسا دیکھ رہا ہے کیا یہ بولڈ موو ہے آپ اسے سمجھتی ہیں کہ اس سے راہ ہموار ہوگی امن کے لئے ؟
مندرا نائیر نے جواب دیا کہ مجھے لگتا ہے کہ یہ ایک بہت اہم قدم ہے اگر آپ دیکھیں تاریخی طور پر تو کوئی پاکستانی وزیرخارجہ نہیں آیا تو میرے خیال میں اگر تاریخی طور پر دیکھیں تو کوئی موومنٹ ہوئی ہے پر اگر اسے دوطرفہ تعلقات کے تناظر میں دیکھیں تو اس حوالے سے آپس میں بات چیت نہیں ہوئی اب وہ اس فارمیٹ میں نہیں ہوسکتی تھی میرے خیال میں اور اگر آپ دیکھیں ڈومیسٹک طور پر بھی دونوں انڈیا اور پاکستان میں اس وقت کیونکہ دہشت گردی بہت بڑا مدعا ہے اور جیسے آپ نے دیکھا کہ ہمارے جو وزیرخارجہ تھے انھوں نے بھی اسی مسئلے کو اٹھایا جب تک اس کا (دہشت گردی کا) کوئی حل نہ نکل جائے دونوں ممالک کی آپس میں بات چیت نہیں ہوسکتی اور سوال اٹھتا ہے کہ پاکستان اور بھارتی کس طرح مسئلے کا حل نکالتے ہیں۔
منیزے جہانگیر نے سوال کیا کہ سوہاسنی صاحبہ آپ اس کو کس طرح دیکھتی ہیں کہ بلاول بھٹو زرداری بھارت آئے بہت بولڈ موو سمجھی جارہی ہے اور آپ دیکھ رہی ہیں کہ پاکستان تحریک انصاف بلاول پر تنقید کررہی ہے۔ ہندوستان کا میڈیا اور ہندوستان کی حکومت بلاول کے دورے کو کیسے دیکھے گی کیا اسے خوش آمدید کیا جائے گا یا نہیں۔
بھارت کی سینئر صحافی سوہاسنی نے جواب دیا کہ ’لگتا ہے کہ جولائی میں جب شنگھائی تعاون تنظیم کا سربراہ اجلاس ہوگا تو بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی جانب سے وزیراعظم شہباز شریف کو بھی مدعو کیا جائےگا۔ بھارت اور پاکستان بلاول کے دورہ ہندستان کا فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ اس دورے کے ذریعے سے دو طرفہ بات چیت کی طرف جایا جاسکتا ہے۔
Comments are closed on this story.