Aaj News

اتوار, نومبر 03, 2024  
01 Jumada Al-Awwal 1446  

چاہتا ہوں ”توہینِ پارلیمان“ کا قانون بھی پاس کیا جائے، اسپیکر قومی اسمبلی

یہ جوڈیشل مارشل لاء نہیں جوڈیشل مارشل لاء پلس ہے، راجہ پرویز اشرف کی پروگرام "فیصلہ آپ کا" میں خصوصی گفتگو
شائع 20 اپريل 2023 09:40pm
Exclusive interview of Raja Pervez Ashraf | Faisla Aap Ka with Asma Shirazi

قومی اسمبلی کے اسپیکر راجہ پرویز اشرف کا کہنا ہے کہ 50 سال گزرنے کے باوجود بھی پارلیمان اپنی بقاء کی جنگ لڑ رہی ہے، پارلیمان اپنےمقام کیلئے لڑ رہی ہے۔

آج نیوز کے پروگرام ”فیصہ آپ کا“ میں خصوصی گفتگو کرتے ہوئے راجہ پرویز اشرف نے کہا کہ مجھے یہ اعزاز حاصل ہے کہ میثاق جمہوریت کے جتنے معاملات تھے میں ان میں شامل تھا، اُس وقت میں پارلیمنٹیرینز کا سیکرٹری جنرل تھا۔ اُس وقت ایک احساس نے جنم لیا کہ اگر ہم نے معاملات چلانے ہیں تو ہمیں اپنے آئین، اپنی جمہوریت اور اپنی پارلیمان کی حفاظت کرنی ہوگی۔

اسپیکر قومی اسمبلی نے کہا، یہ کوئی طریقہ نہیں کہ کوئی جماعت اگر اپوزیشن میں ہے تو تعمیری اپوزیشن کرنے کے بجائے اس میں پڑ جائے اور کہے کہ میں آپ کو نہیں رہنے دوں گا اور ہر روز ایسے ایشو کھڑے کرے کہ حکومت وقت اپنی پوری توجہ اپنے کام سے ہٹا لے۔

کیا اسٹبلشمبنٹ کے علاوہ آئین کو خطرات موجود ہیں؟ اس سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ آپ نے سنا ہوگا پارلیمان تمام اداروں کی ماں ہے، یہیں سے تمام ادارے اپنی قوت حاصل کرتے ہیں، یہی وہ ماں ہے جو سب کو ان کے حصے کی چیز بانٹ کر دیتی ہے، ان کو اختیارات تفویض کرتی ہے۔ اگر آپ اس ماں کو ہی بے عزت کرنا شروع کردیں، اس کے اختیارات کو چیلنج کرنا شروع کردیں، پھر تو سارا معاملہ ہی دھڑام سے گر جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ پارلیمان 23 کروڑ عوام کے جذبات اور احساسات کی عکاسی کرتا ہے۔ ایک قانون ابھی پاس بھی نہیں ہوا، اس نے سارے مراحل طے ہی نہیں کئے اس پر عدالت کہہ دے کہ اس پر اسٹے کرتے ہیں، اسٹرائک ڈاؤن کرتے ہیں، اور ایسے سخت الفاظ ہوں کہ اس کو صدر قبول کریں یا نہ کریں یہ قانون نہیں بنے گا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ پارلیمان کو اگر کوئی قانون سازی کرنی ہے تو کیا پہلے وہ اجازت کیلئے عدالت کے پاس جائے گی؟

انہوں نے سوال اٹھایا کہ اگر ایسی بات ہے تو پارلیمان کی خودمختاری کدھر گئی؟ پھر اس کا مقتدر ہونا کہاں گیا؟ پھر اس کی اداروں کی ماں ہونے کی حیثیت کہاں گئی؟

راجہ پرویز اشرف نے کہا کہ اس لئے یہ بات بالکل سچ ثابت ہو رہی ہے کہ آج بھی ہم اپنی بقاء کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ اگر پارلیمان کی عزت نہیں ہوگی تو کسی ادارے کی عزت قائم نہیں رہ سکے گی۔

ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ اسٹبلشمنٹ سمجھ گئی ہے کہ اگر دخل دیتے ہیں تو اس میں اسٹبلشمنٹ کا بھی نقصان ہوتا ہے اور سیاست کا بھی نقصان ہوتا ہے۔ ’اسی طرح اب اگر عدالت جو ہے وہ پارلیمان کی راہ میں کوئی روڑے اٹکائے گی اور اس کے راستے میں آئے گی، یا کوئی ایسا سسٹم جو نہیں کرنا چاہئیے اس سے سرزد ہوگا نوئنگلی یا ان نوئنگلی، دانستہ یا نادانستہ تو نقصان تو پورے ملک کا ہوگا‘۔

انہوں نے کہا کہ جس ملک کی پارلیمنٹ کمزور ہو وہ ملک طاقت ور ہوہی نہیں سکتا۔

سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون کا کیا مستقبل ہے؟

اس سوال کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ قانون سازی کا ایک طریقہ ہے، قومی اسمبلی بل کو سینیٹ کے پاس بھیجتی ہے، وہاں سے پاس ہونے کے بعد وہ صدر مملکت کے پاس جاتا ہے، صدر اسے مخصوص مدت تک روک سکتے ہیں یا واپس کردیتے ہیں، واپسی کی صورت میں جوائنٹ سیشن ہوتے ہیں جس میں سینیٹ اور قومی اسمبلی مل کر غور کرتے ہیں، وہ دوبارہ پاس کرتے ہیں تو دوبارہ صدر مملکت کے باس چلا جاتا ہے، اگر صدر مملکت دوبارہ اس کو روکتے ہیں تو ایک مخصوص مدت کے بعد وہ قانون بن جاتا ہے۔ یہ ہے صحیح طریقہ، اس کے علاوہ جو بھی طریقہ ہوگا وہ زیادتی کے ضمرے میں آئے گا۔

جس پر پروگرام کی میزبان عاصمہ شیرازی نے کہا کہ اس کا مطلب ہے کل یہ قانون بن جائے گا کیونکہ یہ دن پورے ہوجائیں گے۔

اسپیکر قومی اسمبلی نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ لیکن سپریم کورٹ اب کسی بھی وجہ سے سوموٹو لے کہ یہ جو قانون بنا ہے یا پاس ہوا ہے اسے روک دیا جائے تو پھر آپ پارلیمان سے اس کا جو قانون سازی کا حق، اختیار اور جو اس کا فرض ہے وہ چھیننے کی کوشش کر رہے ہیں۔

عاصمہ شیرازی نے پوچھا کہ تو کیا یہ جوڈیشل مارشل لاء ہے؟

جس پر انہوں نے کہا کہ ’اس کو آپ جوڈیشل مارشل لاء نہیں جوڈیشل مارشل لاء پلس کہیں‘۔ یہ تو اس سے زیادہ خوفناک چیز ہے۔ اگر کوئی قانون آئین یا اسلامی قوانین سے متصادم ہو تو آپ اسے اسٹرائیک ڈاؤن کر سکتے ہیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ جہاں تک قانون سازی کا تعلق ہے تو یہ قانون بن گیا ہے، اب اگر سپریم کورٹ کہتا ہے کہ یہ قانون نہیں بنا تو ’وہ میں نافذ العمل نہیں ہونے دوں گا‘۔

راجہ پرویز اشرف کہتے ہیں کہ ہم نے یہ نہیں کہا تمام سولہ سترہ ججز بیٹھیں، ہم نے کہاں کہ تین ججز بیٹھ جائیں اور وہ اس سوموٹو کا فیصلہ کرلیں۔

انہوں نے کہا کہ آپ نو ججز سے شروع کرتے ہیں، اس میں سے دو چلے جاتے ہیں سات بچتے ہیں، آپ سماعت جاری رکھتے ہیں، ان سات سے پھر دو چلے جاتے ہیں پانچ رہ جاتے ہیں آپ جاری رکھتے ہیں، پانچ میں سے پھر تین چلے جاتے ہیں آپ دو کے ساتھ سماعت جاری رکھتے ہیں۔ یہ اسی طرح ہے کہ فرض کریں وزیراعظم کابینہ کو بلاتا ہے کسی فیصلے کیلئے، اور کابینہ کے سارے ممبرز اٹھ کر چلے جائیں اور صرف ایک یا دو رہ جائیں اور وہ ان کے ساتھ فیصلہ کرلیں تو کیا اس کو آپ کابینہ کا فیصلہ مان لیں گے؟

ان کا کہنا تھا کہ میں تعریف کرتا ہوں کہ چیف جسٹس نے کہا آپ لوگ آپس میں بیٹھ کر فیصلہ کرلیں، تکنیکی طور پر وہ یہ بات نہیں کرسکتے، یہ ان کا کام نہیں ہے، یہ کام سیاستدانوں کا ہے، یہ کام پارلیمان کا ہے، ہمیں کرنا چاہئیے تھا، ہم نے کیوں نہیں کیا، ہمیں بیٹھنا چاہئیے۔ ہم اپنا کیس لے کر عدالت چلے گئے، ہم نے خود اپنی داڑھی دوسرے کے حوالے کردی۔

اسپیکر قومی اسمبلی نے کہا کہ 14 مئی تک کیا بیلٹ پیپر کی چھپائی اور ترسیل ہوجائے گی؟ آپ خود ایسا ٹارگٹ دے رہے ہیں کہ فیصلے پر عمل ہی نہ ہوسکے۔

ایک موقع پر انہوں نے کہا کہ موجودہ صورتحال میں الیکشن میں جانا خون خرابے کا باعث بن سکتا ہے۔

ایک اور سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ اکتوبر سے آگے انتخابات لے جانا بہت بری بات ہوگی بلکہ نقصاندہ ہوگا، لیکن قسطوں میں انتخابات کروانا بہت خطرناک بات ہوگی۔ کشمیر اور گلگت بلتستان والوں کا ہمیشہ یہ مطالبہ رہا ہے کہ ہمارے الیکشن بھی پاکستان کے ساتھ کرائیں۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ سب کو آخر تسلیم کرنا پڑے گا کہ بغیر پارلیمان کی سربلندی اور توقیر اور اسے بغیر عزت دئے کوئی بھی عزت والا نہیں رہ سکتا، کسی کی پھر عزت نہیں ہوگی۔ سب کی عزت ہو تو اس کا ایک ہی طریقہ ہے کہ اپنی پارلیمان کی عزت کریں۔

انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ بھی ہمارا ہی ہے، کیا سپریم کورٹ کی پارلیمنٹ نہیں ہے؟ اگر پالیمنٹ نہ ہو تو آپ کے پاس قانون کہاں سے آئے گا؟

اسپیکر قومی اسمبلی راجہ پرویز اشرف نے کہا کہ ’میں اب چاہتا ہوں کہ پارلیمان جو ہے، یہ پارلیمان یا آنے والی پارلیمان وہ کنٹیمپٹ آف پارلیمان (توہینِ پارلیمان) کا قانون بھی پاس کرے۔ اگر کنٹیمپٹ آف کورٹ ہے تو کنٹیمپٹ آف پارلیمان کیوں نہیں ہے جو مدر آف انسٹیٹیوشنز ہے، اس کا کنٹیمپٹ بھی ہے، اس کی عزت بھی ہے اس کی بھی توقیر ہے، تو جب تک ہم یہ نہیں کریں گے تو بالکل میں کھلے الفاظ میں کہتا ہوں کہ ہم پاکستان میں استحکام نہیں لاسکیں گے۔‘

speaker national assembly

Raja Pervaiz Ashraf

Supreme court practice and procedures bill

Politics April 20 2023

Contempt of parliament bill