متنازع الیکشن کوئی تسلیم نہیں کرے گا، فل کورٹ بنایا جائے، ثالث کا مشورہ
حکومت اور پی ٹی آئی کے درمیان ثالث کا کردار ادا کرنے والے امیر جماعت اسلامی سراج الحق کا کہنا ہے کہ وزیراعظم ہوں، صدر مملکت ہوں یا عمران خان، ایک چیز پر سب کا اتفاق ہے کہ حالات بہت خراب ہیں۔ ان خراب حالات کو کیسے درست کرنا ہے اس پر ہمیں غور کرنا ہے۔
آج نیوز کے پروگرام ”فیصلہ آپ کا“ میں گفتگو کرتے ہوئے سراج الحق نے کہا کہ میں دونوں (عمران خان اور شہباز شریف) سے ملا ہوں اور دونوں سے یہی بات کی ہے کہ اصل وارث اس ملک کا 23 کروڑ عوام ہے۔ اب یہ بات ثابت ہوگئی ہے کہ سیاسی مسائل نہ عدلیہ حل کرسکتی ہے نہ اسٹبلشمنٹ، راستہ ایک ہی ہے کہ ہم سیاست دان آپس میں مل بیٹھیں۔ نظریات، پروگرام، منشور ہر پارٹی کا اپنا اپنا، لیکن ایک چیز ہم سب کی مشترکہ ہے اور وہ ہے الیکشن۔
انہوں نے کہا کہ ’اب الیکشن بھی اگر متنازع ہوجائے، تو اگر آپ ایک گاڑی میں بیٹھیں، کوئی سواری اس کو مشرق کی طرف کوئی مغرب کی طرف دوڑانا چاہے تو اس کا انجام کیا ہوگا۔ اس لئے الیکشن کیسے ہو کب ہو، آپ نے کرکٹ بھی کھیلنا ہے تو گراؤنڈ کا فیصلہ ڈیٹ (تاریخ) کا فیصلہ بھی تو کرنا ہے تو ملک اس ایک تاریخ کا تعین کرلیں۔‘
سراج الحق نے کہا کہ اگر ایک الیکشن وقت سے پہلے ہی متنازع ہوجائے، تو 21 ارب روپے آپ کا اس پر خرچ ہورہا ہے پنجاب کا اور نتیجہ کچھ نہیں نکلے گا اور اسے کوئی تسلیم نہیں کرے گا۔ پھر 21 ارب روپیہ خرچ ہو خیبر پختونخوا کا، پھر مزید 21 ارب روپے۔ اس طرح مجموعی طور پر آپ کے الیکشن پر 71 ارب خرچ ہوں گے اور اس کے بعد خانہ جنگی اور فساد۔
انہوں نے سوال اٹھایا کہ اس ملک کا آپ نے کیا کرنا ہے ، شام بنانا ہے، عراق بنانا ہے؟
امیر جماعت اسلامی نے کہا کہ پہلے زمانے میں اس طرح کا کوئی مسئلہ ہوتا تو امریکہ، سعودی عرب اور باہر کی دنیا آکر ہمارے درمیان بیچ بچاؤ کرتے، اب وہ دلچسپی ختم ہے۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی کی حکومت میں باجوہ صاحب نے آل پارٹیز کانفرنس بلائی، ’انہوں نے کہا کہ جہاں آپ لوگ آپس میں نہیں بیٹھتے ہیں، تو خالی جگہ پھر ہم پُر کر لیتے ہیں۔ اگر اِس وقت بھی سیاست دان آپس میں نہ بیٹھے تو آپ میری بات لکھ لیجئے کہ اس خلا کو پھر وہی لوگ پورا کریں گے۔ کوئی ایمرجنسی ہو یا مارشل لاء ہو۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ آپ نے عدلیہ کو اس پوزیشن میں لا کھڑا کیا ہے کہ آپس میں خود بدست جنگ ہیں اور ججز بمقابلہ ججز ہیں۔ اب تو لوگ بینچ یا کمیٹی دیکھ کر فیصلہ بتا دیتے ہیں۔ اس ابنارملٹی سے ہم نے ملک کو نکالنا ہے۔ اس لئے میں وزیر اعظم کے پاس بھی گیا اور عمران خان صاحب کے پاس بھی گیا۔ یہ بات خوش آئند اور حوصلہ افزا ہے کہ دونوں اس بات کا ادراک بھی رکھتے تھے اور ان کے ساتھی بھی اس پر متفق تھے کہ راستہ تو اسی سے نکلے گا۔
انہوں نے فریقین کی جانب سے کمیٹیان بنانے پر ان کا شکریہ بھی ادا کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم دیگر رہنماؤں سے بھی رابطے ہیں اور کوشش کر رہے ہیں کہ الیکشن کے معاملے پر ایک اتفاق رائے پیدا ہو۔ ہمیں دونوں کے مؤقف کے بیچ کا راستہ ڈھونڈنا ہے۔
ایک اور سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ عمران خان نے کوئی شرط نہیں رکھی ہے کہ ، ’پہلے میرا یہ کیس حل ہو، پہلے میرا یہ پرابلم حل ہو اس کے بعد‘۔ میں اس کو ایک مثبت چیز سمجھتا ہوں۔
سراج الحق کا مزید کہنا تھا کہ اس لڑائی کا نقصان سیاسی لیڈروں کو نہیں ہے، یہ خوشحال زندگی گزارتے ہیں۔ مسئلہ غریب عوام کا ہے، معیشت کا بیڑہ غرق ہوگیا۔ عید کے بعد ہم اتفاق پیدا نہیں کرپاتے تو ان مشکلات میں مزید اضافہ ہوگا۔
امیر جماعت اسلامی نے کہا کہ چیف جسٹس کے پاس ایک راستہ موجود ہے کہ وہ بڑے پن کا مظاہرہ کریں، سب لوگ ان کا احترام کرتے ہیں، اس مسئلے پر اب بھی چھوٹے بینچ میں بات کرنے کے بجائے فل کورٹ بٹھا دیں جس میں سترہ کے سترہ ججز شامل ہوں۔ یہ بوچھ انہوں نے خود اپنے کندھوں پر لیا ہے۔ لوگوں کا خیال تھا الیکشن کا معاملہ سپریم کورٹ میں گیا ہے تو معاملہ حل ہوگا لیکن اب مزید بات الجھ گئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم سب کے ساتھ رابطے میں ہیں، اسٹبلشمنٹ کے ساتھ رابطہ نہیں ہے، ہم چاہتے ہیں کہ اسٹبلشمنٹ، عدلیہ اور الیکشن کمیشن غیرجانبدار رہیں۔ یہ تین ادارے غیر جانبدار رہیں تو قوم پر ان کا بہت بڑا احسان ہوگا۔
Comments are closed on this story.