Aaj News

ہفتہ, نومبر 23, 2024  
20 Jumada Al-Awwal 1446  

ٹرولز کیسے کام کرتے ہیں اور پاکستانی سیاست کیلئے خطرناک کیوں

کیا آپ کا دماغ ٹرولز کے پاس یرغمال ہے
شائع 16 اپريل 2023 01:04pm
Artwork Obair Khan/Aaj News
Artwork Obair Khan/Aaj News

سوشل میڈیا پر کسی کو ٹرول کرنا یعنی اس کے بارے میں جان بوجھ کر توہین آمیز جملے کہنا اب عام بات ہے۔ لیکن کیا آپ جانتے ہیں کہ یہ پروپیگنڈے کا ایک مؤثر ہتھیار بھی ہے۔ ایک ایسا ہتھیار جو آپ کو بیمار بھی کر سکتا ہے۔ یہ ہتھیار اتنا خطرناک ہے کہ امریکہ میں اسے انتخابی مداخلت قرار دیا گیا اور اس سے نمٹنے کیلئے بھرپور سرکاری مہم چلائی گئی۔

اگرآپ سوشل میڈیا استعمال کرتے ہیں اور چڑچڑے پن کا شکار ہیں تو عین ممکن ہیں کہ آپ اس ہتھیار کا ہدف بن چکے ہیں۔

اور اگر آپ سوشل میڈیا استعمال کرتے ہوئے وہ سب کچھ کر رہے ہیں جو نیچے بیان کیا گیا ہے تو آپ بھی ٹرول ہیں، یہ الگ بات ہے کہ آپ کو اس کا احساس نہ ہو۔

پاکستان میں آئین کے تحت انتخابات اسی برس ہونے ہیں۔ ملک کا سیاسی درجہ حرارت پہلے ہی بڑھ چکا ہے اور اس میں ایک بڑا حصہ سوشل میڈیا کا بھی ہے۔ ایسے میں ٹرولنگ کے ذریعے سیاسی جماعتیں نہ صرف مخالفین کو نشانہ بنا رہی ہیں بلکہ یہ ممکنہ طور پر ووٹرز کو گمراہ بھی کر سکتی ہیں۔

ٹرولنگ یعنی ایک خاص مقصد کے تحت دوسروں کی تضحیک کرنے والوں کو ٹرولز (Trolls) کہا جاتا ہے۔

بادی النظر میں ان کے پیغامات غیرسنجیدہ اور ناقابل اعتبار مواد پر مبنی معلوم ہوتے ہیں، اور ہوسکتا ہے کہ آپ کے ذہن میں خیال آئے کہ ایسے سفید جھوٹ پر کوئی کیونکر یقین کرے گا۔ لیکن ٹرولز اس طریقے سے کام کرتے ہیں کہ ان کا سفید جھوٹ سچ کو پچھاڑ دیتا ہے۔

بظاہر غیرسنجیدہ دکھائی دینے والے ٹرولز کیونکر اتنے مؤثر ہیں، وہ کیسے کام کرتے ہیں؟ اور ان سے کیسے بچا جاسکتا؟ ان سوالوں کے جواب جاننا اس وقت ہر پاکستانی کے لیے اہم ہے۔

مغرب کو اس مسئلے کا سامنا کئی برس قبل کرنا پڑا اور وہاں پر اس حوالے سے تحقیق ہوچکی ہے۔ سیاسی رائے عامہ بدلنے والے گروپوں کو ٹرول فیکٹریز یا ٹرول فارمز کا نام دیا گیا ہے۔

فن لینڈ ک کی براڈ کاسٹنگ کمپنی ”Yle“ نے ٹرول فیکٹری کے نام سے ایک گیم تیار کی جس میں لوگوں کو عملی طور پر دکھایا گیا کہ ٹرولز کیسے کام کرتے ہیں۔ یہ گیم اصل دنیا سے لیے گئے مواد پر بنائی گئی جو اسلام مخالف ہے۔ اسی بنا پر مذکورہ گیم کا لنک یہاں شامل نہیں کیا جا رہا۔

گالی دینا شوق نہیں حکمت عملی

 Artwork Obair Khan/Aaj News
Artwork Obair Khan/Aaj News

ٹرولز کی جانب سے ہتک آمیز الفاظ کا استعمال اس لیے نہیں کیا جاتا کہ ان کی اخلاقی تربیت میں کوئی کمی ہے۔ بلکہ یہ ٹرولنگ کا ایک بہت ہی اہم حربہ ہے۔

ٹرولنگ کی پہلی شرط یہ ہے کہ آپ کا پہلا پیغام ہی ایسے اشتعال انگیز الفاظ پر مبنی ہونا چاہیے جس سے یا تو مخالفین کو آگ لگ جائے یا پھر آپ کے حامی جذبات سے تڑپ اٹھیں۔

مثال کے طور پر مخالفین کو جانوروں سے تشبیہ دینا، انہیں بدترین القابات اور گالیوں سے نوازنا، یا پھر حامیوں پر ہونے والے ”مظالم“ کو جذباتی انداز میں بڑھا چڑھا کر پیش کرنا۔

گالم گلوچ یا جذبات سے بھرا پیغام آپ کی ٹویٹس کو پھیلانے میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔

گالیوں، ہتک آمیز جملوں یا دوسرے جذباتی پیغامات پر لوگ ردعمل ظاہر کرتے ہیں۔ یہ ردعمل کمنٹ کی صورت میں ہوتا ہے۔ کسی بھی پوسٹ یا ٹویٹ پر جتنے کمنٹ ہوں گے اس کی رسائی یا Reach اتنی ہی بڑھتی جائے گی۔ اس طرح مخالفین کا ری ایکشن بھی پوسٹ کو پھیلانے میں معاون ثابت ہوتا ہے۔

فرض کریں آپ کے سیاسی یا مذہبی نظریے کے مخالف نے آپ کے گروپ کو گالی دی۔ آپ نے اس کی پوسٹ کے جواب میں اسے گالی دی تو یہاں آپ اپنا نقصان کر رہے ہیں۔ آپ اس کی پوسٹ کی رسائی بڑھا رہے ہیں۔

اشتعال انگیز اور جذباتی پیغامات کا فائدہ یہ ہے کہ غصے کی وجہ سے لوگ سوچنے سمجھنے سے قاصر ہو جاتے ہیں۔ وہ فوری طور پر ردعمل دینا چاہتے ہیں۔

کچھ لوگ غلط رویے کی اصلاح کرنے سے کیلئے کمنٹ کرتے ہیں۔ اس سے بھی پوسٹیں پھیلتی ہیں۔

سن 2012 میں اسلام مخالف ایک فلم The Innocence of Muslims کا ٹریلر یوٹیوب پر تیزی سے پھیلا۔ ماہرین کے مطابق اس کے پھیلنے کی وجہ یہ تھی مسلمان اس پر ردعمل ظاہر کر رہے تھے۔

سبق: کبھی جذباتی مواد پر ردعمل پوسٹ نہ کریں۔ اگر آپ کو تردید یا وضاحت کرنی ہی ہے تو اس پوسٹ کا اسکرین شاٹ لے لیں۔ اکاؤنٹ کا نام مکمل یا جزوی طور پر چھپا دیں اور پھر ردعمل لکھیں۔

ٹیم میں کام کرنا لازم

Photo: depo.ua
ٹرولنگ پر یورپ میں ہونے والی تحقیق کے مطابق ٹرولز گروپوں کی صورت میں کام کرتے ہیں لیکن دنیا پر یہی ظاہر کیا جاتا ہے کہ وہ اپنی انفرادی رائے کا اظہار کر رہے ہیں۔

عام طور پر ٹرولنگ نیٹ ورکس میں ایک یا متعدد ہینڈلرز ہوتے ہیں جو لوگوں کو ہدایات جاری کرتے ہیں۔ یہ ہدایات مشورے یا رہنمائی کی صورت میں بھی ہوتی ہیں۔

ہینڈلرز طے کرتے ہیں کہ کس موضوع کو اٹھایا جائے گا اور کیا مخصوص الفاظ یا کی ورڈ استعمال کیے جائیں گے۔ اکثر اوقات مخالفین کیلئے ہتک آمیز القابات کو کی ورڈز بنایا جاتا ہے۔

ٹرولز کو ہینڈلرز سے ملنے والی ہدایات کا ایک ہی مقصد ہوتا ہے کہ ایسا مواد سوشل میڈیا پر پوسٹ کیا جائے جس سے لوگ بداعتمادی اور خوف کا شکار ہو جائیں۔

ہینڈلرز کا ایک اور اہم کردار یہ ہے کہ وہ اپنے کارندوں کو پوسٹیں پھیلانے کیلئے رقم فراہم کرتے ہیں۔ ٹوئٹر پر آپ 500 ڈالر ادا کریں تو آپ کی ٹوئیٹ پانچ دن تک یومیہ 70 ہزار افراد تک پہنچتی ہے۔ یہ پانچ سو ڈالر کی رقم اکثر ہینڈلرز کی طرف سے آتی ہے۔ اس کے علاوہ باٹس کے استعمال میں بھی ہینڈلرز مدد دیتے ہیں۔

سبق: اگر آپ کسی کی رہنمائی میں سوشل میڈیا پوسٹیں لکھ رہے ہیں تو آپ جانے انجانے میں ٹرولنگ نیٹ ورک کا حصہ بن چکے ہیں۔

فالوورز میں تیزی سے اضافہ

جب کوئی سوشل میڈیا صارف جذباتی یا اشتعال انگیز مواد شائع کرکے ٹرولنگ میں شامل ہوتا ہے تو اسے پہلا احساس یہ ہوتا ہے کہ اس کے فالوورز کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔

فالوورز کی تعداد بڑھنے کی دو وجوہات ہوتی ہیں۔ اول، حقیقی طور پر لوگ فالو کرنا شروع کرتےہیں۔ دوم، ٹرولنگ نیٹ ورک کی جانب سے ایک منظم طریقے سے فالوورز کی تعداد بڑھائی جاتی ہے اور یہ بنیادی وجہ ہوتی ہے۔ انٹرنیٹ پر ٹرینڈز میپ جیسے کئی ٹولز ہیں جن کی بدولت آپ یہ جان سکتے ہیں کہ آیا کسی ٹوئٹر اکاؤنٹ کے فالوورز کی تعداد تیزی سے بڑھی ہے۔

سوشل میڈیا پر لائیکس اور فالوورز بڑھنے کو نئے ٹرول اپنے لیے انعام کے طور پر دیکھتے ہیں اور اگلے مشن کے لیے تیار ہو جاتے ہیں۔ بعض کو احساس بھی نہیں ہوتا کہ وہ ٹرولنگ نیٹ ورک کا حصہ بن چکے ہیں۔

سبق: اگر آپ فالوورز حاصل کرنے کیلئے ایک خاص قسم کی پوسٹیں لکھنا شروع ہو چکے ہیں تو یہ خطرے کی علامت ہے۔ آپ کی اپنی رائے پیچھے رہ چکی ہے اور آپ بہاؤ کا شکار ہوچکے ہیں۔

فیک نیوز: سچ میں جھوٹ کی ملاوٹ

 Buzzfeed
Buzzfeed

پرانے وقتوں میں کہتے تھے کہ جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے۔ نئے وقتوں میں جھوٹ کے پاؤں کی تو خبر نہیں لیکن پہیے ضرور ہوتے ہیں۔

جیسے اشتعال انگیزی اور گالم گلوچ پر مبنی پوسٹیں تیزی سے پھیلتی ہیں ویسے ہی جھوٹ کو مقبولیت حاصل ہوتی ہے خاص طور پر اس وقت جب اس جھوٹ میں سچ کا تڑکا لگا ہو۔

چار برس قبل پیرس کے شہر فرانس کے معروف نوٹرے ڈیم کیتھڈرل میں آگ لگ گئی۔ اس تاریخی چرچ میں لگنے والی آگ کی خبریں دنیا بھر میں نشر ہوئیں۔

اسلام مخالف ٹرولز نے موقعے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ان خبروں میں یہ دعویٰ شامل کردیا کہ آگ مسلمانوں نے لگائی تھی۔

ٹرولز نے فاکس نیوز اور سی این این کے ناموں سے جعلی ٹوئیٹر اکاؤنٹس بنائے اور وہاں سے یہ خبریں پھیلانے کا آغاز ہوا۔ ان اکاؤنٹس نے مشہور شخصیات کی جعلی ٹوئیٹس بھی اسکرین شاٹس کی صورت میں پھیلائیں۔ امریکی ویب سائیٹ بز فیڈ نے اس کی تفصیل یہاں بیان کی ہے۔

ٹرولز صرف جعلی اکاؤنٹس ہی نہیں بناتے بلکہ مشہور جرائد اور تنظیموں کے ناموں سے ملتی جلتی ویب سائیٹیں بھی بنا لیتے ہیں۔ آپ کو چند برس قبل سامنے آنے والا اسکینڈل یاد ہوگا۔ جب ای یو ڈس انفو لیب نے بھارت کی جانب سے چلائی جانے والی جعلی ویب سائٹس کا نیٹ ورک بے نقاب کیا تھا۔

یہ نیوز ویب سائیٹس، این جی اوز، تھنک ٹینکس اور جعلی سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر مبنی ایک بڑا نیٹ ورک تھا تاہم یہ تمام جھوٹ پر مبنی تھے اور ان کا مقصد پاکستان کیخلاف پروپیگنڈہ کرنا تھا۔

ان جعلسازوں کا ایک اہم حربہ معروف خبر رساں اداروں اور انسانی حقوق کی تنظیموں کے ناموں سے ملتے جلتے نام استعمال کرنا ہے۔ تاکہ ملتے جلتے ناموں سے عام آدمی کو دھوکا دیا جا سکے۔

سبق: انٹرنیٹ پر کسی بھی نیوز ویب سائیٹ، انسانی حقوق کی تنظیم کے نام اور یو آر ایل کے حوالے سے جانچ کر لیں کہ آپ اصل ویب سائیٹ پر موجود مواد پڑھ رہے ہیں۔

تصاویر کا استعمال

 نائن الیون کے بعد یہ میم وائرل ہوئی
نائن الیون کے بعد یہ میم وائرل ہوئی

کہتے ہی تصویر ایک ہزار الفاظ کے برابر ہوتی ہے۔ انٹرنیٹ کی آمد کے بعد میمز کا دور آیا تو لوگوں کو ایک اچھی تصویر میسر آئی لیکن ٹرولز نے اسے بھی ہتھیار بنا لیا ہے۔

میمز وہ تصاویر، ویڈیو یا جملے ہیں جنہیں کسی کیپشن یا الفاظ کے ساتھ انٹرنیٹ پر پیش کیا جاتا ہے اور یہ تیزی سے پھیلنا شروع ہو جاتی ہیں۔

ٹرولنگ سے ہٹ کر میمز صرف مزاح کے لیے استعمال ہوتی ہیں۔ لیکن ٹرولنگ کی دنیا میں انہیں عام طور پر جھوٹ پھیلانے کیلئے استعمال کیا جاتا ہے۔

فن لینڈ کے ماہرین کے مطابق جہاں ٹرولز کو ان کے ہینڈلر کی جانب سے پہلا ٹاسک اشتعال انگیزی پر مبنی پیغام لکھنے کا دیا جاتا ہے، وہیں دوسرا ٹاسک کوئی ایسی تصویریا شائع کرنے کا ہوتا ہے جو لوگوں کو چونکا دے۔

ایسی میمز میں تصاویر بالکل عام سی ہوتی ہیں، لیکن اس تصویر کے ساتھ دیئے گئے کیپشن یا اس کے اوپر لکھے گئے الفاظ سے لوگوں کو گمراہ کیا جاتا ہے۔

امریکہ میں نائن الیون کے حملوں کے کچھ عرصے بعد ایک میم وائرل ہوئی۔ اس میں نیویارک کے ٹوئن ٹاورز کی ایک پرانی تصویر تھی اور اوپر تحریر تھا ”Imagine a world without Muslims“ (مسلمانوں کے بغیر دنیا کا تصویر کیجیے)۔

ٹوئن ٹاورز کی اس پرانی تصویر میں ایسا کچھ نہیں تھا جس کی بنا پر یہ وائرل ہو جاتی تاہم اس کے ساتھ لکھے گئے الفاظ نے کام دکھایا۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ مسلمانوں نے بھی اسی میم کو استعمال کرتے ہوئے اس کا جواب دیا۔ ایک بلاگر نے اس میم کو شائع کیا اور ساتھ لکھا کہ اگر دنیا میں مسلمان نہ ہوتے تھے تو الجبرا سمیت کیا کچھ نہیں ہوتا۔

یہ پورا قصہ کچھ عرصہ قبل انڈین ایکسپریس نے بیان کیا۔

سبق: میمز عام حالات میں تفریح کا ذریعہ ہیں لیکن یہ ٹرولز کا ہتھیار بھی ہیں۔ میمز کو آگے پھیلانے سے پہلے سوچ لیں کہیں آپ بھی ٹرول فیکٹریوں کے آلہ کار تو نہیں بن رہے۔

آپ کیا دیکھیں گے فیصلہ باٹس کا

اگرآپ ٹوئٹر استعمال کرتے ہیں تو ٹوئیٹ کرنے کے بعد آپ یہ ضرور دیکھتے ہوں گے کہ کتنے لوگوں نے اسے پڑھا، کتنوں نے لائیک کیا یا اس پر اپنی رائے دی۔

اگر دو چار دن میں آپ کی ٹوئیٹ کو صرف چند درجن لوگوں نے ہی دیکھا پو اور چند ایک سے زیادہ لائکس بھی نہ ملے ہوں تو آپ سوچنے پر مجبور ضرور ہوں گے۔

ٹرولز کو ان مسائل کا سامنا نہیں ہوتا۔ وہ جہاں ایک طرف اپنے نیٹ ورک سے لائکس اور تبصرے حاصل کرتے ہیں وہیں باٹس کے استعمال کی بدولت بھی انہیں بڑی تعداد میں لائکس، کمنٹس اور فالوورز ملتے ہیں۔

کمپیوٹر اور انٹرنیٹ کی دنیا میں باٹ (Bot) ایک ایسا سافٹ ویئر ہے جو انٹرنیٹ کے ذریعے کسی دوسرے کمپیوٹر پر یا سسٹم کے اندر جا کر وہ کام انجام دیتا ہے جو عام طور پر انسانوں سے کیے جانے کی توقع کی جاتی ہے۔ مثال کے طور پر کسی پوسٹ کو لائک کرنا یا اس پر تبصرہ کرنا۔

Screengrab
Screengrab

ٹرولزکی خوش قسمتی یہ ہے کہ ٹوئٹر اور فیس بک جیسی ویب سائٹس پر لائکس اور کمنٹس کی تعداد کو کنٹرول کرنا بہت آسان رہا ہے۔

ٹوئٹر سمیت مختلف بڑی ویب سائیٹس Application programming interface یعنی اے پی آئی فراہم کرتی ہیں۔ جن کے ذریعے کوئی بھی سافٹ ویئر انجینئر ٹوئٹر کے سافٹ ویئر کے اندر تک رسائی حاصل کر سکتا ہے۔ ٹوئٹر اور فیس بک یہ رسائی جائز کاموں کے لیے فراہم کرتے ہیں لیکن سافٹ ویئر انجیئنرز اس کا ہر طرح کا استعمال اپنے کلائنٹس کے لیے کرتے ہیں۔

یہ اتنا منافع بخش کاروبار ہے کہ ایلون مسک نےحال ہی میں ٹوئٹر اے پی آئی تک مفت رسائی بند اور کمرشل رسائی کی فیس بڑھانے کا اعلان کیا ہے۔

عام لوگ سمجھتے ہیں کہ باٹس آپ کو صرف لائکس اور فالوورز فراہم کرتے ہیں تاکہ آپ زیادہ مقبول دکھائی دیں۔ تاہم حقیقت یہ ہے کہ باٹس کی بدولت ملنے والی انگیجمنٹ ٹوئٹر کے الگورتھم کو دھوکہ دے کر آپ کی ٹوئیٹ کو کہیں زیادہ لوگوں تک پہنچا دیتی ہے۔ اس صورت حال میں باٹس کی بدولت ملنے والے لائکس اور کمنٹس آپ کے لیے ووٹوں کا کام کرتے ہیں۔

یہ بالکل ایسے ہی ہے کہ الیکشن میں آپ کو قانونی طریقے سے ایک ہزار ووٹ ملنے کی امید ہو اور آپ کے مخالف کو ڈیڑھ ہزار ووٹ، لیکن آپ غیرقانونی طریقے سے پانچ ہزار ووٹ اضافی لے لیں۔ ظاہر ہے آپ کا مخالف مقبول ہونے کے باوجود الیکشن ہار جائے گا۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ ٹرولز کو بھی معلوم ہے حد سے زیادہ لائکس ملنے سے ان کا اکاؤنٹ مشکوک ہو جائے گا، لہذا وہ ایک حد کے اندر رہتے ہیں۔ باٹس کی وجہ سے غلط معلومات پھیلنے کے مسئلے پر کووڈ کے دنوں میں ریسرچ پیپرز تحریر ہو چکے ہیں۔

سبق: انٹرنیٹ پر کسی پوسٹ کو زیادہ لائیکس یا کمنٹ ملنے کا مطلب یہ نہیں کہ وہ مقبول رائے کی نمائندگی کرتی ہے۔

ویری فائیڈ اکاؤنٹس

 چند ماہ قبل ایک تصدیق شدہ اکاؤنٹ سے پیپسی کمپنی کوکاکولا کو بہتر قرار دیتی دکھائی دی۔ یہ جعلی اکاؤنٹ پیپیکو کا تھا نہ کہ پیپسیکو کا، لیکن یہ تصدیق شدہ تھا
چند ماہ قبل ایک تصدیق شدہ اکاؤنٹ سے پیپسی کمپنی کوکاکولا کو بہتر قرار دیتی دکھائی دی۔ یہ جعلی اکاؤنٹ پیپیکو کا تھا نہ کہ پیپسیکو کا، لیکن یہ تصدیق شدہ تھا

ٹرول فارمز اور باٹس سے ہٹ کر سوشل میڈیا پر رسائی بڑھانے کا ایک طریقے اکاؤنٹ ویری فائی کرانا بھی ہے۔ تصدیق شدہ اکاؤنٹ کو زیادہ رسائی ملتی ہے۔

ٹوئٹر کی نئی بلیو ٹک سبسکرپشن پالیسی آنے کے بعد اب یہ بات راز نہیں رہی کہ سال بھر کے لگ بھگ 24 ہزار دے کر آپ اپنی آواز زیادہ لوگوں تک پہنچا سکتے ہیں۔ بلیو ٹک کوئی بھی خرید سکتا ہے خواہ کو جعلی معلومات پھیلانے والا شخص یا ٹرول ہی کیوں نہ ہو۔

تاہم ٹرول فارمز تصدیق شدہ اکاؤنٹس کو ایک اور طریقے سے بھی استعمال کرتے ہیں۔ ٹرولنگ ٹیمیں ایک محدود تعداد میں تصدیق شدہ اکاؤنٹس رکھتی ہیں، ان کے ذریعے وہ غیر تصدیق شدہ اکاؤنٹس کی ٹوئیٹس کو ری ٹوئیٹ کرتے ہیں۔

سبق: تصدیق شدہ اکاؤنٹس کچھ عرصہ قبل تک کسی بات کے مستند ہونے کا ایک پیمانہ تھے لیکن اب ایسا نہیں ہے۔ ویریفائیڈ اکاؤنٹ سے بھی غلط معلومات آسکتی ہیں۔

social media

internet

social media team

trolls