’حکومت کو عدالتی فیصلہ پسند ہو یا نہیں، عمل درآمد ہونا ہے‘
لاہور ہائیکورٹ کے سابق جج اور ماہر قانون شاہ خاور کا سپریم کورٹ کی جانب سے پریکٹس اینڈ پروسیجر بل پر عملدرآمد روکنے کے فیصلے پر کہنا ہے کہ مقننہ، عدلیہ اور انتظامیہ ، آئین نے سب کی حدود مقرر کی ہوئی ہیں۔ مقننہ یعنی پارلیمنٹ آئین و قوانین بناتا ہے اور ان میں ترمیم بھی ان کا مینڈیٹ ہے۔ اس کے بعد عدلیہ نے اس پر عمل کرنا ہے اور انتظامیہ نے اس پر عملدرآمد کرانا ہے۔ پارلیمنٹ کی قانون سازی کو کوئی چیلنج نہیں کرسکتا یہ اس کا حق ہے۔
آج نیوز کے پروگرام ”فیصلہ آپ کا“ میں گفتگو کرتے ہوئے شاہ خاور نے کہا کہ قومی اسمبلی اور سینیٹ سے پاس ہونے کے بعد بل پر صدر نے دستخط کرنا ہوتے ہیں، صدر نے دستخط نہ کئے تو 10 دن بعد قانون بن جاتا ہے، اس بعد دوسرا اسٹیج آتا ہے۔ آئین پاکستان کا آرٹیکل 8 کہتا ہے کہ کوئی بھی قانون یا قانون کا حصہ جو آئین میں دئے گئے بنیادی حقوق کی کسی شق سے متصادم ہو وہ قابل منسوخی ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ مقننہ قانون سازی کرسکتا ہے، ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ آرٹیکل 8 کے تحت اس کا جوڈیشل ریویو کرسکتا ہے، لیکن اس سے پہلے ایکٹ بننا ضروری ہے، ایکٹ بن جائے تو اسی دن کوئی بھی چیلنج کرسکتا ہے۔
پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے سابق سینیٹر اور پاکستان پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما مصطفیٰ نواز کھوکھر نے کہا کہ ازخود نوٹس کافی عرصے سے متنازع ہوتے رہے ہیں، اور کافی عرصے سے اتفاق رائے رہا ہے کہ سپریم کورٹ کے اختیارات کو ترتیب دینے کی ضرورت ہے۔
پاکستان تحریک انصاف کے رہنما احمد اویس نے دورانِ بحث کہا کہ ملک میں نان ایشو کو ایشو بنا دیا گیا ہے، سپریم کورٹ کا فیصلہ آتے ہی بحث شروع ہوگئی، سپریم کورٹ کا کام ہے فیصلہ دینا، اب فیصلہ غلط دیا یا صحیح، فیصلہ آنے پر عمل درآمد ہونا چاہئے تھا۔
احمداویس نے کہا کہ 13اپریل کے الیکشن کے فیصلے سے قبل بھی بینچ نے کہا تھا کہ بیٹھ کر بات کرلیں، اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ یہ مسئلہ بیٹھ کر ہی حل ہوتا لیکن حکمران جس راستے پر چل رہے ہیں جو خطرناک ہوتا جارہا ہے، پاکستان کو بچانے کیلئے سب کو متحد ہوجانا چاہئے، متحد نہ ہوئے تو صورتحال مزید خطرناک ہوجائے گی۔
ایک سوال کے جواب میں شاہ خاور کا کہنا تھا کہ حکومت کو عدالتی فیصلہ پسند ہو یا نہیں، عمل درآمد ہونا ہے، حکومت چار تین یا تین دو کے عدالتی فیصلے کو ریویو میں لے جائے۔
Comments are closed on this story.