Aaj News

اتوار, دسمبر 22, 2024  
19 Jumada Al-Akhirah 1446  

جنرل باجوہ نے عمران خان کیخلاف لابنگ کیلئے حسین حقانی کو ہائر کیا؟

مذہبی ٹچ کی طرح کسی نے انہیں کہا کہ نہ سائیں کبھی آپ کو امریکی ٹچ کی بھی ضرورت پڑے گی، حسین حقانی
اپ ڈیٹ 12 اپريل 2023 09:42am
Exclusive interview of Husain Haqqani | Faisla Aap Ka with Asma Shirazi | Aaj News

امریکا میں پاکستان کے سابق سفیر حسین حقانی کا سائفر کے معاملے پر کہنا ہے کہ یہ بیانیے کی نہیں جھوٹ کی جنگ ہے اور جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے۔

آج نیوز کے پروگرام ”فیصلہ آپ کا“ میں خصوصی گفتگو کرتے ہوئے حسین حقانی نے کہا کہ پہلے وہ (عمران خان) کہتے تھے کہ یہ خط آیا ہے اور امریکہ نے خط کے ذریعے میرے خلاف سازش کی ہے، اعلان کرکے تو کوئی سازش کرتا نہیں۔ اس کے بعد پھر یہ ہوگیا کہ جی وہ ہمارے اپنے ہی سفیر کا سائفر تھا وغیرہ وغیرہ۔

سابق سفیر نے کہا کہ ’مختصر سی بات یہ ہے کہ ایک میں بیچارہ رہ گیا تھا جس پر خان صاحب کی نظر عنایت نہیں ہونی تھی، تو وہ بھی ہوگئی۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’وہ (عمران خان) اگر یوٹرن نہ لیتے تو جس اسٹیبلشمنٹ پر میں بیس برس سے تنقید کررہا ہوں، جو باتیں میں بیس برس سے کہہ رہا ہوں ہو کہ بھائی پاکستان میں ہر ادارے کو اپنے اپنے دائرہ کار میں کام کرنا چاہئیے، اور نہ فوج کا سیاست میں کردار ہونا چاہئیے نہ سیاستدانوں کو فوج کے ساتھ زیادہ عمل دخل کرنا چاہئیے، ان کو اپنا کام کرنے دیں وہ ہمارے ملک کا دفاع کریں جس میں وہ بہت اچھا کردار ادا کرتے ہیں، جس کی وجہ سے لوگ ان سے محبت کرتے ہیں۔‘

انہوں نے کہا کہ ’لیکن خان صاحب تھے اس وقت جو امپائر کی انگلی کا مطالبہ کر رہے تھے، اگر آپ کو یاد ہو تو کنٹینر پر کھڑے ہوکر وہ کہا کرتے تھے کہ امپائر انگلی اٹھائے اور امپائر سے ان کی مراد پاکستان کی مسلح فوج اور اس کی قیادت تھی۔‘

حسین حقانی کے مطابق ’اب اُن (عمران خان) کا اُن (فوج) کے ساتھ جھگڑا ہوگیا اور اس جھگڑے کے بعد 174 اراکین قومی اسمبلی نے ان کے خلاف عدم اعتماد کو ووٹ دے دیا۔‘

’میرا کوئی کردار نہیں‘

انہوں نے سوال اٹھایا کہ ’بیچارہ حسین حقانی بیچ میں کہاں سے آگیا، یہ مجھے سمجھ میں نہیں آرہا، لیکن خان صاحب کی باتوں کا آپ کو پتا ہی ہے کہ ان کی باتوں کو سمجھنے کیلئے، بعض اوقات پیری مریدی میں ایسا ہوتا ہے کہ مریدوں کو اپنے پیر کی بات سمجھ میں آتی ہے کسی اور کو سمجھ میں نہیں آتی، اسی طرح سے خان صاحب کے جو پیروکار ہیں وہی ان کی کہانیاں سمجھتے ہیں۔‘

انہوں نے کہا کہ ’ریکارڈ کیلئے میں عرض کردوں، خان صاحب کے اقتدار سے ہٹائے جانے میں میرا کوئی کردار نہیں۔‘

خیال رہے کہ جنوری 2023 کے آخر میں لاہور میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے، عمران خان نے دعویٰ کیا تھا کہ اس وقت کے آرمی چیف قمر جاوید باجوہ نے جولائی 2021 میں حسین حقانی کو واشنگٹن میں لابنگ کے لیے ہائر کیا تھا۔

عمران خان نے یہ بھی دعویٰ کیا تھا کہ جنرل(ر) باجوہ کا مبینہ ”سیٹ اپ“ اب بھی اسٹیبلشمنٹ میں سرگرم ہے تاکہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کو دوبارہ اقتدار میں آنے سے روکا جا سکے۔

گزشتہ مہینے آن لائن پوسٹ کی گئی دستاویزات سے پتہ چلتا ہے کہ اسلام آباد میں سی آئی اے کے ایک سابق اسٹیشن مینیجر، رابرٹ گرینیئر کو جولائی 2021 میں واشنگٹن میں پی ٹی آئی حکومت کے لیے لابنگ کرنے کے لیے رکھا گیا تھا، جس نے پھر حسین حقانی کو ان کے لیے کچھ تحقیقی کام کرنے کے لیے لگایا تھا۔

بعد میں، امریکہ میں پی ٹی آئی کے عہدیداروں نے کہا کہ دونوں افراد گرینیئر اور حقانی پاکستانی ملٹری اسٹیبلشمنٹ میں ایک سینئر شخصیت کے لیے کام کر رہے تھے، اور انہوں نے پارٹی کے لیے کام کرنے کے بجائے، اس کی حکومت کو گرانے کی کوشش کی۔

پہلے میمو اور اب سائفر میں نام آنے کے سوال پر انہوں نے کہا کہ ’جن لوگوں کو امریکا کا سیاسی نظام سمجھ میں نہیں آتا، خان صاحب تو اگر آپ کو یاد ہوتو کہا کرتے تھے کہ جی میں مغرب کو سب سے زیادہ جانتا ہوں؟ تو جب وہ مغرب کو سب سے بہتر جانتے تھے تو ایک بیچارہ دو چار کتابوں کا مصنف، ایک یونورسٹی کا پروفیسر، جو ڈھائی ساڑھے تین سال سفیر رہ چکا، وہ (حسین حقانی)ان کو اقتدار سے کیسے فارغ کرسکتا ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’یہ جو انہوں نے میرے ساتھ حسن ظن برتا ہے، اس کیلئے میں صرف ان کا شکریہ ہی ادا کرسکتا ہوں، مشہوری کے اوپر میں ان کا ممنون ہوں۔‘

حسین حقانی نے کہا کہ ’مسئلہ سارا یہ ہے کہ پچیس سال جس آدمی نے اپنا بیانیہ یہ بنایا ہو کہ میں امریکا مخالف ہوں، اس کے خلاف امریکیوں کو منانے کی کوئی ضرورت نہیں، دوسری بات یہ ہے کہ 174 اراکین اسمبلی کو امریکا نے خان صاحب کے خلاف نہیں کیا، اب وہ خود کہتے ہیں کہ یہ امریکا کا معاملہ نہیں تھا۔‘

انہوں نے کہا کہ سازشی نظریوں کے بارے میں جو ماہرین ہیں انہوں نے ان نظریوں اور ان پر یقین رکھنے والوں پر بڑی ریسرچ کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ جو لیڈر اپنی غلطی نہیں ماننا چاہتے وہ سازشی نظریات پھیلاتے ہیں۔

سابق سفیر نے کہا کہ ’یہ ماننا توآسان نہیں کہ بھئی 174 آدمی میرے اپنے حلیف ان میں سے چند ایک اور میری اپنی پارٹی کے کچھ لوگ چھوڑ چھاڑ کر چلے گئے کیونکہ میں ان سے ملتا نہیں تھا۔ زیادہ آسان یہ ہے کہ ملبہ امریکا پر ڈال دو جس کے خلاف میں نے 25 سال تک بیانیہ تیار کیا ہے۔‘

’مذہبی کے ساتھ امریکی ٹچ بھی‘

انہوں نے کہا کہ ’مگر جب بعد میں لوگوں نے سمجھایا کہ بھائی کل کلاں آپ کو دوبارہ حکومت مل گئی تو اسی امریکہ سے معاملات تو کرنے پڑیں گے نا، تو ذرا کچھ تھوڑا سا ہتھ ہولا کیجئے۔ مذہبی ٹچ کی طرح کسی نے انہیں کہا کہ نہ سائیں کبھی آپ کو امریکی ٹچ کی بھی ضرورت پڑے گی ذرا ہتھ ہولا کریں، انہوں نے ہتھ ہولا کرنا شروع کردیا۔ اب ہتھ ہولا کرتے کرتے پہلے فوج پر ملبہ ڈالا، پھر خیال آیا کہ نہیں فوج سے نہیں لڑائی کرنی، پھر اس کے بعد انہیں خیال آیا کہ محسن نقوی صاحب چیف منسٹر بن گئے، ان سے جھگڑا ہوگیا تو ان پر ڈال دیا، اب مجھ پر ڈال دیا ہے۔ اور جس بات کی بنیاد پر ڈالا ہے وہ ایسی مضحکہ خیز ہے کہ جناب میں نے ایک ریسرچ کی اور اس ریسرچ کی بنیاد پر مجھے پیمنٹ (ادائیگی) ہوئی اور وہ پیمنٹ 30 ہزار ڈالر رجیم چینج کیلئے استعمال ہوئی، تو اگر 30 ہزار ڈالر میں رجیم چینج ہو رہی ہے تو آپ بھی 30 ہزار ڈالر دے کر دوبارہ رجیم چینج کرا لیں۔‘

لابنگ فرم کی خدمات کس نے حاصل کیں؟

انہوں نے لابنگ فرم کی خدمات کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ افتخار درانی کا جس (لابنگ) فرم سے کانٹریکٹ تھا اس سے میرا بھی کانٹریکٹ تھا لیکن کسی اور کام کیلئے۔ یہ کون لوگ ہیں جو یقین کرلیتے ہیں کہ سازشوں کی رسیدیں رکھی جاتی ہیں، امریکہ میں لابنگ کھل کر ہوتی ہیں، اس کی رسیدیں ٹیکس ریٹرن میں ظاہر کی جاتی ہیں، اس لئے اس کو ایک سازش سے ملانا لوگوں کو بیوقوف بنانے کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔’

امریکہ اور عمران خان کے تعلقات میں سرد مہری کی وجہ

ان کا کہنا تھا کہ یہ مغالطہ ہے عمران خان کے ٹرمپ انتظامیہ کے ساتھ بڑے اچھے تعلقات تھے، آپ کو یاد ہوگا کہ 2018 کی جنوری میں ڈونلڈ ٹرمپ نے ٹویٹ کیا تھا کہ میں پاکستان سے کوئی تعلق نہیں رکھنا چاہتا، اس کو سبق سکھاؤں گا، اس کو اتنے ارب ڈالرز دیے ہیں اور پاکستان نے کبھی ہمارا ساتھ نہیں دیا، الٹا افغانستان میں ہمیں نقصان پہنچایا ہے۔ اس کے بعد تھوڑی سی بدمزگی ہوئی تھی۔ اسی دوران ایک سینیٹر لنڈسے گراہم کو بعض پاکستانی نژاد امریکن پاکستان لے کر گئے، وہاں ان کی بڑی خاطر تواضع ہوئی اور واپس آکر انہوں نے عوامی طور پر کہا کہ میں نے صدر ٹرمپ کو بتایا ہے کہ پاکستان کا وزیراعظم آپ ہی کی طرح کا ہے۔ آپ اس سے ملیں آپ کھل کر بات کریں گے تو آپ کی اچھی بنے گی۔ اس کے بعد عمران خان امریکہ مدعو کیے گئے۔ لیکن پالیسی کی بنیاد پر کوئی بہتری نہیں آئی۔’

حسین حقانی کے مطابق اس دوران انتظامیہ بدل گئی اور جو بائیڈن نے فون تک کرنا گوارہ نہیں کیا، یہ بہت کم ہوتا ہے کہ امریکی صدر ان ممالک کے سربراہان کو فون نہ کرے جن کے ساتھ امریکہ کے اچھے یا خصوصی تعلقات ہوں۔ ان کو جب فون نہیں آیا تو یہ بے چین ہوئے کیونکہ ان کا دوطرفہ معاملہ چلتا ہے کہ پاکستان میں کہنا ہے کہ ہمیں امریکا سے حقیقی آزادی چاہئیے وغیرہ وغیرہ اور دوسری طرف امریکا کو بھی منا کر رکھنا ہے۔ اس وقت افتخار درانی صاحب نے اس فرم کی خدمات حاصل کی ہوں گی، مجھے اس کی تفصیلات کا علم نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ ’مجھے تو صرف اتنا پتا ہے کہ کئی ماہ بعد جب اس فرم کی سالانہ فائلنگ ہوتی ہے تو اس میں میرا نام بھی تھا کہ ہم نے اس آدمی سے ریسرچ کرائی تھی۔‘

شارٹ کٹ بیانیہ

سابق سفیر نے کہا، ’پہلی بات تو یہ کہ اگر جنرل باجوہ نے ہائر کرایا تھا آپ کے آدمی نے ہائر کیوں ہونے دیا، دوسری بات یہ کہ اس سے حسین حقانی کہاں سے ہائر ہوگیا بھائی، یہ تو جھوٹ بولتے ہیں نا جو شارٹ کٹ مارتے ہیں کہ جرل باجوہ نے حسین حقانی کو ہائر کیا اور حسین حقانی نے امریکہ کو میرے خلاف کردیا، دونوں باتیں غلط ہیں، نہ مجھے جنرل باجوہ نے ہائر کیا نہ کوئی ہائر کرسکتا ہے، میں ایک اسکالر ہوں، اپنی تحریروں کےذریعے اپنی تحقیق کے ذریعے، میں اپنی رائے دیتا ہوں اور میری رائے کو لوگ مانتے ہیں اس کی عزت کرتے ہیں تو یہ اللہ تعالیٰ کا کرم ہے ، میری ماں کی دعاؤں کا نتیجہ ہے، اس میں کسی کے ہائر کرنے نہ کرنے کا دخل نہیں ہے۔‘

امریکہ سے بگڑے تعلقات کی وجہ عمران خان یا اسٹیبلشمنٹ

کیا یہ ریاست کے ریاست سے بگڑے ہوئے معاملات تھے جس میں عمران خان مس فٹ تھے؟ اس سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ’میرا یہ خیال ہے کہ ریاست کے جو بگڑے ہوئے تعلقات تھے، اس کے بہت سارے اسباب ہیں، پاکستان کی افغان پالیسی، طالبان کے معاملے میں امریکہ کا یہ خیال کہ پاکستان افغانستان میں طالبان کی حمایت کرتا ہے امریکہ کی نہیں کرتا، خود پاکستان کے فیٹف لسٹ میں آنا جس میں یہ بات شامل ہیں کہ پاکستان میں اتنے برسوں سے جو جہادی گروپ ہیں ان کے خلاف کوئی قدم نہیں اٹھایا گیا۔ امریکہ نے بہت سارے معاملات کے اوپر پاکستان کو تنبیہ کی ہے اختلاف کیا ہے، لیکن امریکہ کو ہمیشہ سے یہ امید تھی کہ پاکستان سے تعاون ہمارا اختلافات سے کہیں زیادہ ہے، ایک مرحلہ ایسا آیا کہ امریکنوں میں یہ احساس پیدا ہوگیا کہ ہمارے اختلافات اب ہمارے تعاون کی بنیاد سے کہیں زیادہ ہیں۔ اس میں بہت ساری باتیں ہیں، امریکہ کے بھارت سے تعلقات بہتر ہونا شروع ہوگئے اور امریکہ نے اسے اپنا اتحادی سمجھنا شروع کردیا، پاکستان اور چین کے درمیان تعلقات کے بارے میں امریکہ میں بدگمانیاں شروع ہوگئیں، امریکہ چین کو اپنا حریف سمجھتا ہے تو پاکستان اور امریکہ کا مشترکہ مفاد کیا رہ گیا۔‘

انہوں نے کہا کہ ’اس سارے عرصے میں عمران خان صاحب جب اقتدار میں آئے تھے تو ان کا بیانیہ یہ تھا کہ میں معیشت ٹھیک کردوں گا، چوروں لٹیروں سے پیسے کھینچ کر لے آؤں گا اس کے بعد ملک دوبارہ امیر اور خوشحال ہوجائے گا۔ جب اسٹیبلشمنٹ کو یہ نظر آیا کہ یہ سب کچھ نہیں ہورہا تو ان کو پھر یہ سمجھ میں آیا کہ ہمیں وہیں واپس جانا ہوگا جہاں سے ماضی میں ہم معاملات ٹھیک کرتے رہے ہیں، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، امریکہ، چین، ان کے ساتھ مل جل کر معیشت کے معاملات کو ٹھیک کیا جائے۔ اس میں میرا خیال ہے کہ عمران خان صاحب کا مزاج آڑے آرہا تھا۔ اور اسی لئے اسٹیبلشمنٹ نے معاملات کو اپنے ہاتھ میں لیا، اور اس پر میں نے تنقید کی کہ یہ نہیں ہونا چاہئیے کہ وزیر خارجہ کا کردار بھی فوج کا سربراہ ادا کرے، لیکن ان کی سوچ یہ تھی کہ ہم کریں کیا۔ اگر مدد چاہئیے اور سعودی عرب اس لئے مدد نہیں کر رہا ہے کہ عمران خان صاحب کا مزاج نہیں ملتا سعودی عرب کے حکمران کے ساتھ، یا ان کو یہ لگا کہ انہوں نے ان کی بے عزتی کی ہے تو ہم ہی جاکر منا لیتے ہیں۔ پھر انہوں نے امارات کے ساتھ بھی یہی کیا ، پھر ان کو خیال آیا کہ امریکہ کے ساتھ بھی یہی آزمایا جائے۔ اسی وجہ سے ایک نہیں ایک سے زیادہ لابسٹ امریکہ میں ہائر کئے گئے تھے، لیکن میں ان لابسٹوں میں شامل نہیں ہوں کیونکہ میں لابسٹ ہوں نہیں۔‘

حسین حقانی نے کہا کہ کئی سال پہلے جماعت اسلامی کے امیر مرحوم قاضی حسین احمد صاحب امریکہ تشریف لائے تھے تو انہوں نے کہا تھا کہ ہمارے عوام یہی سننا چاہتے ہیں، کیونکہ ہمیں پتا ہے کہ کبھی ہمیں اقتدار مل گیا تو ہمیں بھی امریکہ کے ساتھ اچھے تعلقات کرکے گزارا کرنا ہوگا۔ عمران خان صاحب کو بھی احساس شاید ابھی بھی ہے کہ امریکہ کے ساتھ حکومت میں ہوتے ہوئے اچھے تعلقات ضروری ہیں۔

جنرل باجوہ سے ملاقات

جنرل باجوہ سے ملاقات کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ میں کسی منصوبہ بندی کا حصہ بننے کیلئے کسی سے بھی نہیں ملا۔

تاہم، انہوں نے یہ بھی کہا کہ کون مجھ سے ملتا ہے کون نہیں اس کی تفصیلات میں نہیں بیان کرسکتا، لیکن دیار غیر میں ہوتے ہوئے کوئی اپنے ملک سے آتا ہے تو خوشی ہوتی ہے۔

عمران خان سے اعتراف کا مطالبہ

انہوں نے کہا کہ ’اگر ان لوگوں نے جن کے اداروں نے مجھ پر ناجائز طور پر الزام تراشی کی، مجھے غدار، ملک دشمن اور کیا کیا کہا، اور صرف بیانئے کی بنیاد پر میرے نقطہ نظر کی بنیاد پر۔ میں نے کوئی ایسا کام نہیں کیا جس پر میرے خلاف فوجداری مقدمہ بنا ہو کوئی غیرقانونی کام کرنے کی وجہ سے کسی عدالت نے سزا دی ہو۔ یہ سب کرنے کے بعد اگر وہ مجھ سے رابطہ کریں بھی تو میں تو اس کو اپنے لیے مثبت بات سمجھوں گا کیونکہ مجھ پر جو الزامات لگائے گئے تھے وہ جھوٹے تھے غلط تھے اور میں ان کا مستحق نہیں تھا۔ آج میں یہ عمران خان صاحب کو بھی کہتا ہوں، کیونکہ انہوں نے ماشاءاللہ بہت کردار ادا کیا ہے جھوٹے الزام لگانے میں، کہ وہ بھی اپنے جھوٹے الزامات سے تائب ہوجائیں، اعتراف کریں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’جو ان سے سوال کرلے ان سے اختلاف کرلے ان کو لفافہ کہہ دیتے ہیں ، جو کلچر انہوں نے بنایا ہے اس کی دنیا میں کوئی عزت نہیں کرتا، یہ ان کی غلط فہمی ہے کہ ان کی عزت کرتے ہیں اور یہ ایک بار پھر لابنگ کیلئے پیسے خرچ کررہے ہیں امریکہ میں، ان کی لابنگ سے علاوہ اس کے کہ پاکستان میں اخباروں میں کچھ خبریں لگ جائیں اور ان کے اپنے یوٹیوب چینلز کیلئے کچھ ویڈیوز نکل جائیں کچھ نہیں نکلنا۔‘

پاکستان کے معاملات ٹھیک کیسے ہوں گے؟

اس سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ امریکہ اور پاکستان کے درمیان کج روی کافی پرانی ہے۔ یہ گڑبڑ کئی سالوں میں ہوئی ہے اور اس کو ٹھیک ہونے والا کام بھی کئی سالوں میں ہوگا۔ پہلے تو ملک میں مفاہمت کی فضا پیدا کی جائے۔ ایک دوسرے کو غدار کہنا ، ملک دشمن، کافر کہنا ، لڑنا جھگڑنا، چوروں کے ساتھ منہیں بیٹھیں گے، لٹیروں کے ساتھ نہیں بیٹھیں گے۔ اگر سب پاکستانی ہیں تو سب کے ساتھ بیٹھنا ہوگا۔

انہوں نے مزید کہا کہ معیشت اور قومی سلامتی کے معاملات پر ہماری ایک واضح حکمت عملی ہونی چاہئے۔ حکومتیں ساری دنیا میں بدلتی ہیں لیکن کبھی ایسا نہیں ہوتا کہ پچھلی حکومت کےمنصوبے کینسل کردئے جائیں، ٹھیکے بند کردیے جائیں، اس سے معیشت پر منفی اثر پڑتا ہے۔ اور پھر بہت سے معاملات میں عدلیہ کی مخالفت جیسے کہ ریکوڈک کی لٹیا چودھری افتخار صاحب نے ڈبوئی۔

حسین حقانی نے کہا کہ آئی ایم سے بات چیت تو کرنی پڑے گی، چاہے یہ حکومت کرے چاہے بعد آنے والی حکومت کرے، پاکستان کو آئی ایم ایف کی مدد چاہئیے۔

انہوں نے مشورہ دیا کہ پاکستان کو دنیا میں اپنے قد سے چھوٹا بھی نظر نہیں آنا چاہئیے، لیکن اپنے قد سے بڑا دکھنے کی کوشش میں ممالک کے ساتھ منفی صورتحال بھی پیدا نہیں کرنی چاہئیے۔

imran khan

general bajwa

politics april 11 2023

Hussain Haqqani