گھڑی سازی کی صنعت کے زوال کے اسباب کیا ہیں
کراچی کے سینئر گھڑی ساز شاہد جمیل انصاری اپنے پیشے سے نا امید کیوں ہیں، کیا موبائل فون اور جدید ٹیکنالوجی گھڑی سازی کی صنعت کے زوال کی وجہ بن رہی ہے۔
کراچی میں گھڑی ساز نے بتایا کہ کچھ دہائیوں پہلے تک شہر میں گھڑی سازی کا کام عروج پر تھا اور اس وقت سینکڑوں گھڑی ساز شہر کے گلی کوچوں میں کام کرتے تھے، جن کے پاس مہنگی ترین گھڑیاں مرمت اور صفائی کے لیے لائی جاتی تھیں۔
شہر قائد میں صرف چند گھڑی ساز باقی رہ گئے ہیں، جو اپنی آنے والی نسل کو گھڑی سازی کا کام نہیں سکھا رہے، بقول ان کے گھڑی سازی کا اب کوئی مستقبل نہیں رہا۔
کراچی کے اہم کاروباری مرکز صدر میں عبداللہ ہارون روڈ پر ’جمیل اینڈ سنزواچ میکر‘ نامی دکان اس علاقے کی واحد گھڑی سازی کی دکان ہے۔
یہ دکان چلانے والے شاہد جمیل انصاری اپنی چار پُشتوں سے گھڑی سازی کا کام کرنے والے آخری کاریگر ہیں، ان کا کہنا ہے کہ انھوں نے اپنی نسل میں یہ کام منتقل نہیں کیا کیونکہ وہ خود مایوس ہیں۔
انھوں نے بتایا کہ پردادا کے بعد ان کے دادا نے اپنے والد کے پیشے کو جاری رکھا اور اپنے بیٹے اور میرے دادا کو گھڑی سازی سکھائی۔
شاہد جمیل انصاری نے آج نیوز کو بتایا کہ موبائل فون کی وجہ سے بہت سے لوگ بے روزگار ہوگئے، نہ صرف گھڑی والے بلکہ متعدد کاریگروں کا کام ختم ہوگیا۔
ماضی کی بات کی جائے تو کراچی میں سینکڑوں گھڑی ساز تھے جن کے پاس گھڑیوں کے شوقین افراد انتہائی مہنگی گھڑیاں مرمت کرانے آتے تھے۔
مگر اب تو گھڑی سازی کا کام آدھے سے بھی کم رہ گیا ہے۔ چین کی گھڑیاں آنے کے بعد گھڑی سازی اب صرف نام کی ہی رہ گئی ہے۔
اب لوگ آتے ہیں کہ گھڑی کی بیٹری لگا دیں یا پٹا لگا دیں، بس اب یہ رہ گئی گھڑی سازی۔ کام کرانے والے لوگ بھی نہیں ہیں اور آمدنی بھی مختصر ہوگئی ہے۔
پاکستان میں مہنگائی کی وجہ سے عام فرد جس پریشانی کا شکار ہے اس میں چار پُشتوں سے گھڑی سازی کا کام کرنے والے شاہد جمیل انصاری بھی شامل ہیں۔ ان کا کہنا ہے زندگی گزارنا اب انتہائی مشکل ہے۔
خیال کیا جارہا ہے کہ دنیا بھر کی طرح پاکستان میں موبائل فون اور ٹیکنالوجی کے عام ہونے کے بعد متعدد شعبوں کی طرح گھڑی سازی کی صنعت بھی زوال پذیر ہے۔
Comments are closed on this story.