کراچی فیکٹری حادثہ: اندرونی دروازہ نہ کھولنابھگدڑ مچنے کا سبب بنا، پولیس
کراچی میں سائٹ ایریا کے علاقے میں راشن کی تقسیم کے دوران بھگدڑ سے 12 افراد کے جان سے جانے کا افسوسناک واقعہ فیکٹری انتطامیہ کی غفلت کے باعث پیش آیا۔ پولیس کے مطابق انتظامیہ نے قواعد وضوابط پرعمل نہیں کیا۔
گزشتہ روز سائٹ ایریا نورس چورنگی پر واقع فیکٹری میں راشن کی تقسیم کے دوران بھگدڑ مچنے سے 3 بچوں اور 8 خواتین سمیت 12 افراد جاں بحق ہوگئے تھے، اس دوران متعدد افراد بیہوش بھی ہوئے۔ فیکٹری انتظامیہ نے زکوٰۃ کی تقسیم سے متعلق ضلعی انتظامیہ کولاعلم رکھا تھا۔
واقعے کا مقدمہ فیکٹری مالک اور انتظامیہ سمیت 9 افراد کیخلاف سائٹ اے تھانے میں درج کرکےتفتیش شروع کر دی گئی ہے۔ ایس ایس پی انویسٹیگیشن ڈاکٹر حفیظ کے مطابق ایف آئی آر میں نامزد8 افراد کو گرفتارکرلیا گیاہے۔ ذکوۃ اور راشن کی تقسیم کے دوران ایس او پیز کا خیال نہیں رکھا گیا۔ایف آئی آرمیں لاپرواہی اور غفلت کی دفعہ شامل کی گئی ہیں۔
تفتیشی افسران نے واقعے کے اصل محرکات تک پہنچنے کیلئے آج دوبارہ فیکٹری کا دورہ کیا، ایس ای!س پی کیماڑی ڈاکٹرحفیظ نے میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ واقعہ غفلت اورلاپروائی کے باعث پیش آیا۔
فیکٹری کا مرکزی دروازہ کھولنے کےبعد اندرونی دروازہ نہیں کھولا گیا، ان دونوں دروازوں کے درمیان 70سے 80 فٹ کافاصلہ ہے اور درمیان میں ڈھلان اورتنگ گلی ہے۔ فیکٹری کا دروازہ کھلتے ہی پیچھے سے آنے والے آگے موجود ضعیف اوربچوں پرچڑھ گئے اورپانی کی لائن بھی اسی دوران ٹوٹی۔
انہوں نے پانی میں کرنٹ کی موجودگی کے باعث ہلاکتوں کے امکان کو رد کرتے ہوئے کہا کہ پانی میں کرنٹ کے کوئی شواہد نہیں ملے، یہ واقعہ غفلت اور لاپروائی کے باعث پیش آیا کیونکہ فیکٹری مالکان نےایس او پیز کا خیال نہیں رکھا۔
ڈی سی کیماڑی مختیار ابڑو کا کہنا تھاکہ تمام افراد کی موت دم گھٹنے سے ہوئی، فیکڑی کو سیل کردیا گیا ہے۔
واقعے میں جاں بحق افرادکی میتیں ایدھی سردخانےمیں موجود ہیں جبکہ 2خواتین کی میتیں میرپور ماتھیلو روانہ کر دی گئی ہیں۔ جاں بحق افراد کی نمازجنازہ آج ادا کی جائے گی۔
عینی شاہدین نے کیا بتایا
عینی شاہدین کےمطابق پانچ سو سے زائد خواتین اور بچوں میں نقد رقم تقسیم کی جارہی تھی کہ اچانک بھگڈر مچ جانے سے پانی کی پائپ لائن پھٹ گئی اور خواتین اور بچے ایک دوسرے کے نیچے بری طرح کچلے گئے۔
سائٹ ایریا میں فیکٹری کے باہر راشن لینے کے لئے آنے والی خاتون نے آج نیوز کو بتایا کہ لوگوں کو راشن لینے میں دشواری کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا، خاتون نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ خدمت کا کام ایسے تماشا کر کے نہیں کیا جاتا۔
عینی شاہد کے مطابق، ’رقم بانٹنے سے پہلے فیکٹری کے دروازے بند تھے، فیکٹری کا دروازہ جیسے ہی کھلا بچے اور خواتین اندر کی طرف بھاگے تھے جنہیں روکنے کے لئے فیکٹری ملازمین نے پانی چھوڑا، بھگدڑ اور پانی کے پریشر سے خواتین اور بچے ایک دوسرے پر گرے، میری اپنی 11 سالہ بیٹی امہ ہانی بھی اس واقعے میں جاں بحق ہوئی ہے۔‘
اس سے قبل ریسکیو حکام کا کہنا تھا کہ راشن تقسیم کے دوران بَھگدڑ کے دوران نالے کی دیوار بھی گری، کئی افراد نالے کے پانی میں گرے جبکہ کچھ بھاگنے کے دوران گر کر زخمی ہوئے۔ فیکٹری کے جس گیٹ پر آٹا تقسیم کیا جارہا تھا وہاں جگہ بہت تنگ تھی، بچوں کی اموات دم گھٹنے سے ہوئیں۔ بھگدڑ مچنے سے قبل نالے میں لائن پھٹنے سے متاثرہ مقام پر پانی پھیل گیا تھا جس سے بجلی کے تار بھی نالے کے پانی میں گرے۔
دوسری جانب وزیراعلیٰ سندھ نےجاں بحق افراد کے ورثاء کے لیے 5 لاکھ جب کہ زخمی شخص کے لیے 1 لاکھ روپے مالی امداد کا اعلان کردیا۔چیف سیکریٹری کو متاثرین کے کوائف فوری حاصل کرنے کی ہدایت بھی کی گئی ہے جنہیں 2 ہزار روپے کی امدادی رقم تقسیم کی جائے گی۔ فیکٹری میں بھی 2 ہزار روپے فی شخص تقسیم کیے جارہے تھے۔
Comments are closed on this story.