Aaj News

جمعہ, نومبر 22, 2024  
19 Jumada Al-Awwal 1446  

سپریم کورٹ کا پورا زور الیکشن تاریخ پر، اٹارنی جنرل پچھلے فیصلے کی تشریح کیلئے مصر

چیف جسٹس نے انتخابی اخراجات کیلئے ججوں کی تنخواہ سے کٹوتی کی تجویز دے دی
اپ ڈیٹ 28 مارچ 2023 03:33pm
سپریم کورٹ آف پاکستان
سپریم کورٹ آف پاکستان

پنجاب اور خیبرپختونخوا میں انتخابات ملتوی کرنے کے خلاف پی ٹی آئی کی درخواست پر سماعت سپریم کورٹ میں جاری ہے۔

سپریم کورٹ میں پی ٹی آئی کی جانب سے پنجاب اور خیبر پختون خوا میں انتخابات مؤخر کرنے کیخلاف درخواست پر سماعت ہورہی ہے۔

درخواست پر سماعت چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 5 رکنی بینچ کررہا ہے، دیگر ارکان میں جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس امین الدین خان اور جسٹس جمال مندوخیل شامل ہیں۔

نئے اٹارنی جنرل منصور اعوان، فاروق نائیک اور بیرسٹر علی ظفر کے علاوہ فواد چوہدری اور شیخ رشید بھی کمرہ عدالت موجود ہیں۔

سماعت شروع ہوئی تو چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ پہلے اٹارنی جنرل کو سنیں گے، کارروئی کو لمبا نہیں کرنا چاہتے، سادہ سا سوال ہے کیا الیکشن کمیشن کو فیصلے کا اختیار تھا، الیکشن کمیشن تاریخ آگے کر سکتا ہے یا نہیں، اگر اس کا اختیار ہوا تو بات ختم ہوجائے گی۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ جمہوریت کیلیے قانون کی حکمرانی لازمی ہے، قانون کی حکمرانی کے بغیر جمہوریت نہیں چل سکتی، سیاسی درجہ حرارت اتنا ذیادہ ہوگا تو مسائل بڑھیں گے، کل بھی کہا تھا کہ قانونی معاملہ خلاء میں حل نہیں کی جاسکتا، معاشرے اور سیاسی قیادت میں ڈسپلن کی ضرورت ہے۔

فاروق ایچ نائیک روسٹم پرآئے اور عدالت کے سامنے مؤقف پیش کیا کہ آئین زندہ دستاویز ہے اس کی تشریح زمینی حالات پر ہوسکتی ہے، موجودہ سیاسی حالات میں ملک کیلئے کیا بہتر ہے وہ تعین کرنا ہے، سیاسی جماعتیں اسٹیک ہولڈرز ہیں انہیں لازمی سنا جائے۔

جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ یہ سوال پارلیمنٹ میں کیوں نہیں اٹھایا جاتا۔ جس پر اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ سپریم کورٹ کے 2 ججز نے پہلے فیصلہ دیا۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ اس وقت سوال فیصلے کا نہیں الیکشن کمیشن کے اختیار کا ہے۔

اٹارنی جنرل نے مؤقف پیش کیا کہ یکم مارچ کے عدالتی حکم کو پہلے طے کرلیا جائے، عدالتی حکم نہیں تھا تو صدرتاریخ بھی نہیں دے سکتے تھے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ عدالتی فیصلے کا معاملہ اٹھانا ہے تو الگ سے درخواست دائر کریں، اس وقت مقدمہ تاریخ دینے نہیں منسوخ کرنے کا ہے، دیکھنا ہے کہ الیکشن کمیشن کواختیار تھا یا نہیں، جمہوریت کیلئے انتخابات ضروری ہیں۔

سیاسی جماعتوں کے وکیل فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ ملک میں اس وقت انار کی اور فاشزم ہے، عدالت ہمیں موقع دے تو کیس تیار کریں گے۔

چیف جسٹس نے فاروق ایچ نائیک سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ سینئر وکیل ہیں، کیس تو آپکے دل میں ہے، معاشرے اور سیاسی قیادت میں ڈسپلن کی ضرورت ہے۔

اٹارنی جنرل نےانتخابات کیس کیلئے فل کورٹ بینچ کی استدعا کر دی، اور پی ٹی آئی کی درخواست پر بھی اعتراض کردیا۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ 2 ججز کے اختلافی نوٹ کو دیکھا جن کا اپنا نقطہ نظر ہے، ان کے اختلافی نوٹ کا کیس سے براہ راست تعلق نہیں، فیصلہ کتنی اکثریت کا ہے اس کا جائزہ بعد میں لیاجاسکتاہے، فی الحال سنجیدہ معاملات سے توجہ نہ ہٹائی جائے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آپ کی استدعا ہم نے سن لی۔ جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ موجودہ کیس میں استدعا ہی فیصلے پرعملدرآمد کی ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ بینچ کے ارکان درخواست کے سوال کا جائزہ لینے بیٹھے ہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کا انحصار تکنیکی نکتے پرہے، سپریم کورٹ کا دائرہ اختیار درخواست تک محدود نہیں ہوتا۔

جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیتے ہوئے استفسار کیا کہ فیصلہ کتنےارکان کا ہے یہ ہمارا اندرونی معاملہ ہے، یہ بتائیں کہ کیا 90 روزمیں انتخابات کرانا آئینی تقاضا نہیں، کیا الیکشن کمیشن انتخابات کی تاریخ منسوخ کرسکتا ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ معاملہ کلیئر کرنے پر جسٹس جمال مندوخیل کا مشکورہوں، تمام قومی اداروں کا احترام لازمی ہے۔

وکیل پی ٹی آئی علی ظفر نے کہا کہ ہر ادارے کو اپنی آئینی حدود میں کام کرنا ہے۔

چیف جسٹس نے پی ٹی آئی کے وکیل سے مکالمہ کیا کہ آپ کی اعلی قیادت سے بھی ایسے رویے کی توقع ہے، پی ٹی آئی کو پہل کرنا ہو گی کیونکہ عدالت سے رجوع انہوں نے کیا، ملک میں اس وقت تشدد اور عدم برداشت ہے، معاشی حالات دیکھیں آٹے کیلئے لائنیں لگی ہوئی ہیں، آپس میں دست وگریبان ہونے کے بجائے ان لوگوں کا سوچیں۔

پی ٹی آئی وکیل علی ظفر نے کہا کہ انتخابات تاخیر کا شکار ہوئے تو بحران مزید بڑھے گا۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ تحریک انصاف پہل کرےگی توہی حکومت کوکہیں گے۔

جسٹس امین الدین نے استفسار کیا کہ کیا الیکشن شیڈول 90 دن سے کم کیا جا سکتا ہے۔ جسٹس اعجاز الحسن نے ریمارکس دیئے کہ الیکشن کمیشن کے پاس 90 دن کے اندر شیڈول ایڈجسٹ کرنے کا اختیارہے، اور وہ بظاہر90 دن سے تاخیر نہیں کرسکتا۔

جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ 90 روز اب بھی گزر گئے ہیں، آئین کی ہمارے ملک میں کوئی پرواہ نہیں کرتا، الیکشن توہرصورت ہونے ہیں، لیکن سوال یہ ہے کہ اب 90 دن سے زیادہ تاریح کون بڑھائے گا، سوال یہ بھی ہے کیا ایک بندے کی خواہش پر اسمبلی تحلیل ہونی چاہیے۔

پی ٹی آئی کے وکیل نے جواب دیا کہ وزیراعظم اور وزیراعلی منتحب نمائندے ہوتے ہیں۔

جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ اگر وزیراعظم کی اپنی جماعت عدم اعتماد لانا چاہیے تو اسمبلی ٹوٹ سکتی ہے۔

وکیل علی ظفر نے کہا کہ تحریک عدم اعتماد آجائے تو اسمبلی تحلیل نہیں ہوسکتی۔ جسٹس جمال نے وکیل علی ظفر سے سوال کیا کہ کیا پارلیمنٹ کو اس معاملے کو نہیں دیکھنا چاہیے۔ وکیل علی ظفر نے کہا کہ وزیراعظم اور وزیراعلی کے اختیار پر پارلیمنٹ بحث کرسکتی ہے۔

جسٹس اعجاز الحسن نے ریمارکس دیئے کہ عدالتی فیصلہ پرعمل ہوچکا ہے، صدر کی تاریخ پر الیکشن کمیشن نے شیڈول جاری کیا، سوال یہ ہے کیا الیکشن کمیشن کا اختیار ہے کہ صدر کی تاریخ تبدیل کردے، کیا الیکشن کمیشن 90 دن سے زیادہ کی تاخیرکرسکتا ہے، سوال یہ ہے کہ کیا الیکشن کمیشن ایسا کرسکتا ہے۔

وکیل علی ظفر نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے پنجاب کی حد تک عدالتی فیصلہ پر عمل کیا۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا الیکشن کمیشن کے پاس تاریخ کا تعین کرنے کااختیارہے، کیا الیکشن کمیشن صدر کی تاریخ کو تبدیل کرسکتا ہے۔ الیکشن ایکٹ کا سیکشن 58 انتحابات منسوح کرنے کی اجازت نہیں دیتا، 2008 میں انتحابات تاخیر کا شکارہوئے تھے۔

پی ٹی آئی وکیل علی ظفر نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے آئین کے دو آرٹیکلز کا سہارا لیا ہے۔

جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ الیکشن کمیشن نے کہا کہ وہ آئینی ذمہ داری ادا کرنے سے قاصر ہیں، اگر الیکشن کمیشن 8 اکتوبر کی بھی تاریخ نہ دیتا تو کیا ہوتا۔

جسٹس اعجازالحسن نے ریمارکس دیئے کہ الیکشن کمیشن تاریح تبدیل کرنے کیلئے صدر سے رجوع کر سکتا تھا، تمام انتظامی ادارے الیکشن کمیشن سے تعاون کے پابند ہیں، وجوہات ٹھوس ہوں توہی کمیشن رجوع کرسکتا ہے۔

وکیل پی ٹی آئی نے مؤقف اختیار کیا کہ آرٹیکل 220 تمام حکومتوں اور اداروں کو کمیشن سے تعاون کا پابند کرتا ہے، الیکشن کمیشن نے صرف اداروں سے مؤقف لے کر فیصلہ لکھ دیا، عدالت کمیشن سے پوچھے کہ آئینی اختیار استعمال کیوں نہیں کیا، انتظامی ادارے تعاون نہ کریں تو آرٹیکل 5 کا اطلاق ہوگا، ہر ادارہ آئین اور شخص آٸین وقانون پرعمل کرنے کاپابند ہے۔

چیف جسٹس نے انتخابات کیلئے ججز کی تنخواہوں میں کٹوتی کی تجویز دیتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ الیکشن کیلئے پورے بجٹ کی ضرورت ہی نہیں ہے، 20 ارب کا کٹ ہماری تنخواہوں پربھی لگایاجاسکتا ہے، حکومت اخراجات کم کرکے 20 ارب نکال سکتی ہے۔

وکیل پی ڈی ایم فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ موجودہ کیس میں قومی اسمبلی موجود ہے، نئی اسمبلی اخراجات کی منظوری دیتی ہے، سیکریٹری خزانہ کے بیان کا جواب الیکشن کمیشن ہی دے گا۔

پی ٹی آئی وکیل علی ظفر نے کہا کہ یہ تکنیکی نقطہ ہے کہ پیسے کہاں سے آنے ہیں۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ملک معاشی بحران سے گزررہا ہے، معاشی بحران کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا، بحران سے نمٹنے کیلئے قربانی دینا ہوتی ہے، 5 فیصد تنخواہ کٹنے سے الیکشن کا خرچہ نکل سکتا ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ خیبر پختونخوا میں اداروں نے سب سے زیادہ آپریشن کیے، پنجاب میں ابتک صرف 61 آپریشن ہوئے، سندھ میں367 اور خیبرپختونخوا میں 1245 آپریشن ہوئے، پنجاب کی صورتحال خیبر پختونخوا سے مختلف ہے، ترکی زلزلہ متاثرہ علاقوں کےعلاوہ ہر جگہ الیکشن ہو رہے ہیں۔

وکیل پی ٹی آئی علی ظفر نے کہا کہ الیکشن ایکٹ بھی کہتا ہے جہاں مسئلہ ہو وہاں پولنگ منسوخ ہو سکتی ہے، ایسا نہیں ہوسکتا کہ پورا الیکشن ملتوی کردیا جائے۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا ایمرجنسی لگا کر ہی الیکشن ملتوی کیے جا سکتے ہیں، کیا الیکشن کمیشن کا فیصلہ ایمرجنسی نافذ کرنےکی بات کرتا ہے۔

وکیل پی ٹی آئی نے کہا کہ ابسلوٹلی ناٹ۔

علی ظفر کے جواب پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ابسلوٹلی ناٹ تو آپ نے کسی اور کو کہا تھا۔

جسٹس مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ الیکشن کمیشن نے بال وفاقی حکومت کی کورٹ میں پھینکی، جواب بالاخر وفاقی حکومت کو ہی دینا ہوگا۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ الیکشن کمیشن کا حکم نامہ چیلنج کیا گیا ہے۔

الیکشن کمیشن کے وکیل نے اضافی دستاویزات کیلئے وقت مانگتے ہوئے استدعا کی کہ جو اجلاس ہوئے ان کے منٹس پیش کرنا چاہتے ہیں کل تک وقت دیں۔

چیف جسٹس نے الیکشن کمیشن کے وکیل کو ریمارکس دیئے کہ کل تک وقت نہیں دے سکتے، آپ دلائل کا آغاز کریں کل دوبارہ موقع دیں گے۔

دوران سماعت ن لیگ کے وکیل اکرم شیخ عدالت میں پیش ہوئے اور عدالت نے سیاسی جماعتوں کو بھی سننے کا کہا تھا، عدالت فریق بنائے اور تحریری جواب کے بغیر کیسےسن سکتی ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ پہلے قانونی نکتے طے ہو جائیں پھر آپ کو بھی موقع دیں گے۔

اٹارنی جنرل نے عدالت میں مؤقف پیش کیا کہ صرف پنجاب کی حد تک الیکشن کمیشن کا فیصلہ چیلنج کیا گیا، گورنر کے پی کا معاملہ سپریم کورٹ میں الگ سے چیلنچ ہے، الیکشن کمیشن کے فیصلےک ا دفاع اس کے وکلاء کریں گے۔

اٹارنی جنرل نے مؤقف اختیار کیا کہ حکومت سے فنڈز اور سیکورٹی کا مطالبہ کیا گیا تھا، پولنگ اسٹیشنز پر فوج تعیناتی کا مطالبہ کیا گیا تھا، اضافی ٹیکس لگانے سے عوام کو مزید مشکلات ہوں گی۔

جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے کہ حکومت نے تخمینہ 170 ارب سے زیادہ کا ہی لگایا ہو گا۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ 30 جون تک 170 ارب روپے وصول کرنے کا ہدف ہے، آئی ایم ایف کا مطالبہ تھا کہ شرح سود میں اضافہ کیاجائے، شرح سود میں اضافے سے مقامی قرضوں میں اضافہ ہوا۔

جسٹس منیب اختر نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ کیا 20 ارب روپے جمع کرنا حکومت کیلئے مشکل کام ہے، کیا عام انتحابات کی کوئی اہمیت نہیں ہے؟، صوبوں کوخطرات سےبچانا وفاق کی آئینی ذمہ داری ہے۔

اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ 18وں ترمیم کے بعد وفاقی غریب اور صوبے امیر ہوئے ہیں، معاشی صورتحال سے کل آگاہ کروں گا۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آپ نےکہا الگ الگ انتخابات کرانے کے پیسے نہیں ہیں۔ جسٹس اعجاز الحسن نے ریمارکس دیئے کہ معاملہ ترجیحات کا ہے، لیپ ٹاپ کیلئے 10 ارب روپے نکل سکتے تو انتخابات کیلئے 20 ارب کیوں نہیں۔

تحریک انصاف کے فواد چوہدری نے کہا کہ ترقیاتی منصوبوں کیلئے بھی اراکین کو فنڈز دیے گیے ہیں۔

جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے کہ اراکین کو فنڈز دینا عدالتی حکم کی بھی خلاف ورزی ہے، کیا ترقیاتی فنڈز کے اعلان کی وقت آئی ایم ایف کی شرائط نہیں تھیں۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ ترقیاتی فنڈ والی بات شاید 5 ماہ پرانی ہے، اس حوالے سے ہدایت لے کر آگاہ کروں گا۔

جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ الیکشن کیلئے فنڈز دینا صوبے کی ذمہ داری ہے یا وفاق کی۔

جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیئے کہ الیکشن کیلئے فنڈزفراہم کرنا وفاق کی ذمہ داری ہے۔ جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے کہ آئین کے تحت سپلمنٹری گرانٹ جاری کی جاسکتی ہے۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ مسئلہ آئینی اختیارکا نہیں وسائل کی کمی کا ہے۔

جس پر جسٹس منیب اختر نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ کیا گارنٹی ہے اکتوبر میں حالات ٹھیک ہو جائیں گے، کیا ہم سمجھیں کہ قوم دہشتگردوں کے ہاتھوں یرغمال ہے، کیا یہ پھر بنانا ریپبلک بن گیا ہے، آرمڈ فورسزحکومت کے ماتحت ہوتی ہیں، ڈیوٹی کرنے میں کیا مسئلہ ہے؟ ڈیوٹی تو ڈیوٹی ہے۔

سپریم کورٹ میں انتخابات ملتوی کرنےکیخلاف درخواست پرسماعت کل تک ملتوی کردی۔

گزشتہ روز کی سماعت

اس سماعت کا آغاز کل ہوا تھا، جس کے مطابق عدالت نے آئین کے مطابق الیکشن کا وقت پر ہونا لازم قراردیا۔

گزشتہ روز سپریم کورٹ نے وفاق، الیکشن کمیشن اور اٹارنی جنرل، پنجاب اور خیبرپختونخوا کی نگران حکومتوں، دونوں صوبائی گورنرز سمیت درخواست گزاروں کو بھی نوٹس جاری کیے تھے۔

تمام فریقین کو نوٹس جاری کرتے ہوئے الیکشن کمیشن سے درخواست میں اٹھائے گئے قانونی سوالات کے جواب طلب کیے تھے۔

اسلام آباد

justice umer ata bandiyal

Supreme Court of Pakistan

Punjab KP Election Case

CJP Bandial

politics march 28 2023