Aaj News

جمعہ, نومبر 22, 2024  
19 Jumada Al-Awwal 1446  

سپریم کورٹ فیصلہ، ’پارلیمان کی حد میں بڑی حد تک مداخلت ہوئی‘

ججز کا اختلافی نوٹ، کیا معاملات پہلے سے چل رہے تھے؟
شائع 27 مارچ 2023 09:20pm
Extraordinary circumstances and extraordinary events, Rebellion in Supreme Court???| Faisla Aap Ka

سابق وزیراعظم پاکستان اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سینئیر رہنما شاہد خاقان عباسی کا سپریم کورٹ کے ججز کے اختلافی نوٹ اور انتخابات کے حکم پر کہنا ہے کہ دیکھنا یہ ہوگا پارلیمنٹ کس طرح اقدام اٹھائے گی، پارلیمنٹ کو اس پر آواز اٹھانی چاہئیے کیونکہ یہ اس کی حدود ہے، اس میں بڑی حد مداخلت ہوئی ہے، اس کو ختم کرنے کی ضرورت ہے۔

آج نیوز کے پروگرام ”فیصلہ آپ کا“ میں سپریم کورٹ کے ججز کے آج سامنے آنے والے اختلافی نوٹ کے حوالے سے بات کرتے ہوئے شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ سپریم کورٹ نے ماضی میں کوئی نیک نامی نہیں کمائی ہے، آج بھی بینچ ایسے بنائے جاتے ہیں جو یکطرفہ فیصلے دیتے ہیں۔ آج سپریم کورٹ کے ججز نے خود بات کردی ہے کہ چیف جسٹس کے کیا اختیارات ہیں۔ آج وقت ہے کہ چیف جسٹس ان باتوں کا نوٹس لیں کہ جب آئین بنا تو کیا یہی طریقہ تھا جو وہ کر رہے ہیں۔ چیف جسٹس نے کُلی اختیار اپنے آپ کو دے دئیے ہیں۔

پارلیمانی اور سیاسی جماعتوں کے اس پر اقدامات اٹھانے کے سوال پر انہوں نے کہا کہ جو کچھ ہوا ہے اس کی درستگی تو کرنی پڑے گی، میاں نواز شیرف کے خلاف 2017 والے فیصلے کا کوئی شخص دفاع نہیں کرسکتا ، وہ اتنا غلط فیصلہ تھا۔ آج جہاں ہم کھڑے ہیں اس کی بڑی وجہ 28 جولائی 2017 کا فیصلہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ جس پیمانے پر نواز شریف کو نااہل کیا، اس پر تو عمران خان دس ہزار مرتبہ نااہل ہوجائیں گے۔ نواز شریف کو پیسے نہ لینے پر نااہل کیا، عمران خان اربوں کا حساب نہیں دے پائے۔

شاہد خاقان عباسی کا کہنا تھا کہ ہمارا نقطہ نظر کسی جج کے خلاف نہیں ہے، جج کے عمل کے خلاف ہے۔ جو کچھ انہوں نے کیا وہ سب کے سامنے ہے، وہ مانتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ذوالفقار علی بھٹو کا جو فیصلہ ہوا، اس بینچ کے ہر جج نے مرنے سے پہلے اعتراف کیا کہ میں نے ظلم کیا، دباؤ مین آخر فیصلہ دیا، 28 جولائی 2017 کے فیصلے کا، فیصلہ لکھنے والے خود بھی دفاع نہیں کرسکتے۔

سابق وزیراعظم نے زور دیا کہ ملک میں ٹروتھ کمیشن کی ضرورت ہے، تاکہ حقائق سامنے آئیں، آج عوام کو اس کی ضرورت ہے۔ لوگوں کو پتا چلے کہ اس ملک میں ہوتا کیا ہے تاکہ ہم اس سے سبق حاصل کرسکیں۔

لندن میں نواز شریف سے ملاقات میں کیا بات ہوئی؟ اس کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ میاں صاحب سے ملاقات میں کوئی سیاسی بات نہیں ہوئی۔ انہوں نے صرف کھانے کی دعوت دی تھی۔

ایک سوال کے جواب میں ان کا کہن اتھا کہ جنرل (ر) باجوہ نے جوباتیں کی ہیں وہ خود ان کے خلاف ثبوت ہے، میری ان کو رائے ہے کہ وہ محتاط رہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ کوئی ساسی جماعت الیکشن سے خوفزدہ نہیں ہوتی وہ ختم ہوجاتی ہے، اس لئے الیکشن جب بھی ہوں گے ن لیگ حصہ لے گی۔

پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے سابق جج جسٹس (ر) شائق کا کہنا تھا کہ چیف جسٹس نے جو کہا وہ درست ہے، نکتہ اعتراض اور عمل درآمد کے بعد صدر نے جو فیصلہ جاری کیا وہ درست ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ انہیں مخالفت کرنے کا حق ہے، پہلے مختصر فیصلہ دیا تھا، اب تفصیلی فیصلہ سنادیا ہے۔

کورٹ رپورٹر حسنات ملک نے پروگرام میں کہا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیس کے بعد ججوں کے اختلافات شروع ہوئے۔ اور ججز واضح طور پر دو کیمپوں میں بٹ گئے: ایک طبقہ کا خیال تھا کہ جسٹس عیسیٰ فائز کو جواب دینا چاہیے اور معاملہ ایف بی آر کو بھیج دیا گیا۔ دوسرے حصے کا خیال تھا (جو اکثریت میں نکلا) کہ جس طرح سے ریفرنس دائر کیا گیا ہے یہ بدنیتی ہے۔ اس لیے اس حوالہ کو منسوخ کر دیا جانا چاہیے اور اکثریت نے اسے منسوخ کر دیا۔ لیکن سماعت کے دوران ججوں نے عدالتی حکم میں ایک دوسرے کو مخاطب کیا۔

حسنات ملک کے مطابق ایک موقع پر ایک سیکشن نے کہا کہ جب جج نظرثانی کے لیے بیٹھیں تو انہیں خاموش بیٹھنا چاہیے اور بات نہیں کرنی چاہیے۔ وہ دوسرے طبقے سے مخاطب تھے۔ انہوں نے کہا کہ جب دوسرے سیکشن نے حکم دیا کہ نظرثانی میں صرف وہی جج بیٹھیں جو پہلے بیٹھے تھے۔ لہٰذا ایک دوسرے پر سوال اٹھانا جسٹس عیسیٰ کے مقدمے کے بعد شروع ہوا۔

حسنات ملک کے مطابق بنیادی وجہ یہ ہے کہ چیف جسٹس کا استحقاق/حق لامتناہی ہے، اس میں چیف جسٹس کی بنچ کی تشکیل (ماضی میں اور اب بھی دیکھی گئی) یہ ظاہر کرتی ہے کہ وہ ہم خیال اور ان لوگوں کے ساتھ ہیں جن کے ساتھ وہ کمفرٹیبل ہیں۔ یوں اکثریتی جج سیاسی ہائی پروفائل کیسز میں بیٹھے ہیں تو اس پر یہ معاملہ چل رہا ہے، پچھلے ایک سال سے سینئر جج قاضی فائز عیسیٰ، جسٹس سردار طارق (عیسیٰ کے بعد سینئر ترین جج) کسی ہائی پروفائل سیاسی میں نہیں بیٹھے۔

ان کے مطابق اس کیس میں اور کچھ دیگر میں جج پچھلے 5 سالوں میں 70 سے زیادہ کیسوں میں بیٹھے ہیں۔ لہٰذا یہ تفاوت یا امتیاز اب زیادہ واضح ہو گیا ہے۔

حسنات نے کہا کہ سپریم کورٹ میں حتمی اختیار چیف جسٹس کے پاس ہے اور چیف جستس کا حق ہے (ججوں کے کہنے کے باوجود کہ وہ اکثریت میں ہیں) چیف جسٹس نے ایک نیا معاملہ شروع کر دیا ہے کہ انہیں کسی بھی چیز میں ردوبدل کرنے، اس میں فرق کرنے کا حق ہے، وہ بنچ اور فل کورٹ میں اضافہ کر سکتے ہیں اور میرے خیال میں ضرورت پڑی تو تشکیل بھی دے سکتے ہیں۔ لیکن مجھے نہیں لگتا کہ وہ فل کورٹ بنچ بنائیں گے اور ججوں پر سوالات اٹھائیں گے، انہوں نے سب کو بتایا کہ میں ان کے ساتھ ہوں اور ان کے ساتھ بیٹھا ہوں۔ تو چیف جسٹس نے پیغام دیا ہے کہ وہ اپنے ان ججوں کے ساتھ ہیں۔

انہوں نے کہا کہ جن پر حکومت یا پی ایم ایل این کو تحفظات ہیں۔ وہ دو تین جج ہیں۔ یہاں تک کہ آزاد وکلاء (جو کسی سیاسی جماعت سے وابستہ نہیں ہیں) کہتے ہیں کہ موجودہ دور میں فل کورٹ بننا چاہیے۔ چیف جسٹس کا اختیار عدالتی حکم کے ذریعے تشکیل دیا گیا ہے اور کوئی بھی اسے چیلنج نہیں کر سکتا اور نہ ہی بنچ کی تشکیل پر پوچھ سکتا ہے۔

جب ان سے سوال ہوا کہ الیکشن 90 دن، کیا وزیراعظم کو طلب کیا جا سکتا ہے؟ تو انہوں نے جوابب دیا کہ عدالتی فیصلے اخلاقی اتھارٹی پر ہوتے ہیں، اخلاقی اتھارٹی ختم ہو چکی ہے۔ آج آرڈر آیا کہ آپ اقلیت میں ہیں اکثریت میں نہیں، اس لیے آپ کے جج آپ سے سوال کر رہے ہیں کہ آپ وزیراعظم یا ای سی پی کو کس اختیار پر پابند کر سکتے ہیں۔

سوال ہوا کہ آج چیف جسٹس نے کہا کہ سیاسی جماعتوں کو پولرائزیشن کے خاتمے کے لیے مل بیٹھنا چاہیے۔ اس سے سوال پیدا ہوتا ہے کہ ججز ایک ساتھ کیوں نہیں بیٹھتے؟

جس پر ان کا کہن اتھا کہ میرے خیال میں ججوں کے لیے یہ بہت مشکل ہو گا کیونکہ متعلقہ حلقے پانامہ کے وقت کی طرح تقسیم ہیں۔ اگلے دو تین روز میں واضح ہو جائے گا کہ فیصلے کا اطلاق ہوگا یا نہیں۔

Politics March 27 2023