Aaj News

ہفتہ, نومبر 23, 2024  
21 Jumada Al-Awwal 1446  

دربدری، سفارتکاری اور چسکہ، بدیس میں دیسی کھانوں کی کہانی

اپنے کھانوں اور مہمان نوازی سے دل جیتنے والی مرینہ فرید
شائع 17 مارچ 2023 09:55pm

مرینہ فرید محبت اور دوستی کی پیدائشی سفیر ہیں، یا یوں کہیں کہ ان کی زندگی کا مقصد اپنی مہمان نوازی سے نا صرف پاکستانیوں بلکہ نیویارک میں رہتے ہوئے خاص طور پر جنوب ایشیائی باشندوں کا دل جیتنا تھا۔

کئی دہائیوں تک نیویارک کے مین ہٹن ڈسٹرکٹ میں اپنے گھر میں مہمانوں کو کھلے دل کے ساتھ کھانا پیش کرنے کے بعد، مرینہ فرید نے اپنی یادوں کو دستاویزی شکل دینے کے بارے میں سوچا اور ”یو آر انواٹیڈ: ڈپلومیٹس، ڈاسپورا اور ڈیگسٹیشن“ کے عنوان سے ایسی کتاب پیش کی ہے۔

اس کتاب میں انہوں نے نہ صرف اپنی زندگی کی سنہرے یادوں کو یکجا کیا بلکہ پردیس میں بنائے روایتی کھانوں کی تاریخ اور مزیدار ترکیب بھی شامل کیں جو یقیناً پڑھنے والے کی دلچسپی کا باعث بن سکتی ہے کیونکہ پردیس میں کسی کی یاد آئے نہ آئے لیکن ہر شخص اپنے روایتی کھانوں کو ضرور یاد کرتا ہے، انہوں نےکتاب میں بھی شاہی کھانے، مختلف اقسام کی بریانی، سبزیوں سے بنے منفرد پکوان کی ترکیب اور تصاویر شامل کیں جسے دیکھ کر ہی منہ میں پانی آجائے۔

کچے قیمے کے کباب

چنے کی دال کے ساتھ خشک قیمہ

انہوں نے اپنی تاریخی کتاب کی تقریبِ رونمائی کے لئے کراچی کے تاریخی مقام موہاٹہ پیلس کا انتخاب کیا، اس موقع پر آج نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اپنی زندگی سے متعلق یہ کتاب میں نے 60 کی دہائی میں ہی لکھنا شروع کردی تھی، وہ دور پاکستان کیلئے بہت اہم تھا کیونکہ یہ وہ وقت تھا جب پاکستان معاشی طور پر بہت پُرامید اور مستحکم ملک ہوتا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ جب غیر ملکی ہمارے گھر آتے تھے تو میری کوشش ہوتی تھی کہ انہیں اپنے روایتی کھانوں سے تواضع کروں۔

انہوں نے بتایا امریکہ میں رہنے کی وجہ سے ہم ایسے کھانوں کی ترجیح دیتے تھے جو آسانی سے تیار ہوجائے اس میں میری پسندیدہ کچے گوشت کی بریانی بھی ہے کیونکہ اسے بنانا بہت آسان ہوتا ہے۔

اپنی کتاب میں وہ بتاتی ہیں کہ شادی کے بعد وہ اسپین میں مقیم تھیں وہاں ایک وقت ایسا بھی تھا جب ان کے شوہر قاضی شوکت دفتر جاتے ناشتہ کرنا چاہتے تھے لیکن وہ ناشتہ نہیں بنا سکتی تھیں کیونکہ انہوں نے الیکٹرک چولہا پہلی بار دیکھا تھا اور وہ اپنی والدہ کے گھر میں بامشکل ہی کچن کا رخ کرتی تھیں۔

تقریب میں معروف فلم ساز ثاقب ملک نے بھی شرکت کی جن کا کہنا تھا کہ مرینہ آنٹی کے گھر کے دروازے ہمیشہ سب کیلئے کھلے ہوتے ہیں، ہم جب امریکہ میں تھے اور پاکستانی کھانوں کی یاد آتی تھی تو ہم مرینہ آنٹی کے گھر چلے جاتے تھے، ان ہاتھ کے بنے شامی کباب بہت مزیدار ہوتے ہیں۔

ثاقب کا کہنا تھا کہ پاکستان میں ایسی فلمیں بھی بننی چاہئیں جن میں ہم اپنے روایتی کھانوں کو فروغ دیں جسے اسپینش، فرانسیسی فلمیں دیکھیں یہاں تک کہ ہندی فلموں میں بھی وہ اپنے روایتی کھانوں کو پیش کرتے ہیں۔

یہ کتاب دلوں اور یادوں کو جیتنے والی مزیدار کھانوں کی ترکیبوں سے بھرپور ہے۔