Aaj News

جمعہ, نومبر 22, 2024  
19 Jumada Al-Awwal 1446  

دوسری شادی کرنے والی طلاق یافتہ افغان خواتین کو گرفتاری کا خدشہ، ’یا خدا، شیطان واپس آگیا‘

طالبان کا طلاق یافتہ خواتین کو ظلم کرنے والے سابق شوہروں کے پاس واپس جانے کا حکم
اپ ڈیٹ 07 مارچ 2023 10:04pm
تصویر بزریعہ اے ایف پی
تصویر بزریعہ اے ایف پی

اس کے سابق شوہر نے برسوں اس پر تشدد کیا، اس کے تمام دانت توڑ دیے، وہ اپنے آٹھ بچوں کے ساتھ چھپنے پر مجبور ہوگئی، بمشکل اس نے طلاق کے زریعے اپنے اس ظالم شوہر سے چھٹکارا پایا، لیکن اب افغانستان پر حاکم طالبان نے اس کی طلاق کو ردی کے معمولی ٹکڑے کی طرح پھاڑ کر پھینک دیا۔

مروہ ان خواتین میں سے ایک تھیں، جنہیں سابق امریکی حمایت یافتہ حکومت کے تحت افغانستان میں قانونی علیحدگی فراہم کی گئی تھی۔ اور صرف مروہ ہی واحد طلاق یافتہ خاتون نہیں جنہوں نے یہ سلوک جھیلا۔

افغانستان میں لاکھوں ایسی خواتین ہیں جنہیں کوئی حقوق حاصل نہیں اور جہاں گھریلو تشدد ایک وبائی مرض بن چکا ہے۔

جب 2021 میں طالبان کی افواج اقتدار میں آئیں تو مروہ کے شوہر نے دعویٰ کیا کہ اسے طلاق دینے پر مجبور کیا گیا تھا، جس کے بعد طالبان کمانڈروں نے مروہ کو اس کے شوہر کے پاس واپس جانے کا حکم دیا۔

”میں اور میری بیٹیاں اس دن بہت روئیں۔“

چالیس سالہ مروہ، جن کا نام ان کی حفاظت کے لیے تبدیل کیا گیا ہے، انہوں نے اے ایف پی کو بتایا کہ، ”میں نے اپنے آپ سے کہا، ’یا خدا، شیطان واپس آ گیا ہے‘۔“

افغانستان میں طالبان حکومت اسلام کی سخت تشریح پر عمل پیرا ہے اور اس نے خواتین کی زندگیوں پر سخت پابندیاں عائد کر رکھی ہیں، جنہیں اقوام متحدہ نے ”صنف کی بنیاد پر نسل پرستی“ کا نام دیا ہے۔

افغانستان کے وکلاء نے اے ایف پی کو بتایا کہ طالبان کمانڈروں کی جانب سے طلاقیں منسوخ کئے جانے کے بعد کئی خواتین نے سابقہ پرتشدد اور تذلیل آمیز شادیوں میں واپس گھسیٹے جانے کی اطلاع دی ہے۔

کئی مہینوں تک مروہ نے ہر روز مار پیٹ کا ایک نیا سلسلہ سہا، انہیں گھر میں بند کیا گیا، یہاں تک کہ ان کے ہاتھ اور انگلیاں تک توڑ دی گئیں۔

انہوں نے بتایا، ”ایسے بھی دن تھے جب میں بے ہوش ہوتی تھی، اور میری بیٹیاں بیہوشی میں مجھے کھانا کھلاتی تھیں۔“

”وہ میرے بالوں کو اتنی زور سے کھینچتا تھا کہ میں جزوی طور پر گنجی ہو گئی تھی۔ اس نے مجھے اتنا مارا کہ میرے سارے دانت ٹوٹ گئے۔“

بالآخر انہوں نے گھر چھوڑنے کی ہمت جمع کی اور اپنی چھ بیٹیوں اور دو بیٹوں کے ساتھ بھاگ کر سینکڑوں کلومیٹر دور ایک رشتہ دار کے گھر چلی گئیں، جنہوں نے ان سب کے فرضی نام رکھے ہیں۔

اپنے ننگے گھر کے پھٹے ہوئے فرش پر ہاتھ میں تسبیح لئے بیٹھی مروہ نے کہا ”میرے بچے کہتے ہیں، ’ماں، اگر ہم بھوکے ہیں تو ٹھیک ہے۔ کم از کم ہمیں زیادتی سے تو نجات مل گئی ہے‘۔“

”یہاں ہمیں کوئی نہیں جانتا، یہاں تک کہ ہمارے پڑوسی بھی نہیں۔“

لیکن انہوں نے ڈرتے ہوئے خدشہ ظاہر کیا کہ ان کا شوہر انہیں ایک دن ضرور ڈھونڈ نکالے گا۔

’اسلام طلاق کی اجازت دیتا ہے‘

ملک میں موجود اقوام متحدہ کے مشن کے مطابق، افغانستان میں دس میں سے نو خواتین کو اپنے شوہر کے ہاتھوں جسمانی، جنسی یا نفسیاتی تشدد کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

تاہم، طلاق اکثر زیادتی سے زیادہ کریہہ سمجھی جاتی ہے، اور افغانستان کی ثقافت میں ان خواتین کو ناقابل معافی سمجھا جاتا ہے جو اپنے شوہروں سے علیحدگی اختیار کرتی ہیں۔

پچھلی امریکی حمایت یافتہ حکومت کے تحت کچھ شہروں میں طلاق کی شرح مسلسل بڑھ رہی تھی، جہاں خواتین کے حقوق کیلئے دئے گئے چھوٹے فوائد زیادہ تر تعلیم اور ملازمت تک محدود تھے۔

افغانستان کی ایک وکیل نظیفہ کہتی ہیں کہ ایک وقت تھا جب خواتین اپنے ساتھ جو کچھ بھی ہوا اس کے لیے اپنی قسمت کو مورد الزام ٹھہراتی تھیں۔

نظیفہ نے بدسلوکی کا شکار خواتین کے تقریباً 100 طلاق کے مقدمات کو کامیابی سے نمٹایا تھا، لیکن اب انہیں طالبان کے زیر اقتدار افغانستان میں کام کرنے کی اجازت نہیں ہے۔

جیسے جیسے شعور میں اضافہ ہوا، خواتین کو احساس ہوا کہ بدسلوکی کرنے والے شوہروں سے علیحدگی ممکن ہے۔

نظیفہ نے صرف اپنا پہلا نام بتانے کی شرط پر وضاحت کی کہ ”جب میاں بیوی کے تعلقات میں کوئی ہم آہنگی باقی نہیں رہتی تو اسلام بھی طلاق کی اجازت دیتا ہے۔“

معزول حکومت کے تحت ایسے مقدمات کی سماعت کے لیے خواتین ججوں اور وکلاء کے ساتھ خصوصی فیملی کورٹس قائم کی گئی تھیں، لیکن طالبان حکام نے اپنے نئے نظام انصاف کو مردوں کا معاملہ بنا دیا ہے۔

دوسری جانب ایسی افغان خواتین جن کو سابقہ حکومت کے تحت طلاق دی گئی تھی انہیں اپنی موجودہ حیثیت کا خوف ہے۔

واشنگٹن پوسٹ کے مطابق جن خوااتین نے طلاق کے بعد دوبارہ شادی کی ہے انہیں خدشہ ہے کہ وہ طالبان کے قانونی ضابطہ کے تحت زناکار تصور کی جا سکتی ہیں۔

نظیفہ نے اے ایف پی کو بتایا کہ ان کے پانچ سابقہ کلائنٹس نے مروہ جیسی ہی صورتِ حال کی اطلاع دی ہے۔

ایک اور وکیل جو اپنی شناخت ظاہر نہیں کرنا چاہتیں، انہوں نے اے ایف پی کو بتایا کہ حال ہی میں انہوں ایک عدالتی مقدمہ دیکھا جس میں ایک خاتون اپنے سابق شوہر کے پاس زبردستی دوبارہ بھیجے جانے کے خلاف لڑ رہی تھیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ طالبان حکومت کے تحت طلاقیں ان اقدامات تک محدود ہیں کہ شوہر ایک درجہ بند منشیات کا عادی ہو یا ملک چھوڑ کر چلا جائے۔

”لیکن گھریلو تشدد کے معاملات میں یا جب شوہر طلاق پر راضی نہیں تو عدالت خواتین کو طلاق اجازت نہیں دے رہی۔“

پناہ گاہوں اور خدمات کا ایک ملک گیر نیٹ ورک جو کبھی خواتین کی مدد کرتا تھا تقریباً مکمل طور پر ختم ہو چکا ہے، جبکہ وزارت برائے امور خواتین اور انسانی حقوق کمیشن کو مٹا دیا گیا ہے۔

طلاق کے بعد دوسری شادی کرنے والی خواتین کو گرفتاری کا خدشہ

مغربی افغانستان سے تعلق رکھنے والی خاتون نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پرواشنگٹن پوسٹ سے کہا ”میں ایک نئی زندگی جی رہی تھی، میں خوش تھی، میں نے سوچا کہ میں اپنے پہلے شوہر سے محفوظ ہوں، لیکن اب مجھے نہیں لگتا تھا کہ میں دوبارہ اس سے چھپ پاؤں گی۔“

خاتون کا تعلق ایک دیہی علاقے سے تھا، لیکن کئی سالوں سے وہ ایک شہری علاقے میں محفوظ طریقے سے رہ رہی تھیں۔

لیکن جب پچھلی حکومت کا تختہ الٹ دیا گیا تو قانونی نظام اور سیکورٹی فورسز جو کبھی ان کی حفاظت کرتی تھیں راتوں رات تحلیل ہو گئیں۔

بائیس سالہ خاتون نے بتایا کہ انہیں طالبان کے قبضے کے چند ہفتوں بعد ہی اپنے سابق شوہر کی طرف سے دھمکی آمیز کالیں آنے لگیں۔

خاتون کے مطابق ان کے سابق شوہر نے اپنے آبائی گاؤں میں طالبان کے ارکان کو بتایا تھا کہ میں نے کیا کیا ہے اور وہ مجھے ڈھونڈنے اور بدلہ لینے میں اس کی مدد کر رہے ہیں۔

پچھلے سال، ان کے دوسرے شوہر نے انہیں اس خوف سے چھوڑ دیا تھا کہ ان پر بھی زنا کا الزام لگایا جا سکتا ہے، کیونکہ ان کی شادی کو اب جائز نہیں سمجھا جاتا۔

وہ اپنی پہلی شادی سے ہوئی اپنی دو جوان بیٹیوں کے ساتھ تنہا رہ گئی ہیں۔

ان کے پڑوسیوں نے شوہر کے بارے میں سوالات پوچھنا شروع کر دیے، اور طالبان کی سکیورٹی فورسز معمول کے مطابق گھر گھر تلاشی لے رہی تھیں۔

تو وہ اپنی بیٹیوں کے ساتھ دوسرے علاقے میں بھاگنے پر مجبور ہوگئیں، وہ چار بار اپنی رہائش تبدیل کرچکی ہیں، انہوں نے اپنے باقی خاندان کو اس ڈر سے نہیں دیکھا کہ ان کے ملنے سے سابق شوہر کو ان کا پتہ لگانے میں مدد مل سکتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ جب میں گھر سے نکلنے سے خوفزدہ ہوتی ہوں تو اپنی بیٹیوں کو بیکری سے باسی روٹی کی بھیک مانگنے کے لیے بھیجتی ہوں تاکہ ہمارے پاس کھانے کے لیے کچھ ہو۔ طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے ان سوالوں کا جواب دینے سے انکار کر دیا کہ طالبان کے دور میں طلاق کا قانون کیسے تبدیل ہوا یا افغانستان کی سابقہ حکومت کے دوران دی گئی طلاقوں کی حیثیت کیا ہے۔ لیکن ذبیح اللہ مجاہد نے کہا کہ دونوں فریقوں کو طالبان کے اسلامی قانون کی تشریح کے تحت طلاق کی درخواست کرنے کے لیے جج کے سامنے پیش ہونا چاہیے۔

طلاق کے سوا کوئی چارہ نہیں

افغانستان کے گہرے قدامت پسند معاشرے نے پچھلی حکومت کے دور میں بھی خواتین کے لیے طلاق حاصل کرنا مشکل بنا دیا تھا۔ خاص طور پر دیہی علاقوں میں، جہاں خواتین کے لیے روایتی خاندانی یونٹ سے باہر رہنا نایاب ہے۔

ایک 36 سالہ خاتون نے بتایا کہ ان کی شادی شدہ زندگی میں اتنی بدسلوکی تھی کہ سماجی اور خاندانی دباؤ کے باوجود انہیں لگا کہ ان کے پاس طلاق لینے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ میرے لیے طلاق کا مطالبہ کرنا شرمناک بات تھی۔ ”میرے خاندان کے دونوں فریق مجھے دھمکیاں دے رہے تھے کہ اگر میں اپنے شوہر کے پاس واپس نہیں آئی تو مجھے جان سے مار دیں گے۔“

طلاق ملنے کے بعد، انہوں نے اپنے بھائیوں سے رابطہ کیا کہ آیا وہ اپنے خاندانی گھر واپس جا سکتی ہیں۔ لیکن انہوں نے مدد کرنے سے انکار کر دیا۔

”انہوں نے کہا کہ واحد آپشن یہ ہے کہ اگر آپ چوہے کا زہر کھا لیں اور خود کو مار ڈالیں۔“

خاندان کا واحد فرد جس سے وہ ابھی تک رابطے میں ہیں وہ ان کی بہن ہیں، جن کا شوہر بھی انہیں مارتا ہے۔

”اس نے مجھے بتایا، ’کاش میں آپ کی طرح ہوشیار ہوتی اور پہلے ہی فرار ہوجاتی، لیکن اب طالبان کے تحت یہ ناممکن ہے۔“

ایک اور خاتون، جو تین بچوں کی ماں ہیں بتاتی ہیں کہ ان کا پہلا شوہر منشیات کا عادی تھا، اس نے انہیں مارا پیٹا اور انہیں اور ان کے بچوں کو مناسب خوراک فراہم کرنے سے انکار کیا۔ گھر سے بھاگنے کے بعد انہیں پکڑ لیا گیا اور تقریباً ایک سال تک قید میں رکھا گیا۔ ان کے شوہر کے گھر والے ان کے بیٹوں اور بیٹی کو ان سے دور لے گئے۔

بعد میں انہیں خواتین کی پناہ گاہ میں منتقل کر دیا گیا اور کئی سالوں تک بغیر کھڑکی والے کمرے میں رکھا گیا۔

ان کا کہنا تھا کہ ”یہ ایک دوسری جیل کی طرح محسوس ہوا۔“

طلاق لینے اور دوبارہ شادی کرنے کے بعد ہی وہ پناہ گاہ کو چھوڑنے کے قابل ہوئی تھیں۔ انہوں نے وضاحت کی کہ اپنی اور اپنے بچوں کی کفالت کا کوئی دوسرا راستہ نہیں تھا۔ انہوں نے کہا کہ ان کا دوسرا شوہر مہربان تھا اور انہیں گھر اور کھانا فراہم کرتا تھا۔ لیکن طالبان کے اقتدار سنبھالنے کے بعد انہیں اپنے سابق شوہر کے خاندان کی طرف سے دھمکیاں ملنا شروع ہو گئیں۔ ان کا نیا شوہر غائب ہو گیا۔

”پہلے تو وہ مجھے فون کر کے پیسے بھیجتا تھا، لیکن اب مہینوں ہو گئے ہیں اور میں نے اس کی طرف سے کوئی بات نہیں سنی۔“

ان کا کہنا تھا کہ ”میں صرف اپنے بچوں کو تعلیم دینا چاہتی تھی، لیکن اب میں انہیں اسکول میں بھی نہیں ڈال سکتی۔“

انہوں نے ڈرتے ہوئے کہ اگر مقامی حکام کو ان کے ماضی کے بارے میں پتہ چل جائے تو وہ اسے (سابق شوہر کو) مطلع کردیں گے۔

’دروازے پر دستک‘

ثنا 15 سال کی تھیں جب انہوں نے اپنے کزن سے شادی کی جو اس سے 10 سال بڑا تھا۔

ثنا نے ایک گھر میں گیس کے چولہے پر چائے بناتے ہوئے اپنی آنسو چھپانے کی کوشش کرتے ہوئے بتایا، ”اگر ہمارا بچہ روتا یا کھانا اچھا نہیں ہوتا تو وہ مجھے مارتا۔“

”وہ کہتا تھا کہ عورت کو بات کرنے کا حق نہیں ہے۔“

ایک مفت قانونی خدمت کے منصوبے کی مدد سے انہوں نے عدالت میں اپنے شوہر سے طلاق حاصل کر لی، لیکن ان کے پرسکون دنوں کا اختتام تب ہوا جب طالبان کمانڈر ان کے دروازے پر دستک دینے لگے۔

اپنی چار بیٹیوں کی تحویل سے محروم ہونے کی دھمکی کے بعد، وہ اپنے سابق شوہر کے پاس واپس آگئیں جو اس وقت تک دوسری شادی بھی کر چکا تھا۔

جب اس نے اپنی بیٹیوں کو طالبان کے ساتھ بیاہنے کا اعلان کیا تو وہ فرار ہوگئی۔

ثنا نے بتایا، “میری بیٹیوں نے کہا، ’ماں، ہم خودکشی کر لیں گے‘۔

وہ کچھ پیسے اکٹھے کر کے اپنے بچوں کے ساتھ فرار ہونے میں کامیاب ہو گئیں اور ایک رشتہ دار کی مدد سے انہیں ایک کمرے کا گھر مل گیا، جس میں صرف گیس کا چولہا اور سونے کے لیے کچھ کشن تھے۔

”جب بھی دروازے پر دستک ہوتی ہے، مجھے ڈر لگتا ہے کہ اس نے مجھے ڈھونڈ لیا ہے اور بچوں کو لے جانے آیا ہے۔“

بچوں کے لیے آزمائش

طالبان کے ایک اہلکار نے اے ایف پی کو بتایا کہ حکام ایسے معاملات کا جائزہ لیں گے جن میں طلاق یافتہ خواتین کو اپنے سابقہ شوہروں کے پاس واپس جانے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔

طالبان کی سپریم کورٹ کے ترجمان عنایت اللہ نے کہا، ”اگر ہمیں ایسی شکایات موصول ہوتی ہیں، تو ہم شریعت کے مطابق ان کی تحقیقات کریں گے۔“

جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا طالبان حکومت پچھلی حکومت کے دور میں دی گئی طلاقوں کو تسلیم کرے گی؟ تو انہوں نے کہا، ”یہ ایک اہم اور پیچیدہ مسئلہ ہے۔“

انہوں نے شریعت سے متعلق احکامات جاری کرنے والے عدالت سے منسلک ایک ادارے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا، ”دارالافتاء اس کا جائزہ لے رہا ہے۔ جب وہ یکساں فیصلے پر پہنچے گا، تب ہم دیکھیں گے۔“

کپڑے سلائی کر کے زندہ رہنے کی کوشش کرنے والی مروہ اور ان کی بیٹیون پر اس صدمے نے گہرے نفسیاتی زخم چھوڑے ہیں۔

مروہ نے اپنی بیٹیوں کی طرف دیکھتے ہوئے کہا، ”مجھے ڈر ہے کہ میں ان کی شادی نہیں کر سکوں گی۔“

”وہ مجھے کہتی ہیں، ’ماں، آپ کی زندگی کتنی بری گزری ہے، ہمیں شوہر کے لفظ سے نفرت ہے‘۔“

afghanistan

afghan taliban

Aurat March 2023

Divorced Women

Abusive Husbands