Aaj News

اتوار, دسمبر 22, 2024  
19 Jumada Al-Akhirah 1446  

ہر شریف آدمی چاہے بھارتی ہو یا پاکستانی امن چاہتا ہے، جاوید اختر

جاوید اختر کا کہنا تھا کہ پاکستان میں بہت ہی خوبصورت لوگ ملے

معروف بھارتی شاعر اور مصنف جاوید اختر کہتے ہیں کہ میں سمجھتا ہوں ہر شریف آدمی چاہیے بھارت کا ہو یا پاکستان امن چاہتا ہے۔

آج ٹی وی کے پروگرام ”اسپاٹ لائٹ“ میں میزبان منیزے جہانگیر سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے جاوید اختر کا کہنا تھا کہ ہم سب لوگ اُمید پر ہی جی رہے ہیں، کیونکہ عام آدمی خواہ کسی بھی ملک کا ہو اسے کوئی جنگ کا شوق نہیں، ہر آدمی امن چاہتا ہے اور اگر عام آدمی دشمن بھی بنتا ہے تلخ بھی ہوتا ہے تو اسے لگتا ہے دوسرا میرے امن کو خراب کردے گا اس لیے وہ جنگ کرنا چاہتا ہے ۔

انہوں نے کہا کہ کہتے ہیں کوئی بھی جھگڑا 5 منٹ سے اوپر چلے تو دونوں فریقین غلط ہوجاتے ہیں، بات بڑی الجھی ہوئی ہے، سب کا اپنا نظریہ ہے، لیکن میں سمجھتا ہوں کہ ہر شریف آدمی چاہے بھارت کا ہو یا پاکستان امن چاہتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہر آدمی چاہتا ہے تجارت کا تبادلہ ہو ، ثقافت کا تبادلہ ہو لیکن ہم صرف تمنا کرسکتے ہیں کیونکہ یہ سب دونوں ملکوں کی حکومتوں کے ہاتھ میں ہوتا ہے۔

پاک بھارت کشیدگی

انہوں نے کہا کہ ہم جتنی بھی نظمیں لکھ دیں، فلمیں بنادیں یا پینٹنگ بنادیں، ایک چھوٹا سا واقعہ ان سب چیزوں پر پانی پھیر دیتا ہے ۔

ان کا کہنا تھا کہ ”آپ اکثریت اور اقلیت کی وہ تعریف بنالیں جو مستقل ہے، جو دائمی ہے، تو جمہوریت اسی دن ختم ہوگئی جب سیکولرازم نہیں ہے، تو اکثریت اور اقلیت کی تعریف مستقل ہوگی، جمہوریت ڈیموکریسی افورڈ نہیں کرسکتی ہے۔“

ان کا کہنا تھا کہ اردو شاعری اینٹی اسٹیبلشمنٹ تھی واعظ ،محتسب، شیخ ، ملا اور زاہد اس کے ولن ہیں جبکہ رند اور عاشق اس کے ہیرو ہیں ۔

انہوں نے کہا کہ ایک ہی ملک تھا اتنے ملکوں میں جو مسلم ورلڈ کہلاتا ہے وہ تھا ’ترکی‘ جہاں ترقی پسند رویے تھے اور اب وہاں بھی وہی مایوسی نظر آتی ہے ۔

جادو سے جاوید کا سفر

اپنے نام کی تبدیلی کے حوالے سے انہوں نے بتایا کہ گوالیار میں پیدا ہوا تھا، کسی نے مشورہ دیا نام جادو رکھ دو لیکن جب اسکول میں داخلہ لیا تونام جادو سےجاوید ہوگیا۔

انہوں نے بتایا کہ نوجوانی میں بہت مشکل اوراچھا وقت دیکھا، جب 1964 بمبئی آیا بہت ہی کٹھن سفر تھا لیکن مشکل حالات میں میرے دوستوں نے میری بڑی مدد کی ۔

سلیم اور جاوید کی جوڑی

جاوید اختر کا کہنا تھا کہ 19 سال کی عمر ایک فلم ’سرحدی لٹیرا‘ کا ڈائیلاگ لکھے اور 100 روپے ماہانہ پر اسسٹنٹ لگ گیا تھا، وہ چھوٹی فلم تھی اور کوئی اس کے ڈائیلاگ نہیں لکھ رہا تھا اور اسی فلم میں سلیم خان ایک کردار ادا کررہے تھے، وہیں سلیم خان سے ملاقات ہوئی۔

پھر سلیم خان کے ساتھ ہی 20سال کی عمرمیں پہلی فلم کااسکرپٹ لکھا تھا، 1969 میں اسکرین پلے لکھنے کے ڈھائی ہزار روپے ملے اور وہ ڈھائی ہزارروپے ہمارے لئے لاٹری کی طرح تھے۔

فلمی سفر

فلمی کریئر کے حوالے سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جہاں تک اداکاروں کا تعلق ہے میں نے زیادہ تر امیتابھ کے ساتھ کام کیا ہے اور میں ان کو بہت اچھا اداکار سمجھتا ہوں ۔

رائٹر بڑے تنقیدی لوگ ہوتے ہیں کہ ہم کیا لکھا تھا اداکار نے کیا کردیا لیکن میں امیتابھ کے ساتھ تقریبا 14 فلمیں امیتابھ کے ساتھ کی ہیں لیکن مجھے ایک بار بھی ان سے شکایت نہیں ہوئی بلکہ میرے لکھے گئے کئی سین کو انہوں نے اپنی پرفارمنس سے دوبالا کردیا ۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ ہماری تین فلمیں بڑی ہٹ ہوچکی تھیں جن میں انداز ، ہاتھی میرا ساتھی اور سیتا اور گیتا۔ یہ تینوں بے بہت زیادہ مقبول ہوئیں لیکن اس زمانے میں سن 60 کی دہائی میں رواج نہیں رائٹر کا نام فلم کے پوسٹر پر لکھا جائے تو ہم نے کہا بھئی ہمارا نام بھی دیجئے تو کہتے تھے نہیں بھئی رائٹر کا نام کوئی نہیں لکھتا۔ پھر ہم نے دو جیپ کرائے پر لیں اور اپنے آدمیوں سے کہا کہ برش اور رنگ ہے تم لوگ جاو اور سارے پوسٹر پر ہمارے نام لکھ دو ۔

پاکستان کی آمد سے متعلق ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں جب بھی آتا ہوں بہت پیارملتاہے، فیض میلہ میں شرکت کرکے خوشی ہوتی ہے اور پاکستان سے یہ خوشگوار یادیں لیکرواپس جاؤں گا۔

Javed Akhtar