Aaj News

جمعہ, نومبر 22, 2024  
19 Jumada Al-Awwal 1446  

’آفتاب سلطان ابہام نہ چھوڑیں، بتائیں دباؤ کس نےڈالا‘

آفتاب سلطان نے جن لوگوں سے خطاب کیا وہ ملک کے کرپٹ ترین لوگ ہیں، میں ان کے منہ پر کہنے کو تیار ہوں، شاہد خاقان
شائع 21 فروری 2023 09:23pm
Exclusive interview of Shahid Khaqan Abbasi | Faisla Aap Ka with Asma Shirazi

سابق وزیراعظم اور مسلم لیگ (ن) کے رہنما شاہد خاقان عباسی کا کہنا ہے کہ نیب کی جو حقیقت ہے وہ پورے پاکستان کے سامنے ہے۔

آج نیوز کے پروگرام ”فیصلہ آپ کا“ میں گفتگو کرتے ہوئے شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ میں چار سال سے پیشیاں بھگت رہا ہوں، میں اور میرا وکیل آج ٹریفک میں پھنس گئے اور عدالت میں پیش نہ ہوسکے، جس پر عدالت نے اظہار ناراضی کرتے ہوئے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کردئے۔

انہوں نے کہا کہ میں ہمیشہ کہتا ہوں ملک میں انصاف کا ایک ہی نظام ہونا چاہئے۔ میں تو نیب کو کہتا ہوں ہمارا کیس چلائیں آپ کے ثبوت ہے، گواہ ہے، آئیں بات کریں ہم پر الزام لگائیں، آج تک یہ کر نہیں سکے۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ میں نے نیب کے نئے قانون کا سہارا نہیں لیا۔

چئیرمین نیب کے مستعفی ہونے اور حکومت پر الزامات کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ آفتاب سلطان کو صاف بات کرنی چاہئیے تھی کہ وہ کیوں چھوڑ رہے ہیں، میرا ان سے ایک شکوہ رہے گا کہ انہوں نے ان غریب لوگوں کے مقدمات واپس نہیں لئے جو سالہا سال سے عدالتوں میں پھر رہے ہیں۔

شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ آفتاب سلطان کو ابہام نہیں چھوڑنا چاہئیے، انہیں بتانا چاہئیے کہ دباؤ کس نے ڈالا ہے، آفتاب سلطان صاحب اس کی وضاحت کردیں تو بہتر ہوگا۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ وزیراعظم کا کیس نیب کا نہیں ایف آئی اے کا تھا، اسی معاملے میں نیب نے انکوائری بند کردی تھی۔ ایف آئی اے میں سیاسی انتقام کے طور پر انکوائری کھولی گئی۔ احسن اقبال کو ریلیف نیب سے نہیں ہائی کورٹ سے ملا ہے۔

شاہد خاقان کا کہنا تھا کہ نیب کے ہوتے ہوئے کوئی کاروبار نہیں ہوسکتا، نیب کو ختم کردینا چاہئے اس نے ملک کو تباہ کردیا ہے۔

ن لیگی رہنما کا کہنا تھا کہ میں سال 2000 سے نیب کے کیسز بھگت رہا ہوں، جتنا وسیع تجربہ میرا نیب میں ہے شاید ہی کسی کا ہو، پہلا کیس جو بنا وہ نو سال چلتا رہا، جنرل مشرف کے دور میں نو سال ہم عدالت میں آتے رہے، نہ کوئی وکیل آتا تھا نہ پراسیکیوٹر۔ اس کے بعد انہوں نے کہا کہ کوئی ثبوت ہی نہیں تم بری ہوگئے۔

سابق چئیرمین نیب جسٹس (ر) جاوید اقبال کے حوالے سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہم نے جاوید اقبال کو سپریم کورٹ کا جج دیکھتے ہوئے چئیرمین نیب لگایا تھا، میں اس پر معافی بھی مانگ چکا ہوں، مجھے نہیں پتا تھا کہ وہ اس قسم کے کیریکیٹر کے آدمی ہیں، ان کو یہ اختیار نہیں دیا تھا کہ وہ لوگوں کی زندگیوں سے کھیلیں اور یہ تماشے کریں جو اس آدمی نے کئے ہیں۔

کیا حکومت انتقاماً نیب میں کیسز بنوا رہی ہے؟ اس سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ اگر ہماری حکومت نیب کو کہہ کر کیسز بنوا رہی ہے تو یہ غلط کر رہی ہے، میں اس کے حق میں نہیں ہوں۔ انہوں نے کہا کہ اگر ثبوت موجود ہے تو نیب کو بتائیں، وہ اسے ریویو کرکے کیس بنا دے گا۔

آج نیب کی جانب سے عمران خان اور ان کی اہلیہ کو طلبی کے نوٹس کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ اگر نیب نے عمران خان اور بشریٰ بی بی کو بلایا ہے تو ٹھیک ہے، میں نے سینکڑوں انکوائریاں بھگتی ہیں، میں گرفتاری کے حق میں نہیں ہوں، اگر آپ کے پاس کوئی بات ہے آپ سوال پوچھیں، وہ انکوائری دیں یہ ان کا حق ہے۔

حالیہ مستعفی چئیرمین نیب آفتاب کے بارے میں انہوں نے کہا کہ آفتاب سلطان نے جن لوگوں سے خطاب کیا وہ ملک کے کرپٹ ترین لوگ ہیں، میں ان کے منہ پر کہنے کو تیار ہوں، جتنے افسران نیب کے کرپٹ ہیں شاید ہی پاکستان کے کسی ادارے کے ہوں، احتساب کا ادارہ ہی سب سے زیادہ قابل احتساب ہے۔

پرویز الہیٰ اور جج آڈیو لیک معاملے پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ایک جج پر الزام لگ جائے تو اس کا طریقہ یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے آپ کو علیحدہ کرلیں، اور خود کو جوڈیشل کونسل کے سامنے پیش کردیں، یہ اس عہدے کی ضرورت ہوتی ہے جس پر وہ بیٹھے ہیں۔ اگر وہ نہیں کرتے تو خود بھی بدنام ہوں گے ادارہ بھی بدنام ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کے جج سے بڑا عہدہ اس ملک کے جوڈیشل نظام میں نہیں ہے، ایک طرح سے آپ کے پاس خدائی اختیارات ہوتے ہیں۔

صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کی جانب سے دو اسمبلیوں کے انتخابات کی تاریخ دئے جانے پر انہوں نے کہا کہ آئین الیکشن کمیشن کو الیکشن کروانے کی ذمہ داری دیتا ہے، آئین کہتا ہے کہ تمام ملکی ادارے الیکشن کرانے کیلئے اس کی مدد کو آئیں۔ اب صدر صاحب کہاں اس کے اندر آگئے مجھے اس کا نہیں پتا، انہوں نے کہاں سے خود تاریخ دے دی۔

شاہد خاقان نے کہا کہ الیکشن کمیشن سمجھتا ہے انہوں نے صحیح تاریخ دی ہے تو اس تاریخ پر الیکشن کروا دے۔ بات عدالت تک بھی جاسکتی جو آئین کے اس آرٹیکل کی تشریح کرے گی جس کے تحت صدر نے تاریخ دی۔

ان کا کہنا تھا کہ جب آپ کے فیصلے ایسے ہوں جو آئین سے بالکل ہٹ کر ہوں تو عدالتوں سے تھوڑا ایمان بھی اٹھ جاتا ہے۔ آئین کی تشریح سے آئین میں تبدیلی ہو تو اعتماد نہیں رہتا۔

مسلسم لیگ (ن) کی جانب سے جسٹس مظاہر علی نقوی اور جسٹس اعجازالاحسن پر عدم اعتماد کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کے دوججز پر اعتماد نہیں رہا، انہوں نے اپنے عمل سے ثابت کیا ہے کہ ان پر اعتماد ہم نہیں کرسکتے، وہاں انصاف کی توقع نہیں ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ جس کے خلاف کیس ہو اس کا حق ہوتا ہے کہ وہ ججز پر عدم اعتماد کا اظہار کرسکتا ہے۔

ملکی معیشت پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جب تک ہم قرض ادا کر رہے ہیں ڈیفالٹ نہیں کہا جاسکتا، عوام کو مہنگائی سے بچانے کیلئے مشکل فیصلے کرنا ہوں گے۔

انہوں نے کہا کہ دفاعی اخراجات کےعلاوہ حکومت 560 ارب روپے سے چلتی ہے، صرف پنشن کی ادائیگی 600 ارب ہوچکی ہے، دفاعی بجٹ اس کے علاوہ ہے۔

اپنے استعفے اور جماعت میں اختلاف کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ ن لیگ میں سب اچھا ہے، سیاسی جماعتوں میں اختلاف رائے رہتا ہے۔

’یہ میری حکومت نہیں‘ مریم نواز کے اس بیان کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ مریم صاحبہ نے کس کانٹیکسٹ میں کہا مجھے اس کا علم نہیں، لیکن یہ حکومت پاکستان مسلم لیگ (ن) کی ہی ہے۔ اس میں دو رائے نہیں ہے، بے شک اتحادی حکومت ہے اور اس پر ہمارا مکمل اختیار نہیں ہے، یہ ایک اقلیتی حکومت ہے، درکار نمبروں کا چالیس فیصد ہمارے پاس ہے باقی دوسری جماعتیں ہیں ، فیصلوں میں سب شامل ہیں۔

ایسے کیا اختلافات تھے، جن کی بنا پر شاہد خاقان عباسی نے پارٹی رُکنیت سے استعفیٰ دیا؟

انہوں نے کہا کہ مجھے کسی نے ہٹایا نہیں میں نے استعفا دیا تھا اور کسی اختلاف کی بنیاد پر استعفا نہیں دیا، میرا ایک اصول تھا جس کے بارے میں، میں نے کئی سال پہلے جماعت کو آگاہ کردیا تھا، میں نے اکتیس سال جماعت کا کوئی عہدہ نہیں رکھا تھا، وزیراعظم بنا تو جماعت کی مہربانی تھی میرے پاس کوئی عہدہ نہیں تھا۔

انہوں نے بتایا کہ میں نے کہا تھا جب بھی قیادت میں تبدیلی آئی تو میرا وہاں رہنا مناسب نہیں ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ مریم جو مشاورت کرنا چاہیں میں حاضر ہوں۔

نواز شریف کے وطن واپسی نہ ہونے پر شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ میاں صاحب کی واپسی کا تعلق حکومت سے نہیں ان کی بیماری سے ہے، وہ واپسی کا فیصلہ خود کریں گے کہ کب اور کیسے آنا ہے۔ ان کے مقدمات اپیل میں پڑے ہیں ، عدالت نے مفرور قرار دیا ہے تو وہ آکر عدالت کو سرینڈر کریں گے۔

عمران خان کی ممکنہ نااہلی پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اگر انصاف کا نظام ایک ہے تو عمران خان کو دس ہزار مرتبہ نااہل ہونا ہے، اگر دس ہزار درہم نہ لینے پر نااہل کرسکتے ہیں تو اربوں کھانے پر بھی نااہل کرسکتے ہیں۔

Shahid Khaqan Abbasi