Aaj News

اتوار, دسمبر 22, 2024  
19 Jumada Al-Akhirah 1446  

کے پی او حملہ: 100 مشکوک فون نمبرز اور مالکان بدلتی گاڑی

ہینڈ گرینیڈ،2 نئے پستول کے علاوہ ڈیجیٹل کیمرہ، اسمارٹ فون، 2 گھڑیاں اور مردانہ پرس ملا ہے
اپ ڈیٹ 19 فروری 2023 07:22pm
فوٹو۔۔۔۔۔۔ اسکرین گریب
فوٹو۔۔۔۔۔۔ اسکرین گریب

کراچی پولیس چیف کے دفتر (کے پی او) پر دہشت گرد حملے کی تحقیقات میں پیش رفت کا سلسلہ جاری ہے۔

دورانِ تحقیقات کے پی او کے اطراف جیو فینسنگ اور فائنل سرچنگ بھی کی گئی، جس میں مزید 12 اشیاء محفوظ کی گئیں۔

تحقیقاتی اداروں کی جانب سے حملے کے وقت 100 سے زائد نمبروں کو مشکوک قرار دیا گیا ہے، جن میں سے 10 سے 12 نمبر حملے کے بعد سے بند ہیں۔

حکام کے مطابق نمبروں سے بیرون شہر کا بھی کال ڈیٹا ملا ہے، بند نمبروں کی جانچ اور ان کے کوائف حاصل کئے جارہے ہیں۔

سرچنگ میں مزید سامان برآمد

اس کے علاوہ اعلیٰ پولیس افسران کی ہدایت پر کے پی او کی بلڈنگ، پارکنگ اور اطراف میں ایک بار پھر سرچنگ کی گئی۔

رپورٹ کے مطابق سرچنگ میں ملنے والی اشیاء میں یک ہینڈ گرنیڈ، پلاسٹک بکس میں پیک دو نئے پستول بمع مکمل سامان، نائن ایم ایم کی نئی گولیوں کا پیکٹ، ایک خنجر، سونی ڈیجیٹل کیمرہ، اسمارٹ موبائل فون، دو گھڑیاں، ایک مردانہ پرس، چلی ہوئی اور بغیر چلی ہوئی 210 گولیاں، دستی بم کے ٹکڑے، خودکش جیکٹ کا جلا ہوا کپڑا، جلا ہوا بیگ، یو ایس بی اور پستول ہولڈر بھی ملا۔

بم ڈسپوزل اسکواڈ نے تمام سامان محفوظ کر کے صدر پولیس کے حوالے کر دیا۔

حملے میں استعمال ہونے والی گاڑی

حملے میں استعمال ہونے والی گاڑی ملیر میں واقع شوروم سے 2013 میں خریدی گئی، 2014 میں گاڑی کامران نامی شخص نے اس ہی شوروم پر فروخت کردی۔

شوروم مالکان نے گاڑی حسیب نامی شخص کو فروخت کی، حسیب نے بھی گاڑی دوبارہ اس ہی شوروم کو فروخت کی۔

ذرائع کے مطابق کچھ عرصے بعد گاڑی جمیل نامی شخص کو فروخت کی گئی۔

شوروم کا مالک اس وقت پنجاب میں ہے جسے حکام نے کراچی طلب کر لیا ہے۔

حکام کے مطابق واقعے میں حراست میں لیے گئے کامران نامی شخص کو ضمانت پر رہا کر دیا گیا ہے، مقدمے میں گاڑی نمبر ”اے ایل ایف 043“ ذکر کیا گیا ہے۔

پولیس کے مطابق گاڑی دہشت گردوں تک کیسے پہنچی تحقیقات کا بھی سلسلہ جاری ہے۔

کے پی او حملہ: سفارش کے باوجود سیکیورٹی انتظامات بہت نہیں کیے گئے

کراچی پولیس آفس پر حملے کے حوالے سے انکشاف ہوا ہے کہ پہلے ہی سیکیورٹی انتظامات بہتر کرنے کی سفارش کی گئی تھی مگر اس پر عمل درآمد نہیں کیا گیا۔

مزید پڑھیں: کراچی پولیس آفس حملہ: ہلاک دہشتگردوں کی شناخت ہوگئی، ناقص سیکیورٹی حملے کی وجہ بنی

رپورٹ کے مطابق 29 جون کو اسٹاک ایکسچینج پر حملے کے بعد سکیورٹی بہتر کرنے کی سفارش کی گئی تھی تاہم فنڈز جاری نہ کیے جانے کی بنا پر پولیس آفس کے سکیورٹی انتظامات بہتر نہ کیے جاسکے۔

اسٹاک ایکسچینج حملے کے بعد 11 جولائی 2020 کو سکیورٹی اجلاس ہوا تھا، اجلاس میں کے پی او میں ایمرجنسی سیڑھیاں لگانے، عمارت کی چوتھی منزل پر گرل لگانے اور صدر پولیس لائن کے راستے پر بیریئر لگانے کا بھی کہا گیا تھا۔

مزید پڑھیں: بم ڈسپوزل اسکواڈ نے کراچی پولیس آفس حملے کی رپورٹ مرتب کرلی

سکیورٹی اجلاس میں صدر پولیس لائن میں مسجد کی دیوار پر خاردار تار لگانے اور گراؤنڈ فلور پر بنے کنٹرول روم کی سکیورٹی بھی بڑھانے کی سفارش کی گئی تھی۔

اس وقت کے اے آئی جی غلام نبی میمن نے نوٹ شیٹ پر احکامات دیے تھے مگر فنڈ جاری نہیں ہوئے، 3 سال سےسفارشات پرعمل نہیں کیاجاسکا۔

Karachi Police Office Attack

KPO Attack

searching

bds