Aaj News

جمعہ, نومبر 22, 2024  
19 Jumada Al-Awwal 1446  

کراچی پولیس آفس حملہ: ہلاک دہشتگردوں کی شناخت ہوگئی، ناقص سیکیورٹی حملے کی وجہ بنی

حملہ آوروں نے دستی بم بھی پھینکے
تصویر: روئٹرز
تصویر: روئٹرز
میب/ آج نیوز
میب/ آج نیوز
فوٹو — رائٹرز
فوٹو — رائٹرز
ایدھی ایمبولینس اور پولیس موبائل جائے وقعہ پر موجود ہے۔ فوٹو — اسکرین گریب
ایدھی ایمبولینس اور پولیس موبائل جائے وقعہ پر موجود ہے۔ فوٹو — اسکرین گریب
  • 3 دہشت گردوں نے کراچی پولیس چیف کے دفتر پر حملہ کیا
  • پولیس دفتر کراچی کے شاہراہ فیصل پر واقع ہے
  • حملہ آوروں نے دستی بم بھینکے اور گولیاں چلائیں
  • دہشت گرد پولیس دفتر میں موجود تھے
  • کراچی پولیس آفس رہائشی علاقے اور آفس بلاکس کے ساتھ واقع ہے
  • سڑک کے اس پار، فنانس اینڈ ٹریڈ سینٹر موجود ہے جوکہ ایک معروف تاریخی مقام ہے
  • فائرنگ کے تبادلے میں 3 دہشتگرد ہلاک ہوئے، ایک نے خود کو اڑا لیا

کراچی کے علاقے شاہراہ فیصل کے مقام پر صدر تھانے سے متصل ایڈیشنل آئی جی سندھ کے دفتر پرحملے میں جوابی کارروائی کے دوران پولیس کے دو ، رینجرز کا ایک اور سول ملازم شہید ہوا جبکہ 22 جوان زخمی ہوئے ۔ جوابی کارروائی اور آپریشن کے دوران 3 دہشت گرد مارے گئے، حملہ آور دہشت گرد وں کی شناخت ہوگئی ہے۔

حکام کے مطابق سکیورٹی فورسز نے تمام دہشت گرد کو ہلاک کرکے کراچی پولیس چیف کا دفتر کلیئر کرا لیا، کلیئرنس آپریشن کی قیادت پاک فوج کی 2 کمانڈو ٹیمیں نے کی، رینجرزکی اسپیشل آپریشن ونگ بھی کلیرنس آپریشن میں شامل تھی۔

دہشتگرد گزشتہ روز شام 7 بجکر 10 منٹ پولیس آفس میں داخل ہوئے تھے۔ وہ 2 گاڑیوں میں آئے تھے اور دونوں گاڑیوں کو بم ڈسپوزل اسکواڈ کے عملے نے چیک کیا، ایک گاڑی عمارت کے عقب، دوسری سامنے کھڑی ہوئی ملی۔اس کے علاوہ پولیس آفس کے احاطے میں کھڑی کار کے چاروں دروازے کھلے ہوئے ملے تھے۔

شارع فیصل پر واقع کراچی پولیس چیف کے مرکزی دفتر میں گزشتہ شام پولیس وردیوں میں ملبوس دہشت گرد کار پہنچے، اندر داخل ہوتے ہی شدید فائرنگ کی اور دستی بم پھینکے۔ شدید فائرنگ اور بم حملوں سے پورا علاقہ گونج اٹھا

حملے کے فوری بعد پولیس اور رینجرز کی بھاری نفری کراچی پولیس آفس پہنچی اورعمارت کو چاروں اطراف سے گھیرے میں لے لیا ۔ اس دوران دہشت گردوں اور فورسز کے درمیان شدید فائرنگ کا تبادلہ ہوا۔دہشت گرد عمارت میں پھیل گئے اور دستی بم پھینکنے لگے۔

کئی گھنٹوں تک سیکیورٹی فورسزاوردہشتگردوں کے درمیان فائرنگ کا تبادلہ جاری رہا۔ ڈی آئی جی سیکیورٹی مقصود میمن نے کہا کہ 3 دہشتگرد جہنم واصل ہوئے۔ پولیس کی فائرنگ سے دو دہشت گرد مارے گئے جب کہ ایک نے خود کو اڑایا۔

برطانوی خبرایجنسی رائٹرز کے مطابق تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) نے اپنے ترجمان کی طرف سے صحافیوں کو بھیجے گئے ایک پیغام میں حملے کی ذمہ داری قبول کی۔

دہشت گردوں کے حملے میں پولیس اہلکارغلام عباس،خاکروب اجمل مسیح جاں بحق ہوئے ۔ جبکہ رینجرز کے 6 اہلکار طاہر،عبدالرحیم، عمران، آفتاب، عمیر،محمدلطیف زخمی ہوئے۔

زخمی ہونے والے 5 پولیس اہلکاروں میں لطیف،حاجی عبدالرزاق،عبدالخالق،رضوان،ضراب کے علاوہ ریسکیورضاکار ساجد بلوچ شامل ہیں۔

فورسز کے بہادر جوانوں نے انتہائی جرات اور بہادری کے ساتھ چھپ کر وار کرنے والے دہشت گردوں کا مقابلہ کیا اور چند گھنٹوں میں انہیں جہنم واصل کردیا۔ کارروائی مکمل ہونے پر پوری عمارت کو سرچ کیا گیا جس کے بعد عمارت کو کلیئر قرار دے دیا گیا ۔

ہلاک دہشتگردوں کی شناخت ہوگئی

حملہ کرنے والے تینوں دہشت گردوں کی شناخت کرلی گئی ہے۔

پولیس ذرائع کے مطابق خودکش دھماکا کرنے والے دہشت گرد کا تعلق شمالی وزیرستان سے تھا، جو مقابلے میں مارا گیا اور ایک دہشت گرد لکی مروت کا رہائشی تھا۔

ہلاک ہونے والا تیسرامبینہ دہشت گرد، دتہ خیل شمالی وزیرستان کا رہائشی تھا۔

ہلاک دہشت گردوں کے جسم پر نصب دو خودکش جیکٹس، 8 دستی بم اور تین گرنیڈ لانچر ناکارہ حالت میں ملے اور خودکش جیکٹس 8 سے 10 کلو وزنی تھیں۔

ناقص سیکیورٹی

کراچی پولیس آفس پر حملے سے متعلق تفتیش جاری ہے، ذرائع کے مطابق حملے کے وقت اطراف میں قائم پولیس کی تین چوکیاں خالی تھیں، دہشت گرد پولیس لائن سے اندر داخل ہوئے۔

ذرائع کے مطابق دہشتگرد کے پی او میں عمارت کی عقبی دیوار سے کود کر اندر داخل ہوئے، پولیس لائن کوارٹرز کے داخلی اور خارجی راستے پر سیکیورٹی کے انتظامات نہیں تھے حالانکہ وہاں بنائے گئے 150 کوارٹرز میں پولیس اہلکاروں کے اہلخانہ رہائشی پذیر ہیں۔

ذرائع نے مزید بتایا کہ پولیس لائن کوارٹرمیں کوئی سی سی ٹی وی وی کیمرے نہیں تھے۔دھماکے کے بعد بھی کے پی او کے اطراف پولیس چوکیاں خالی پڑی ہیں ۔

ایک ویڈیو پیغام میں وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے دو پولیس، ایک رینجرز اہلکار اور ایک کراچی پولیس آفس کے ملازم کی شہادت کی تصدیق کی۔

مراد علی شاہ نے کہا کہ اس دہشت گردی کے منصوبے کو ناکام بنانے میں دو پولیس نوجوان، ایک رینجرز اور پولیس اہلکار کے علاوہ مجموعی طور پر چار افراد شہید ہوئے ہیں۔

جناح اسپتال کی انتظامیہ کا کہنا تھا کہ 16 سے افراد زائد زخمی اور دو لاشوں کو اسپتال منتقل کیا گیا، زخمیوں میں رینجرز، پولیس اہلکاروں سمیت ایک ریسکیو رضاکار شامل ہے۔

پولیس کے مطابق حملہ آوروں نے دستی بم بھی پھینکے جب کہ علاقے میں زور دار دھماکوں کی آوازیں سنی گئیں، حملہ آور پولیس چیف کے دفتر کی چھت پر موجود تھے۔

پولیس کا کہنا تھا کہ پولیس ہیڈ آفس میں حملہ آؤر موجود تھے، کراچی پولیس ہیڈ آفس کی لائٹس بند کردی گئی تھیں، آپریشن مکمل ہونے کے بعد لائٹس کھول دی گئیں۔

ڈی آئی جی ساؤتھ عرفان بلوچ نے حملے سے متعلق آج نیوز کو بتایا تھا کہ کم از کم 6 دہشت گرد عمارت میں موجود ہیں، کوشش ہے جلد دہشت گردوں کو گرفتاریا ٹھکانے لگایا جائے۔

پولیس کے مطابق اہلکاروں نے تیسری منزل تک آفس عمارت کلیئر کردی جب کہ پولیس آفس سے 2 لاشیں جناح اسپتال منتقل کی گئیں۔

حکام کے مطابق عمارت کے چوتھے فلور پر زور دار دھماکا ہوا، مبینہ خودکش حملہ آور نے خود کودھماکے سے اڑا لیا جس کے نتیجے میں عمارت کے شیشے بھی ٹوٹے جب کہ عمارت کا کچھ حصہ بھی گر گیا، بعد ازاں فورسز نے عمارت کی چوتھی منزل بھی کلیئر کرالی۔

ریسکیو حکام نے کہا کہ ایک جاں بحق شخص پولیس کی وردی میں ہے، دوسرے شخص کی شناخت نہیں ہو سکی۔

پولیس حکام نے بتایا تا کہ دہشت گرد پولیس کی وردی میں ملبوس ہیں جو کہ عمارت کی چھت پر بھی موجود ہیں۔

کراچی پولیس آفس پر دہشت گردوں کے حملے کا مقدمہ درج

کراچی پولیس آفس پر دہشت گردوں کے حملے کا مقدمہ درج کرلیا گیا۔

مقدمہ سی ٹی ڈی تھانے میں درج کیا گیا، مقدمے میں قتل، اقدام قتل اور پولیس پر حملے کی دفعات شامل کی گئیں۔

مقدمے کے متن میں کہا گیا ہے کہ صدر پولیس لائن کے قریب کھڑی گاڑی کو بھی تحویل میں لے لیا ہے، کار سوار دہشت گردوں کے ساتھ 2 موٹرسائیکل پر بھی آئے، 2 دہشت گرد تینوں دہشت گردوں سے گلے مل کر فرار ہوگئے، موٹرسائیکل پر آنے والے دہشت گردوں نے کار سوار دہشت گردوں کو کے پی او کی نشاندہی کی تھی۔

مقدمے کے متن میں مزید کہا گیا ہے کہ دہشت گردوں سے 5 گرینیڈ اور 2 خودکش جیکٹ ملی جنہیں ناکارہ بنایاگیا، مقدمے میں دھماکا خیزمواد 3 اور 4 کی دفعہ بھی شامل کی گئی ہے۔

دوسری جانب وزیراعلیٰ سندھ بھی کراچی پولیس دفتر پہنچ گئے تھے، اس موقع پر انہوں نے دودہشت گردوں کی ہلاکت اور 5 اہلکار زخمی ہونے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا تھا کہ دہشت گرد تقریباً ساڑھے7 بجے پہنچے تھے۔

مراد علی شاہ نے کہا کہ ہمارا وفاقی حکومت سے رابطہ ہے، ہم سب کی ترجیح کے پی او کو دہشت گردوں سے صاف کرنا ہے، ہم نے صوبے میں الرٹ کردیا ہے۔

تصویر/ گوگل میپ
تصویر/ گوگل میپ

وزیراعلیٰ اور گورنر سندھ کا ایڈیشنل آئی جی کے دفتر پر حملے کا نوٹس، رپورٹ طلب

وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے ایڈیشنل آئی جی سندھ کے دفتر پر حملے کا نوتس لیتے پویئ ڈی آئی جیز کو اپنی زون سے پولیس فورس بھیجنے کی ہدایت کی۔

مرادعلی شاہ نے کہا کہ مجھےفوری طور پر ملزمان گرفتار چاہئیں، حملہ کسی صورت قابل قبول نہیں، تھوڑی دیر کے بعد متعلقہ افسر سے واقعے کی رپورٹ چاہئے۔

گورنر سندھ کامران ٹیسوری نے پولیس چیف کے دفتر پر دہشت گردی کے واقعہ کا نوٹس لیتے ہوئے آئی جی سندھ سے رپورٹ طلب کی تھی۔

کامران ٹیسوری نے دہشت گردوں کے خلاف بھرپور ایکشن لینے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا تھا کہ متاثرہ مقام پر خصوصی فورسز بھیج کر دہشت گردوں سے آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائے۔

وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے ایک ٹویٹ میں لکھا کہ کراچی پولیس پر دہشت گردوں کے حملے کی مذمت کرتے ہیں۔ سندھ پولیس نے اس سے قبل بھی دہشت گردی کا بہادری سے مقابلہ کرکے اسے کچل دیا تھا۔

بلاول بھٹو نے کہا کہ ہمیں پورا یقین ہے کہ سندھ پولیس دوبارہ دہشتگردوں کو کچل دے گی، ایسے بزدلانہ حملے ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکیں گے۔

صدر مملکت اور وزیراعظم کی کراچی پولیس چیف کے دفتر پر حملے کی مذمت

وزیراعظم شہباز شریف نے کراچی پولیس چیف کے دفتر پر حملے کا نوٹس لیتے ہوئے وزیراعلیٰ سندھ سے واقعے کی رپورٹ طلب کی۔

شپباز شریف نے کہا کہ وزیراعظم نے دہشت گردوں نے ایک بار پھر سے کراچی کو نشانہ بنایا ہے، پوری قوم پولیس اور سکیورٹی اداروں کے ساتھ کھڑی ہے۔

اس کے علاوہ صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے زخمی اہلکاروں کی جلد صحتیابی کے لئے دعا کی اور کہا کہ قوم اپنی فورسز کے ساتھ اور دہشت گردوں کے خلاف ہے۔

firing

terrorist attack

Sindh Police

Karachi Police