Aaj News

جمعہ, نومبر 22, 2024  
19 Jumada Al-Awwal 1446  

’اب مداخلت نہیں، جنرل فیض کے وقت ہمیں بجٹ کیلئے فون آتے تھے‘

مہنگائی اور لوڈ شیڈنگ کے خلاف بات کی تو ان کو برا لگا، میری فیملی نے 3 سال نیب میں بھگتے، نور عالم خان
شائع 16 فروری 2023 09:33pm
Exclusive interview of Noor Alam Khan | Faisla Aap Ka with Asma Shirazi

پبلک اکاؤنٹس کمیٹی (پی اے سی) کے چئیرمین نور عالم خان کا اپنے اوپر لگے الزامات کا جوابات دیتے ہوئے کہنا تھا کہ یہ جو کہتے ہیں حکومت گرائی ہے، تو حکومت ایم این ایز نے گرائی ہے، جس وقت حکومت گر رہی تھی اس وقت کسی نے کال نہیں کیا کہ آپ فلانی پارٹی کی سائیڈ لو، کسی انسٹی ٹیوشن، کسی ڈی جی آئی، کسی ڈی جی سی نے کال نہیں کی، یہ میں حلفاً کہتا ہوں۔

آج نیوز کے پروگرام ”فیصلہ آپ کا“ میں میزبان عاصمہ شیرازی سے گفتگو میں نور عالم خان نے کہا کہ پہلے جو ڈی جی آئی تھے تو مداخلت ہوتی تھی، لیکن جب سے یہ آئے ہیں ہم نے مداخلت نہیں دیکھی۔ جنرل فیض کے وقت ہمیں بجٹ کیلئے فون آتے تھے۔

انہوں نے کہا کہ نہ مجھے کسی آئی ایس آئی والے نے کال نہیں کی کہ آپ ووٹ اس طرف دیں یا اس طرف دیں، نہ جنرل باجوہ نے کہا کہ آپ ووٹ دیں یا نہ دیں، ہم نے کوئی پیسے نہیں لئے، ہمارا نظریہ ہے، ہم کہتے ہیں ”پاکستان کم فرسٹ“۔

نور عالم خان کا کہنا تھا کہ جو لوگ جھوٹے بیانات دیتے ہیں انہیں قومی مفاد کی کوئی پروا نہیں، یہ لوگ اپنے ذات مفاد کے بارے میں سوچتے ہیں، بغیر ثبوت کے الزام لگاتے ہیں، پھر معافی مانگتے ہیں اور مکر بھی جاتے ہیں۔

نور عالم بتاتے ہیں کہ میں نے ان کو کہا کہ سارے لیڈران ایک جگہ جمع ہوجائیں خانہ کعبہ چلتے ہیں، جو جس پر الزام لگائے وہ کلئیر ہوجائے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہمارا مؤقف آج بھی صحیح ہے اور ہم اس کے ساتھ کھڑے ہیں ، ہم کہتے ہیں پارلیمنٹ میں رہو، عوام کیلئے آواز اٹھاؤ، ضروری نہیں کہ وزیراعظم رہو۔

انہوں نے کہا کہ جب آپ وزارت میں ہوتے ہیں تومہنگائی یاد نہیں آتی، غریب یاد نہیں آتا، آپ بہانے ڈھونڈتے ہیں۔

عمران خان نے جنرل باجوہ کے خلاف صدر مملکت کو لکھے گئے خط کے سوال پر انہوں نے کہا کہ آپ تحقیقات کی بات کرتے ہیں ، تحقیقات ہونی چاہئیں، آپ 2010 سے نہیں 2012، 13 سے شروع کریں، مداخلت ہوتی تھی 2015 سے پہلے، لوگوں کو شامل کیا جاتا، انہیں کہا جاتا کہ آپ وہاں جاؤ۔

نور عالم خان نے بتایا کہ میں نےمہنگائی اور لوڈ شیڈنگ کے خلاف بات کی تو ان کو برا لگا، میری فیملی نے 3 سال نیب میں بھگتے، میں نے پارلیمانی پارٹی میں اور عمران خان کو کہا کہ میری فیملی کے نام کیوں لے گئے، انہوں نے کہا کہ میں کیوں کروں گا، میں نے کہا کہ وہ کہہ رہے ہیں آپ کے کہنے پر کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ آپ حلف میں لکھ لیں نہ کہ آپ نے فلانی پارٹی کا وفادار بننا ہے پاکستان کا نہیں، آپ نے عوام کے ساتھ وفاداری نہیں دکھانی پارٹی لیڈرز کا غلام بننا ہے۔

نور عالم خان نے اشارتاً کہا کہ “وہ اسپیکر کے کمرے میں بیٹھے ہوتے تھے وہ ہر چیز میں شامل ہوتے تھے، وہ سب مینیج کرتے تھے۔ جس پر عاصمہ نے لقمہ دیا کہ ”جو اس وقت کے دو کرنل تھے۔“

عاصمہ نے کہا کہ ”وہ دو جو تھے وہ پارلیمنٹ کو چلا رہے تھے، اب تو ان کی انکوائری کھل گئی ہے، اور پھر آپ کو فون آتا ہے بجٹ کے اوپر ووٹ ڈالنے کیلئے اعتماد کا ووٹ ڈالنے کیلئے۔“

جس پر نور عالم خان نے کہا کہ ”بالکل بالکل“ باقاعدہ بجٹ کیلئے فون آیا تھا اور ان کو ووٹ کیلئے بھی۔

نور عالم خان کا کہنا تھا کہ عمران خان کے قول وفعل میں فرق ہے، مجھے وزیراعلیٰ ہاؤس میں دھمکی دی گئی، چیف جسٹس آف پاکستان کو سو موٹو لینا چاہئیے تھا کہ چیف منسٹر خیبرپختونخوا کے ہاؤس میں پولیس ، آئی جی، سارے وزراء بیٹھے ہوں، وزیراعلیٰ بیٹھا ہو اور ایک پارٹی کا لیڈر کہتا ہے کہ تم تو آؤ نا خیبرپختونخوا نور عالم، کیا یہ انصاف ہے؟

پی اے سی میں چل رہے معاملات پر بات کرتے ہوئے چئیرمین نور عالم نے بتایا کہ پی ٹی سی ایل کی 850 ملیں ڈالرز کی ڈیل تھی اتصالات سے اور اتصالات کے 26 فیصد شئیر تھے، انہوں نے 26 فیصد پر 100 فیصد لے لیا۔ اب امارات والے پیسے بھی نہیں دے رہے اور غیرقانونی طور پر کنٹرول بھی حاصل کیا ہے۔ اسی طرح کے الیکٹرک بھی ہے، پی ٹی سی ایل اور کے الیکٹرک کی ڈیل کی انکوائری ہوگی۔

انہوں نے بتایا کہ ہم نے آڈیٹر جنرل کے زریعے ڈیم فنڈز کے لیے سپریم کورٹ سے تفصیلات مانگی ہیں، کچھ ادارے آڈٹ شیئرنہیں کرتے، ڈیم فنڈ کی پوری تفصیلات پی اے سی میں نہیں پہنچی ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ڈیفنس منسٹری کے کچھ اداروں کا آڈٹ نہیں ہوتا، ہم نے آڈیٹر جنرل کو کہا ہے کہ سپریم کورٹ کے پیرا دیں۔

نور عالم خان کا کہنا تھا کہ اربوں کھربوں کے کیسز نیب کو دیے ہیں، ایک ایک ادارے سے اربوں کے کیسز سامنے آئیں گے، کرپشن کے کیسز ہیں جو ثبوت کے ساتھ دئے ہوئے ہیں، نیب کی جانب سے سست روی کی وجہ سے ہمارے پاس تفصیلات نہیں آرہی ہیں۔

ان کا کہنا تاھا کہ توشہ خانہ کا رکارڈ میرے پاس ہے، لوگوں نے قالین تک نہیں چھوڑا، 20 25 لاکھ روپے کا قالین ایک ہزار روپے میں خریدا، یہ عمران خان کے دور میں ہوا۔ یہ لوگ ملک سے وفادار کیسے ہوں جو گھڑی نہیں چھوڑتے، پین نہیں چھوڑتے، قالین تک نہیں چھوڑتے۔

Noor Alam Khan

Chairman Public Accounts Committee